کرشن چندر نومبر۱۹۱۴ میں کشمیر کی
ایک ریاست پونچھ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد ڈاکٹر تھے۔ مشہور افسانہ نگار
مہندر ناتھ اور سرلا دیوی ، کرشن چندر کے بھائی اوربہن ہیں۔ کرشن چندر نے
پونچھ سے میٹرک پاس کیا اور لاہور کرسچن کالج سے ایم۔ اے ، ایل ۔ایل بی کیا
کرشن چندر کو بچپن ہی سے ناول اور افسانے پڑھنے کا شوق تھا۔ جو تجارتی
اعتبار سے کامیاب نہیں رہیں۔جس زمانے میں وہ فلمیں بنارہے تھے اس وقت انہوں
نے کہانیاں اور ناول بھی لکھے ۔ کرشن چندر کو۱۹۶۶ میں سویت نہرو ایوارڈ
ملا۔ پھر حکومت ہند نے ان کو پدما بھوشن کا خطاب بھی دیا۔ ان کی کتابوں کا
ترجمہ دنیا کی متعدد زبانوں میں ہوچکا ہے۔ انہوں نے مارچ ۱۹۷۷ میں بمبئی
میں وفات پائی۔
اردو میں ناول نگار ی کی روایتوں کو فروغ دینے اور اردو ناول کے قارئین کے
حلقے کو وسیع تر کرنے کے سلسلے میں کرشن چندر کا نام سب سے نمایاں ہے۔جن کی
ناول نگاری کا آغاز ـ ’’ شکست ‘‘ سے ہوا۔ اس ناول کے علاوہ اب تک ان کے تیس
سے زیادہ ناول چھپ کر منظر عام پر آچکے ہیں جن میں ’’ ایک وائلن سمندر کے
کنارے ‘‘ ، ’’ایک عورت ہزار دیوانے‘‘ ’’ درد کی نہر ‘‘، ’’ باون پتے‘‘،
’’سٹرک واپس جاتی ہے‘‘، ’’ غدار‘‘، ’’ ایک گدھے کی سرگذشت‘‘، ’’ دادر پل کے
بچےُ‘‘، ’’ برف کے پھول‘‘ ، ’’ جب کھیت جاگے‘‘، طوفان کی کلیاں، ’’زرگاؤں
کی رانی ‘‘ ، ’’دل کی وادیاں سوگیئں‘‘ ، ’’ گنگا بہے نہ رات ‘‘ ، ’’چاندی
کے گھاؤ ‘‘، ’’ایک گدھا نیفا میں ‘‘، ’’ مٹی کے صنم ‘‘، ’’کاغذ کی ناؤ‘‘،
’’دوسری برف باری سے پہلے‘‘ وغیرہ کافی مقبول ہوئے۔کرشن چندر کو ناول سے
دلچسپی بچپن سے ہی تھی ۔ اسکول کے زمانے میں ان کا یہ حال تھا کے جو ناول
ملتا اسے پڑھ ڈالتے ۔ابتدائی دور کے بارے میں خود کرشن چندر کہتے ہیں:
’’ پہلی ادبی کتاب جو میں نے پڑھی وہ الف لیلہ کا اردو ترجمہ تھا۔ یہ تیسری
جماعت کا قصہ ہے۔ والد ادبی کتابیں پڑھنے سے منع نہیں کرتے تھے۔ لیکن والدہ
کو سخت اعتراض تھا۔ الف لیلہ کے بعد میں نے سدرشن کی کہانیاں پڑھیں ، پھر
پریم چند کی کہانیں، میڑک تک میں نے بہت سا اردو ادب کھنگال ڈالا۔۱ ‘‘
یعنی یہ عمر ہی کیا ہوتی ہے جس میں بچے کو خود کی کتابوں کو پڑھنا اور
سمجھنا مشکل ہوتاہے اسکے بر خلاف کرشن چندر کی ادب سے وابستگی اور دلی لگاؤ
کا منظر نظر آتا ہے۔ کرشن چندر میں نثر نگاری کی صلاحیت کا اندازہ بھی
اسکول کے زمانے میں ان کے تحریر کردہ مضمون سے متاثر ہوکر ان کے استاد
ماسٹر بشمبر ناتھ نے کہاتھا۔
’’ کرشن ایک دن نثر میں اپنا نام پیدا کرے گا۔۲ ‘‘
اور آج ساری دنیا بخوبی جانتی ہے کہ ان کے استادکی پیشن گوئی سچ نکلی اور
کرشن چندر نے نثر نگاری میں بین الاقوامی شہرت پائی۔ پہلا مزاحیہ مضمون ’’
پروفیسر بلیکی ‘‘ عنوان سے ماسٹر بلاقی رام پر لکھا ۔ یرقان پہلا افسانہ
لکھا جو کے خود پر ہوئے یرقان کے حملے سے متاثر ہو کر انہوں نے لکھا۔اس طرح
کرشن چندر ادب کے میدان میں آگے بڑھتے چلے گئے۔کرشن چندر نے عملی زندگی کا
آغاز لاہور ریڈیو اسٹیشن سے کیا۔ پھر ڈبلیو ۔زیڈ احمد کے بلاوے پر پونا گئے
وہاں سے بمبئی ۔ انہوں نے خود بھی دو فلمیں بنائیں لیکن انھیں اتنی کامیابی
نہیں ملی جتنی ملنی چاہیے تھی۔لیکن وہ حالات سے نہیں گھبرائے اور لکھنے کا
سلسلہ جاری رکھا۔کرشن چندر نے اپنے ناولوں میں زندگی اور اس کے متنوع مسائل
کو ،فرد اورجماعت کے فکری ،جذباتی اور اخلاقی رشتوں کو اور ان رشتوں سے
پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کو خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کیا۔آزادی سے پہلے اور
آزادی کے بعد ہندوستان کی عظیم الشان معاشرت میں تغیرات کی جو لہریں موجزن
رہی ہیں ۔ جو انقلابی خواہشیں سرگرم رہی ہیں نئے آفاق کی جستجو کا جو میلان
کار فرما رہا ہے کرشن چندر کے ناولوں میں ان کی بھر پور ترجمانی ہوئی ہے۔
ان کے ناولوں کے اسلوب کی شعریت اور موضوعات کی صداقت نے مل کر ایک معتدل
اور متوازن ہم آہنگی پیدا کی ہے۔ رومانیت اور صداقت کا یہی امتزاج ان کی
انفرادیت کی پہچان ہے۔
جہاں تک کرشن چندر کے ناولوں کا تعلق ہے انھوں نے اپنی کہانیوں کے لیے
موضوع گردوپیش کی دنیا سے لیے ہیں جو عام انسانی زندگی اور اس کے بنیادی
مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک طرف انھوں نے دیہی اور شہری دونوں قسم کی
زندگی سے اپنے موضوعات لیے ہیں اور دوسری طرف سماج کے ہر طبقے اور ہر پیشے
سے اپنے کردار چنے ہیں ۔دیہی زندگی میں انھوں نے کشمیرکے دیہات کی جوحسین
عکاسی انھوں نے کی ہے وہ کسی اور اردو ناول نگار کے پاس نہیں ملتی۔ اسی طرح
شہری زندگی میں انھوں نے بمبئی کے ماحول پر کئی ناول تحریر کئے ہیں ۔بمبئی
کا دولت مند طبقہ ،فلمی دنیا کا ماحول،فٹ پاتھ اور جھگیوں میں رہنے
والے،زندگی کی کڑی جدوجہد میں مصروف مزدور ان کے ناولوں میں جگہ جگہ نظر
آتے ہیں۔یہ تمام ناول انفرادی اور سماجی استحصال اور انسانی فطرت کے فکری
اورجذباتی تضادات کو مختلف زاویوں سے ابھارتے ہیں۔سماج کے ہر باریک سے
باریک پہلو پر ان کی نظر ہوتی ہے۔ان کا قلم سماج کے جھوٹے رسم و رواج
،ڈھونگ ،مذہب سے بے پناہ لگاؤ، ان سبھی چیزوں کی نقاب کشائی کرتا ہے۔ کرشن
چندر کے ناولوں کا موضوع ’سماج‘ ہونے کے باوجود بہت متنوع ہے ظاہر ہے ۔سماج
کے کئی پہلو ہوتے ہیں لہذٰا انھوں نے ہندوستانی عورت کی مظلومیت ،تباہی اور
بربادی کی کہانیاں بھی سنائی ہیں۔جیسے ’’ ایک عورت ہزار دیوانے‘‘ فسادات پر
بھی انھوں نے ناول لکھا ہے۔ ’غدار ‘ فلم انڈسڑی کو بھی انھوں نے اپنا نشانہ
بنایا ہے ’باون پتے‘ اور ’چاندی کے گھاؤ‘ حکومت کا بھی انھون نے مضحکہ
اڑایا ہے ۔ ’ایک گدھے کی سر گزشت ‘ طبقاتی کشمکش کو بھی انھوں نے موضوع
بنایا ہے ’ شکست ‘ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ استحصال پر بھی ناول لکھا
ہے۔’جب کھیت جاگے‘ پرانی اور نئی قدروں کے فرق کو بھی موضوع بنایا ہے ’ ایک
وائلن سمندر کے کنارے‘ غرض سیدھے سادھے موضوعات کو لے کر انھوں نے فنکاری
سے انھیں رفعت اور بلندی عطا کردی ہے جنس کو بھی انھوں نے نظرانداز نہیں
کیا ہے لیکن جنسی موضوع کبھی ان کی کہانیوں کا مرکزی موضوع نہیں بنا
۔انسانی فطرت کو سمجھنے کی بے پناہ صلاحیت کے سبب ان کے ناولوں کے قصے
دلچسپ بھی ہیں اور زندگی سے قریب بھی۔ ریوتی سرن شرما کہتی ہیں:
’’ کرشن چندر نے ہر اس موضوع پر لکھا ہے جس پر لوگ لکھنے کی سوچتے نہیں تھے
اس کا ادب زماں ومکاں اور زندگی کے پورے احاطے میں پھیلا ہوا ہے۔ وہ لکھنے
کے معاملے میں نہ خواب سے چکرایا ،کترایا اورنہ حقیقت سے ، زندگی سے نہ
مزاح سے، نہ سیاست سے نہ رومان سے، نہ خوبصورتی سے ،نہ عظیم سے نہ حقیر سے
،نہ ملکی سے نہ غیر ملکی سے، نہ جاندار سے نہ بے جان سے، نہ انسان سے نہ
پراسرار سے، نہ رمز سے نہ پروپیگنڈا سے،نہ بو سے نہ قتل سے۔‘‘
ناول کی کامیابی کے لیے پر اثر فضا آفرینی بھی ایک ضروری عنصر ہے۔اس کا
تعلق ناول کے خارجی پلاٹ سے بھی ہے اور داخلی سے بھی ۔ خارجی پلاٹ کی فضا
آفرینی میں منظر نگاری معاشرے کی تصویر کشی ،ماحول نگاری، جزئیات نویسی
وغیرہ شامل ہیں۔ داخلی پلاٹ کی فضا آفرینی میں بھی کمال حاصل ہے اور وہ
داخلی پلاٹ کی فضا آفرینی بھی بڑی فنکاری کے ساتھ ہیں اسی ایک واضح صفت کی
وجہ سے عزیز احمد نے شکست کو اردو کا بہترین ناول قراردیا ہے۔ سہیل بخاری
لکھتے ہیں۔
’’ اونچی اونچی چوٹیا ں ‘ گہری گہری وادیاں ‘ مرغزار ‘ چشمے ‘ پگڈنڈیاں‘
گلیشیر ‘ ندیاں‘‘ جھیلیں سب کے سب منہ بولتی تصویریں بن گئی ہیں۔ ان کی
کامیاب مصوری نے ’’شکست‘‘ کے رومان کوجھلکانے اورچمکانے میں بڑی مدد دی ہے
اور پورے قصہ میں نغمہ کا سا لطف اور رس بھر دیا ہے۔۳‘ ‘
کرشن چندر کے ناولوں میں ’’ ایک عورت ہزار دیوانے‘‘ دوسری برف باری سے پہلے
‘‘ ’’ غدار‘‘ ’’طوفان کی کلیاں‘‘ ’’ برف کے پھول‘‘ وغیرہ ناولوں میں انھوں
نے منظر نگاری کا کمال دکھایا ہے معاشرتی اور انفرادی احوال و کوائف کی
تصویر کشی کے ذریعے ’’ ایک عورت ہزار دیوانے‘‘ کے مرکزی کردار’’ لاچی‘‘ کو
کرشن چندر نے ایک پر قوت متحرک اور پر اثر کردار بنادیا ہے ۔کرشن چندر نے
اپنے ناولوں میں داخلی اور خارجی دونوں کائنات کامکمل نقش تیار کرنے میں
بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ ماحول نگاری ‘جذبات نگاری اور فطرت نگاری کے سلسلے
میں ان کا جادو نگار قلم فنکارانہ مہارت دکھاتا ہے اس لحاظ سے کرشن چندرکا
فن بے حد پختہ اور دیر پا حسن کا حامل ہے۔ منظر نگاری ’’ شکست‘‘ کے پورے
قصے کو ایک ایسا دل فریب اور رومانی رنگ دیتی ہے کہ گویا اس میں قدرت کی
بنائی ہوئی زندگی کارس اور نور بھر دیتی ہے کیونکہ ’’شکست‘‘ اس سے زیادہ
ہے۔ غالبا وہ اردو کا بہترین ناول ہے۔کرشن چندر کے ناولوں میں قدرتی مناظر
کی کثرت ضرور ہے لیکن یہ مناظر واقعہ نگاری میں رکاوٹ نہیں بنتے بلکہ
واقعات کا تاثر بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ کیونکہ کرشن چندر کے یہاں ان
مناظر کی حیثیت محض خارجی نہیں بلکہ یہ مناظر جذبے کے ساتھ گندھے ہوئے ہیں
،جذبات سے پرکسی جوان دل کی طرح ان کے یہاں مناظر بھی دھڑکتے ہوئے محسوس
ہوتے ہیں۔ناول برف کے پھول جو کے کشمیر کے پس منظرمیں لکھا گیا ہے اس میں
نوجوان مگر معصوم زینب اور بھولے بھالے ساجد کی محبت ان مناظر میں بڑے دلکش
رنگ بھر دیتی ہے۔کھیتوں میں کام کرنے کے دوران ساجد کوزمین سے جہانگیر
بادشاہ کا تانبے کا موٹا پیسا ملتاہے جسے پاکر وہ بچوں کی طرح خوش ہو کر
دوڑ پڑتا ہے زینب اس کے پیچھے پیچھے بھاگتی ہے ۔ ساجد زینب کوچڑانے سیب کے
درخت پر چڑھ جاتا ہے اور نیچے زینب بچوں کی طرح اس پیسے کے لیے ضدکرنے لگتی
ہے اس کی معصومیت پر ساجد کو اور لطف آتا ہے:
’’ مگر ساجد جواب میں ہنستا رہا اور سیب کی شاخوں کو ہلا ہلا کر زینب پر
پھول برساتا رہا۔پھول زینب کے بالوں میں تھے اس کے کندھے پر تھے اس کے سینے
پر تھے اس کے پانو میں تھے ۔ پھول جو ساجد کے دل میں تھے ۔ ۴ ‘ ‘
غرض کرشن چند رکے یہاں خوبصورت مناظر کا ایک ہجوم ہے جو گویا قاری کو اپنے
سحر میں گرفتار کرلیتا ہے ۔
ناول نگاری کے فن کی تکمیل اور خوبصورتی کے لیے بہتر کردار نگاری ضروری ہے
ناول کے واقعات کا حسن و اثر کرداروں پر منحصر ہے۔ کرداروں میں جذبہ وعمل
کی تحریکیں موجود ہوں تو ناول کے واقعات بے کیف اور منجمد نہیں ہو پاتے ‘
۔کرشن چندر اپنے ناول کے کرداروں سے ہمدردی رکھتے ہیں اور ان کے خال و خط
کو نمایاں کرنے کی کاؤش بھی کرتے ہیں ۔ لیکن ناول کے پلاٹ میں تعمیر ماجرا
کے دوران بالعموم وہ اپنے کرداروں کی مناسب اور فطری نشوونما کی طرف دھیان
نہیں دیتے۔ ناول کا قصہ ناول کے مرکزی کرداروں کی زندگی کا قصہ ہوتا ہے اور
زندگی کبھی یک رخی نہیں ہوتی سکڑی اور سمٹی نہیں ہوتی ہفت رخ ہمہ جہت اور
رنگا رنگ ہوتی ہے۔ ناول کے مرکزی کردار میں وسعت ‘ ہمہ جہتی‘ اور تغیر پسند
ارتقا کا ہونا ضروری ہے۔سب سے بنیادی بات تو یہ ہے کہ کرشن چندر کا ہر
کردار محبت کا بھوکا ہے وہ خدا سے لڑتا ہے ۔جاگیر دار سے لڑتاہے سرمایہ دار
سے لڑتا ہے۔ انصاف کے لیے لڑتا ہے ۔بظاہر آزادی کے لیے لڑتا ہے اناج کے لیے
لڑتاہے برابری کے لیے لڑتاہے مگر بنیادی طور پر محبت کے لیے لڑتاہے اسے
محبت چاہیے انسان کی محبت ، اچھے خیال کی محبت۔ اور خوبصورت سپنے کی محبت ۔
اور اسے جب وہ محبت نہیں ملتی ،ہوس ،جبر، سرمایہ داری اور افلاس کے ہاتھوں
پژمردہ یا مردہ ملتی ہے تو وہ آمادۂ جنگ ہوجاتا ہے۔کرشن چندر کی کرداری
نگاری میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کے ناولوں میں نسائی کردار زیادہ
متاثر کرتے ہیں ویسے تو انھوں نے اپنے ناولوں میں مردانہ کردار بھی بڑے
دلچسپ اور جیتے جاگتے پیش کیے ہیں۔ باون پتے کا نوجوان عشرت ، اکرم ۔ آئینے
اکیلے ہیں کا پلاسٹک سرجن ڈاکٹر کنول ، برف کے پھول کا خان زمان ۔ چاندی کے
گھاؤ کا ’ جنک رائے‘ ۔ ایک عورت ہزار دیوانے کا ’گل‘ ۔ جب کھیت جاگے کا ’
راگھو راؤ‘ ۔ شکست کا ’ شیام‘ ۔ ایک گدھے کی سرگزشت کا ’گدھا‘
یہ تمام کرشن چندر کے نمائندہ کرداروں میں سے ہیں جس سے قاری کی دلچسپی میں
اور اضافہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اختر اورینوی کے مطابق
’’ کرشن چندر ایسے کردار پیش کرتے ہیں جو اپنے ماحول کے مطابق ہیں لیکن ان
کے ناولوں کے کرداروں کی جڑیں گہری نہیں ہیں۔ ان کے اندرعضو یاتی نمو نہیں
پایا جاتا۔ معلوم ہوتاہے کہ کرشن چندر نے انھیں زمین میں کھونسا ہے حالانکہ
فن کار کو کرداروں کو اگانا چاہیے۔۵‘‘
مکالمہ بھی ناول کا اہم جزو ہے اس کے ذریعے کردار کی خصوصیات نہایت دلچسپ
طریقے سے ظاہر کی جاسکتی ہیں۔ کرشن چندر کے کرداروں کے مکالمے بڑے فطری
ہوتے ہیں سادگی کے باوجود ان مکالموں کی خصوصیت ان کی زندگی ہے ہمیں کبھی
یہ نہیں محسو س ہوتا ہے کہ یہ بے جان گفتگو ہے جو کرشن چندر جبرا اپنے
کرداروں سے کہلوارہے ہیں بلکہ یہی لگتا ہے کہ یہ ہمارے آس پاس کے ہمار ے
سماج کے افراد ہیں جو وہی کہہ رہے ہیں جو ان کے من میں ہے یا جو ان کے مزاج
کے مناسب ہے۔ کرشن چندر کے مکالموں میں اکثربڑی کاٹ ہوتی ہے ایسی تیز چبھن
کہ قاری چونک پڑتا ہے اور طنز کی ا س نوکیلی دھار کو اپنے دل میں محسو س کر
تا ہے اس طرح کرشن چندر انسان کی اور بہ حیثیت مجموعی پورے سماج کی جو
اصلاح چاہتے تھے اس کے لیے وہ اپنے فطری اور تیز حقیقت پر مبنی پر اثر
مکالموں سے بھی کوشش کرتے ہیں اور ان کی یہ کوشش خلوص سے پر ہونے کے سبب
کامیاب ہے ۔ناول ایک عورت ہزار دیوانے کی ہیروئن لاچی خانہ بدوش قبیلے کی
ایک خوبصورت لیکن بے باک لڑکی ہے جس پر کئی مرد مرتے ہیں لیکن سبھی سے اس
کو تلخ تجربے ملتے ہیں ۔مصیبت کے وقت جب وہ ان سے مدد کی طلب گار ہوتی ہے
تو وہ اسکی بے غرضانہ مدد کرنے کی بجائے اپنی مددکے جواب میں اس سے اس کا
جسم چاہتے ہیں۔۔نوجوان گل اسکی محبت میں مبتلا ہوکر اسکی ایک جھلک دیکھنے
کے لیے راتوں کو اس کے خیمے کے قریب انتظار کرتا ہے تو لاچی کسی طرح متاثر
نہیں ہوتی ۔ گل اس کو’ ’ سبھی مرد ایک سے نہیں ہوتے؟‘‘کہہ کر اپنی محبت کا
یقین دلانا چاہتا ہے لیکن لاچی ، جس نے گویا زندگی کی تلخی پی لی ہے اسکا
جواب سنیے:
’’سبھی کتے ایک سے ہوتے ہیں؟ ۶ ‘‘
اس مکالمہ میں ،ایسی کاٹ کہ نہ صرف مخاطب بلکہ قاری تک تلملا جائے۔ناول’’
جب کھیت جاگے ‘‘میں جیل سے چھوٹنے کے بعدکمزور رگھوراؤ کودیکھ بوڑھی کانتما
کہتی ہے ۔’’ ارے بہت کمزور ہوگئے ہوبیٹا، میں تمھیں پہچان نہ سکی‘‘ تو
رگھوراؤکا جواب دیکھیے۔’’ جیل کوئی ماں کا گھر تھوڑی ہوتا ہے ماں‘‘
ناول ’’ میری یادوں کے چنار ‘‘ میں خود کرشن چندر کا بغیر سوچے سمجھے بچپن
میں کہا ہوا فطری مکالمہ دیکھیے۔ ماں اپنے بیٹے سے پوچھتی ہیں:
اچھا بیٹا تجھے کونسا دھرم پسند ہے میرا یا اپنے پتا کا؟
کرشن چندرنے کہا ’’ وہ مجھے سیب پسند ہیں‘‘ کرشن چندر کے والد زور سے ہنسے
ان کی ماں نے زور سے انھیں طمانچہ مارا ۷ ‘ ‘
غرض کے کرشن چندر کی مکالمہ نگاری ان کی مثال آپ ہے جہاں کرشن چندر نے طویل
مکالمے لکھے ہیں وہاں بھی انھوں نے ان کی خوبصورتی برقرار رکھی ہے اور ان
کی معنویت کو مجروح نہیں کیا ہے ۔چاندی کے گھاؤ میں بلبل اپنے شوہر کو عیش
وآرام کے بجائے سادگی سے زندگی گزارنے کی ترغیب ان پر الفاظ میں دیتی ہے:
’’ کیاتم یہ صوفہ نہیں چھوڑسکتے ؟ یہ ٹیلی فون ، یہ رنگین ریشمی پردے؟ یہ
برماٹیک کی تپائی؟ یہ غالیچہ؟ کبھی ،کبھی سوچتی ہوں انسان کوکیاہوگیا ہے؟
ہم لوگ اتنی بڑی بڑی غلامیوں کو توڑ کر اتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے غلام بن
گئے ہیں۔۔آؤ پریم !کہیں دورچلے جائیں ۔ مجھے اب ان چیزوں سے بہت ڈر لگتا ہے
۔ انسان نے یہ چیزیں اپنے لیے بنائی ہیں مگر اب یہ چیزیں اس پر حاوی ہونے
لگی ہیں۔ ۸ ‘‘
ا سلوب بیان بھی ناول کاایک اہم عنصر ہے اسلوب ادیب کی شخصیت کاآئینہ ہوتا
ہے جس میں اس کے خدوخال واضح طور سے نظر آتے ہیں ۔جس طرح کسی شخص کی آواز
پہچانی جاسکتی ہے اسی طرح کسی ادیب کا اسلوب بھی پہچانا جاسکتاہے۔ابتداء
میں کرشن چندر کے لہجے پر پنجابی کا اثر تھا لیکن بعد میں ان کی زبان اس
قدر ڈھل گئی کے اپنے خوبصورت اور منفرد انداز بیان کی وجہ سے وہ صاحب طرز
کہلائے۔ کشمیر میں پلنے اور بڑھنے کے سبب ان کے مزاج پر اس کے حسن کا بڑا
گہرا اثر پڑا اور وہ اس قدر حسن پرست اور رومان پرست بن گئے تھے کہ ہر چیز
میں چاہے وہ عورت ہو گھر ہو کتاب ہو یا گفتگو ہو وہ جمالیات کا پر تو
ڈھونڈھتے تھے ۔ ناول ’’ دل کی وادیاں سوگئیں ‘‘ میں نریندر راجکماری کے حسن
کے اثر کا بیان کچھ اس طرح کیا گیا ہے:
’’ سفید براق ساری میں ملبوس ایک لڑکی چاند کی کرن کی طرح لرزتی ہوئی اس کے
سامنے سے گزرگئی ۔ اس کا سنگ مرمر کی طرح بے داغ چہرہ ، پتلے سرخ ہونٹ
اورنشیلی انکھڑیاں اس کے احساسات کی وادیوں میں ایک کوندے کی طرح لہراکے
گزرگئیں اس کے بعد پھر اندھیرا تھا۔ ۹ ‘‘
اس کو پڑھنے کے بعد یوں لگتا کہ ابھی ابھی ایک بہت حسین لڑکی خود ہمارے
سامنے سے گزرگئی ہو؟ ناول ’’ آئینے اکیلے ہیں ‘‘ میں نیگرو قوم اور سفید
قوم کے ملاپ کا نتیجہ نوجوان اور دلکش میگی کی جلد کی رنگت کا بیان پڑھ کر
کرشن چندر کے مشاہدے کی داد دینے کو جی چاہتا ہے:
’’ دھوپ میں میگی کے بدن کا رنگ خوب چمک رہا تھا ۔ یہ سپید رنگت نہیں تھی ،
سرخ بھی نہیں تھی ،کالی بھی نہیں تھی ۔ زیتونی بھی نہیں تھی ، جیسی کہ
اطالوی لڑکیوں کی ہوتی ہے بلکہ عجیب قسم کا کریم کلر تھا جس میں ہلکا لیمن
رنگ جھلکتا تھا۔ کچھ صندلی اور زعفرانی رنگت کے بیچ کا رنگ جو رخساروں پر
شہابی ہوجاتا تھا۔ جلد بے داغ اور صاف شفاف تھی۔ ۱۰ ‘‘
اس سے ظاہر ہوتا ہے کے کرشن چندر کے خوبصورت اسلوب کا راز موزوں الفاظ،
دلکش تراکیب، حسین تشبیہات اور لطیف استعارات کا استعمال ہے۔ ان کے جملے
مختصر ہوتے ہیں بلکہ بعض اوقات یہ جملے میر کے اشعار کی طرح تیر و نشتر
کاکام کرتے ہیں۔طنز ومزاح بھی کرشن چندر کے اسلوب کی ایک نمایاں خصوصیت ہے
ان کے طنز کا کوئی ایک مرکز نہیں وہ انسانی فطرت کی کمزوریوں اور ان کے
نتیجے میں معاشرے میں ابھرنے والی ناہمواریوں ، دونوں کو اس مقصد کے لیے
استعمال کرتے ہیں۔ طنز کا یہ رویہ جارحانہ ہوتے ہوئے بھی ہمدردی سے خالی
نہیں ہے۔ایک گدھے کی سرگزشت اپنے مخصوص اور منفرد طنز و مزاح کے سبب عوام
اور خواص دونوں ہی طبقوں میں مقبول ہوا۔کرشن چندر نے اس میں ہمارے دفتری
نظام فیتہ شاہی ، نوکرشاہی اور افسر شاہی کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔’’ گدھا
‘‘ اس عام اور ضرورت مند انسان کی علامت ہے جو دفتروں میں دھکے کھاتا
ہے۔غرض کے کرشن چندر کی مشاہدے کی عادی آنکھ سے زندگی کا کوئی شعبہ بچ نہیں
پاتا۔
نظریہ حیات کی ناول میں بڑی اہمیت ہے۔ہر ناول نگار کا اپنا فلسفہ حیات ہوتا
ہے۔اگرچہ ضروری نہیں کہ ہر ناول نگار کا فلسفہ حیات بہت اعلیٰ درجہ کا ہو۔
بقول محمد حسن عسکری
’’ کرشن چندر میں سب سے مقد م چیز ان کا منفرد نقطہ نظر ہے ۔ وہ سب سے پہلے
بھی کرشن چندر ہے اور سب سے آخر میں بھی کرشن چندر ۔ اس نے کسی مخصوص تحریک
یا نقطہ نظر کو اپنے اوپر غالب نہیں ہونے دیا ہے ۔ نہ تو پرولتاریت کو نہ
جنس کو، نہ رومانیت کو۔ محض ترقی پسندی کو بھی نہیں ۔ وہ زندگی کو دیکھنے
کے لیے کسی مخصوص رنگ کے شیشوں کی مدد نہیں لیتا، اسے اپنی آنکھوں پر پورا
اعتماد ہے اور اس کے نزدیک حقیقت نگاری کے صرف ایک معنی ہیں۔ زندگی کی
حقیقت کو جیسا کچھ اس نے سمجھا ہے اسے بیان کردینا۔ ۱۱ ‘‘
کرشن چندر کا نظریہ حیات انسان کی جبلت ،فطرت ، سرمایہ داری ،ظلم ،بھوک
،فرقہ وارانہ فسادات اورہند پاک ،فن اور ادب اور ادیب کی بد حالی پر مشتمل
نظر آتے ہیں۔بہر حال اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کے کرشن چندر نے اپنے
ناولوں کے ذریعے اس صنف کے وقار کو اونچا کیا ہے۔ان کے ناولوں نے مجموعی
طور پر ناول نگاری کی پس ماندگی کو دور کرنے کی کوششکی ہے اور اس کے سرمایے
میں اضافے کا سبب بنا ہے۔کرشن چندر کے ناول عصری صداقتوں سے متعلق مسائل کو
پیش کرتے ہیں ۔ ان کے اندرزندگی کی سچائیاں ہیں، زندگی کی تلخیاں ہیں،
زندگی کی نرمی اور شیرینی ہے۔کرشن چندر کی باریک بیں نگاہوں نے حیات انسانی
کو تمام پیچیدگیوں اور الجھنوں کے ساتھ سمجھنے کی مخلصانہ کوششیں کی ہیں
اور انھیں کوششوں کو انھوں نے ناول کے فن میں پیش کیا ہے۔
کتابیات :
۱) آپ بیتی نمبر ’’ فن اور شخصیت‘‘ بمبئی ۱۹۸۰
۲) کرشن چندر نمبر ماہنامہ’’ بیسویں صدی‘‘ دہلی ۱۹۷۷
۳) اردو ناول نگاری بحوالہ ڈاکٹر اسلم پرویز ۱۹۹۳
۴) ناول ’’برف کے پھول‘‘ کرشن چندر
۵) ناول ’’شاعر ‘‘ کرشن چندر نمبر ڈاکٹر اسلم پرویز ۱۹۹۳
۶) ناول ’’ایک عورت ہزار دیوانے‘‘ کرشن چندر صفحہ ۵۹
۷) ناول ’’میری یادوں کے چنار‘‘ کرشن چندر نمبر
۸) ناول ’’چاندی کے گھاؤ‘‘ کرشن چندر
۹) ناول ’’دل کی وادیاں سوگئیں‘‘ کرشن چندر
۱۰) ناول ’’آئینے اکیلے ہیں‘‘ کرشن چندر
۱۱)اردو ادب میں ایک نئی آواز محمد حسن عسکری ’ماہنامہ ’’ شاعر ‘‘ کرشن
چندر نمبر
فنی اعتبار سے کرشن چندر کاسب سے پہلامکمل ناول ’’شکست ‘‘ ہے۔ جو میں شائع
ہواہناول کے ناقدروں نے بعض کمزوریوں کے باوجود ’’شکست‘‘ کی اہمیت تسلیم کی
ہے۔ پروفیسر وقار عظیم لکھتے ہیں۔ ’’ شکست‘‘ ،’’گؤدان ‘‘ کی طرح زندگی سے
بھر پور نہیں لیکن وہ ایک ایسی چھوٹی سی دنیا ہے جوہمیں تھوڑی دیر کے لیے
صرف اپنا بنالیتی ہے۔ اور ہم اس میں کھو جاتے ہیں فن کے نزدیک یہی ایک ایسی
چیز ہے جو ’’ شکست‘‘ کو ممتاز بنادیتی ہے‘‘ یہ صحیح ہے کے ’’ شکست ‘‘ مین
کرشن چندر نے اپنا جوہر قلم دکھایا ہے۔ لیکن کم وقت میں لکھے جانے والے
ناول میں زندگی کی گہری بصیرت ، سنجیدہ اور درد مند حقیقت پسندی مشکل ہی سے
نظر آئے گی ۔ ناول کا انتساب یوں ہے۔
’’ اس شعلے کے نام جسے میں کبھی چھونہ سکا ، اس پھول کے نام جو کبھی نگاہ
نہ ہوا۔‘‘
کرشن چندر ترقی پسند تحیک سے وابستہ رہے اس تحریک کا مقصد ایسا ادب پیش
کرنا تھا جس میں ہماری زندگی کی حقیقی ترجمانی کی گئی ہو۔ افسانے لکھیں تو
افسانوں میں ایسے مسائل پیش کئے جائیں جو عام زندگی میں رونما ہوتے
ہیں۔ایسے کرداروں پر روشنی ڈالی جائے جو ہمارے سماج میں پائے جاتے ہیں۔ |