سورہ بقرہ آیت 223 سے 252

تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں،اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤاور اپنے لئے(نیک اعمال)آگے بھیجواور اﷲ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرواور جان رکھو کہ تم اس سے ملنے والے ہواور ایمان والو کو خوشخبری سنا دیجئے﴿۲۲۳﴾اور اﷲ تعالیٰ کو اپنی قسموں کا(اسطرح)نشانہ نہ بناؤ کہ بھلائی اور پرہیزگاری اور لوگوں کے درمیان اصلاح کو چھوڑ بیٹھواور اﷲ تعالیٰ سننے والا جاننے والا ہے﴿۲۲۴﴾جو بے معنی قسمیں تم بلا ارادہ کھا لیا کرتے ہو،ان پر اﷲ گرفت(پکڑ) نہیں کرتا،مگر جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ،ان کی بازپرس وہ ضرور کرے گااور اﷲ بڑا بخشنے والا بردبار ہے﴿۲۲۵﴾جو لوگ اپنی بیویوں کے پاس جانے سے قسم کھا لیتے ہیں ان کیلئے چار مہینے کی مہلت ہے پھر اگر وہ رجوع کر لیں تو اﷲ بڑا بخشنے والا نہایت رحم والا ہے﴿۲۲۶﴾اور اگر انہوں نے طلاق کا پختہ ارادہ کر لیا ہوتو بیشک اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے ﴿۲۲۷﴾اور جن عورتوں کو طلاق دی جائے تو وہ تین حیض تک اپنے آپ کو(عقد ِثانی،دوسرے نکاح)سے روکے رکھیں اور اگر وہ اﷲ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتی ہیں تو ان کیلئے جائز نہیں کہ اﷲ نے ان کے رحموں(شکموں،پیٹوں)میں جو پیدا کیا ہو اسے چھپائیں اور اس دوران ان کے شوہر اگر تعلقات بحال کرنا چاہیں تو وہ انہیں واپس بلانے(اور اپنی زوجیت میں رکھنے )کے زیادہ حقدار ہیں اور اس دوران دستور ِشریعت کے مطابق عورتوں کے کچھ حقوق ہیں جس طرح کے مردوں کے حقوق ہیں ہاں البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور اﷲ تعالیٰ غالب ہے حکمت والا ہے﴿۲۲۸﴾طلاق دو مرتبہ ہے پھر بھلائی کے ساتھ روک لینا ہے یا نیکی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور یہ جائز نہیں کہ جو مہر تم ان کو دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو ،ہاں اگر زن و شوہر کو خوف ہوکہ وہ اﷲ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت(خاوند کے ہاتھ سے)رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں یہ اﷲ کی حدیں ہیں سو ان سے تجاوز نہ کرو اور جو اﷲ کی حدوں سے تجاوز کرے گا سو وہی ظالم ہیں﴿۲۲۹﴾پھر اگر (تیسری بار)طلاق(بائن)دے تو اس کے بعد اس کیلئے وہ حلال نہ ہو گی یہاں تک کہ وہ کسی اور شخص سے نکاح کرے پھر اگر وہ اسے طلاق دے دے اور ان دونوں سابقہ میاں بیوی کا خیال ہوکہ وہ اﷲ کی حدود کو برقرار رکھ سکیں گے تو ان کیلئے کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ آپس میں(دوبارہ)شادی کر لیں،اور یہ اﷲ کی حدیں ہیں وہ انہیں کھول کر بیان کرتا ہے اور ان لوگوں کیلئے جو علم رکھتے ہیں﴿۲۳۰﴾اور جب عورتوں کو طلاق دے دو پھر وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو انہیں حسن سلوک سے روک لو یا انہیں دستور کے مطابق چھوڑ دو اور انہیں تکلیف دینے کیلئے نہ روکو تاکہ تم سختی کرو اور جو ایسا کرے گا تو وہ اپنے اوپر ظلم کرے گا اور اﷲ کی آیتوں کا تمسخر(مذاق)نہ اڑاؤاور اﷲ کے احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا ہے اور جو اس نے تم پر کتاب اور حکمت اتاری ہے کہ تمہیں اس سے نصیحت کرے اور اﷲ سے ڈرو اور جان لو کہ اﷲ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے﴿۲۳۱﴾اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو ان کو دوسرے شوہروں کے ساتھ جب وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہو جائیں نکاح کرنے سے مت روکو اس(حکم)سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں اﷲ اور روز ِآخرت پر یقین رکھتا ہے یہ تمہارے لئے بڑی پاکیزگی اور بڑی صفائی کی بات ہے اور اﷲ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے﴿۲۳۲﴾اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ(حکم)اس کیلئے ہے جو دودھ کی مدت کو پورا کرنا چاہے اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہو گا ،کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جا تی (تو یاد رکھو کہ)نہ تو ماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اسی طرح (نان نفقہ)بچے کے کے وارث کے ذمے ہے،اور اگر دونوں(یعنی ماں باپ)آپس کی رضامندی اور صلاح سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں اور اگر کسی اور سے اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو اس میں بھی تم پر کوئی گناہ نہیں بشرط یہ کہ تم دودھ پلانے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو اور اﷲ سے ڈرتے رہواور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اس کو دیکھ رہا ہے﴿۲۳۳﴾اور جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں تو عورتیں چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکیں رہیں اور جب (یہ)عدت پوری کر لیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (یعنی نکاح)کر لیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں اور اﷲ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے﴿۲۳۴﴾اور اگر تم(عدت کے دوران)عورتوں کو اشارہ سے پیغام نکاح دو یا اسے اپنے دلوں میں چھپائے رکھو تو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں ہے ،اﷲ کو معلوم ہے کہ تم جلد ان کو یاد کرو گے(تو بیشک کرو)مگر ان سے کوئی خفیہ قول و قرار نہ کرو ،سوا اس کے کہ مناسب طریقہ سے کوئی بات کرو (اشارہ و کنایہ سے)اور جب تک مقررہ مدت پوری نہ ہو جائے اس وقت تک عقد نکاح کا ارادہ بھی نہ کرو اور خوب جان لو کہ اﷲ تمہارے دلوں کے اندر کی بات کو بھی خوب جانتا ہے پس اس سے ڈرتے رہو اور خوب جان لو کہ اﷲ بخشنے والا اور حلیم و بردبار ہے﴿۲۳۵﴾اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے یا ان کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں ،ہاں ان کو دستور کے مطابق کچھ خرچ ضرور دو (یعنی)مالدار اپنی حیشیت کے مطابق اور غریب اپنی حیشیت کے مطابق،یہ متاع بقدرِمناسب ہونا ضروری ہے کہ یہ نیکوکار لوگوں کے ذمہ ایک حق ہے﴿۲۳۶﴾اور اگر تم عورتوں کو ان کے پاس جانے سے پہلے طلاق دے دو لیکن مہر مقرر کر چکے ہو تو آدھا مہر دینا ہو گا ،ہاں اگر عورتیں مہر معاف کر دیں یا مرد جن کے ہاتھ میں عقد نکاح ہے(اپنا حق)چھوڑ دیں(اور پورا مہر دے دیں تو ان کو اختیار ہے)اور اگر تم مرد لوگ ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیزگاری کی بات ہے اور آپس میں احسان کرنا نہ بھولوکیونکہ جو کچھ بھی تم کر رہے ہو اﷲ اسے دیکھ رہا ہے﴿۲۳۷﴾سب نمازوں کی حفاظت کیا کرو اور(خاص کر)درمیانی نماز کی اور اﷲ کیلئے ادب سے کھڑے رہا کرو﴿۲۳۸﴾اگر تم خوف کی حالت میں ہو تو پیادے یا سوار (جس حال میں ہونماز پڑھ لو)پھر جب امن ہو جائے تو جس طریقہ سے اﷲ نے تمہیں سکھایا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے اﷲ کو یاد کرو﴿۲۳۹﴾اور جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں وہ اپنی عورتوں کے حق میں وصیت کر جائیں کہ ان کو ایک سال تک خرچ دیا جائے اور گھر سے نہ نکالی جائیں،ہاں اگر وہ خود گھر سے نکل جائیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام(یعنی نکاح) کر لیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور اﷲ زبردست اور حکمت والا ہے﴿۲۴۰﴾اور طلاق یافتہ عورتوں کو بھی مناسب طریقے سے خرچہ دیا جائے،یہ پرہیزگاروں پر واجب ہے﴿۲۴۱﴾ اسی طرح اﷲ اپنے احکام تمہارے لئے بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو ﴿۲۴۲﴾(اے حبیبﷺ)کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جوموت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکلے حالانکہ وہ ہزاروں تھے پھر اﷲ نے ان کو فرمایا کہ مرجاؤ پھر انہیں زندہ کر دیا بیشک اﷲ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکرنہیں کرتے﴿۲۴۳﴾اور (مسلمانو) اﷲ کی راہ میں جہاد کرو اور جان رکھو کہ بیشک اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے﴿۲۴۴﴾ہے کوئی ایسا جو اﷲ کو قرض حسنہ دے تاکہ اﷲ اسے کئی گنا کر کے واپس کرے،اور اﷲ ہی(تمہارے رزق میں)تنگی اور کشادگی کرتا ہے،اور تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے﴿۲۴۵﴾ (اے حبیبﷺ)کیا آپ نے(حضرت)موسیٰ کے بعد والی بنی اسرائیل کی جماعت کو نہیں دیکھا ،جب انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہاکہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دیں تاکہ ہم(اس کی زیر ِقیادت)اﷲ کی راہ میں جنگ کریں،نبی نے(ان سے )فرمایاکہیں ایسا نہ ہو کہ جب جنگ تم پر واجب ہو جائے،تو پھر تم جنگ نہ کرو،وہ کہنے لگے کہ ہم کیوں کر جنگ نہیں کریں گے؟جبکہ ہمیں اپنے گھروں اور بال بچوں (اولاد)سے جدا کر دیا گیا ہے،مگر جب جنگ ان پر واجب قرار دی گئی تو ان میں سے چند ایک کے سوا سب پھر گئے،اور اﷲ ظالموں کو خوب جاننے والا ہے﴿۲۴۶﴾اور ان سے ان کے نبی نے فرمایابیشک اﷲ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر فرمایا ہے ،ان لوگوں نے کہا اس کو ہم پر کس طرح حکومت کرنے کا حق ہو سکتا ہے اس سے تو ہم حکومت کرنے کے زیادہ حقدار ہیں اسے تو مالی وسعت ملی ہی نہیں ہے(کوئی بڑا مالدار آدمی نہیں ہے)،نبی نے جواب دیا کہ بیشک اﷲ نے اسے تم پر منتخب کر لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ کشادگی عطا فرما دی ہے اور اﷲ اپنا ملک (سلطنت کی امانت)جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے اور اﷲ بڑی وسعت والا بڑا علم والا ہے﴿۲۴۷﴾اور ان(بنی اسرائیل) سے ان کے نبی نے یہ بھی فرمایاکہ اس(طالوت)کے بادشاہ ہونے کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے رب کی جانب سے سکون کا سامان ہو گااور کچھ آل ِموسیٰ اور آل ِ ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہوں گے اسے فرشتوں نے اٹھایا ہو گا، اس میں بیشک تمہارے لئے(اﷲ کی قدرت کی)بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان والے ہو﴿۲۴۸﴾پھر جب طالوت فوجیں لے کر شہر سے نکلا تو اس نے کہا ،بیشک اﷲ ایک نہر سے تمہاری آزمائش کرنے والا ہے جس نے اس نہر کا پانی پیا تو وہ میرا نہیں ہے اور جو اس کو نہیں پئے گا تو وہ بیشک میرا ہے مگر جو کوئی اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے(تو اسے معاف ہے)لیکن سوائے چند کے باقی سب نے وہ پانی پی لیا،پھر جب طالوت اور مومن لوگ جو اس کے ساتھ تھے نہر کے پار ہو گئے،تو کہنے لگے کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکر سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں،لیکن اﷲ تعالیٰ کی ملاقات پر یقین رکھنے والوں نے کہا بارہا بڑی جماعت پر چھوٹی جماعت اﷲ کے حکم سے غالب ہوئی ہے اور اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے﴿۲۴۹﴾اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے مقابل آئے تو (اﷲ سے)دعاکی کہ اے ہمارے رب!ہمیں بے پناہ صبر عطا فرما ،ثابت قدمی دے اور کافروں کے مقابلہ میں ہماری مددفرما﴿۲۵۰﴾پھر ان لوگوں نے اﷲ کے حکم سے ان (جالوتی فوجوں)کو شکست دی اور داؤد ؑنے جالوت کو قتل کر دیااور اﷲ نے ان (داؤد ؑ)کو حکومت اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں جو چاہا سکھایااور اگر اﷲ لوگوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے نہ ہٹاتا رہتا تو زمین(میں انسانی زندگی بعض جابروں کے مسلسل تسلط اور ظلم کے باعث)برباد ہو جاتی مگر اﷲ تمام جہانوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے﴿۲۵۱﴾یہ اﷲ کی آیتیں ہیں ہم انہیں(اے حبیبﷺ) آپ پر سچائی کے ساتھ پڑھتے ہیں اور بیشک آپ رسولوں میں سے ہیں﴿۲۵۲﴾
Mehboob Hassan
About the Author: Mehboob Hassan Read More Articles by Mehboob Hassan: 36 Articles with 58097 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.