مایوسی کے فیصلے

افسوسناک، انتہائی افسوسناک کہ اب لوگ مایوسی کے عالم میں کرپشن کو قبول کرنے لگے ہیں۔ حالات اس حد تک بگڑتے جا رہے ہیں کہ ایماندار لوگ بھی کرپشن کے مقابلے میں ہتھیار ڈالنے لگے ہیں۔ نیب، ایف آئی اے اور دوسرے اداروں سے ہر شخص بہت مایوس ہے کہ ان اداروں کے تفتیشی افسر کمزور پر تو پوری چڑھائی کر دیتے ہیں، مگر مالدار اور اصل کرپٹ لوگوں سے سازباز کرنا انہیں بُرا محسوس نہیں ہوتا۔ ان کے لئے ان کے دل میں بہت سے نرم گوشے ہیں۔کرپٹ افسران کسی بھی چیز کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ایماندارافسروں میں جرأت کا فقدان ہے۔ جبکہ کرپٹ پیسوں کے محتاج ہیں، لگ جائیں تو ہر کام ہو جاتا ہے۔ میرٹ کوئی چیز نہیں، میرٹ کا دور گزر گیا۔ اب فقط پیسوں کا دور ہے۔ نظام انصاف انتہائی کمزور اور ضعیف نظر آتا ہے۔ غلط تفتیش کرنے والے کسی بھی تفتیش افسر کو انصاف کے علمبرداروں نے سزا تو کیا پوچھا بھی نہیں۔ کسی کو کبھی سزا نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے تفتیشی افسر پوری طرح بے لگام ہیں۔ کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔

میرے ایک دوست پنجاب کے اعلیٰ ترین عہدے پر تعینات رہنے کے علاوہ مرکز میں بھی اہم عہدوں پر تعینات رہے۔ چند دن پہلے ان سے ملاقات ہوئی۔ پوچھنے لگے، تمہارے کیس کا کیا بنا؟ میں نے ہنس کر کہا کچھ نہیں اور مستقبل قریب میں کچھ بنتا نظر بھی نہیں آتا۔ دراصل آج سے کوئی دس سال پہلے میرا ایک مسئلہ کسی محکمے میں چل رہا تھا۔ معاملہ چونکہ میرٹ پر تھا میں نے ایسے ہی روٹین میں چلنے دیا۔ مسئلہ حل ہو گیا تو نوٹیفیکیشن کے لئے اس محکمے کے سربراہ کو فائل بھیجی گئی۔ محکمے کے سربراہ بلاشبہ انتہائی دیانتدار تھے مگر واہمی سے آدمی تھے۔ میرے یونیورسٹی فیلو بھی تھے اور اس حوالے سے اچھی علیک سلیک تھی۔ مجھے فون آیا کہ ایک فائل آئی ہے، تمہاری تو نہیں؟ عرض کیا حضور میرا نام ہے تو یقینا میری ہی ہوگی۔ بہت دنوں تک نوٹیفیکیشن نہ ہوئی تو میں مجبوراً ان کے دفتر گیا۔ ان سے ملا تو فرمانے لگے کہ تم نے زیادتی کی، بتایا ہی نہیں۔فوری نوٹیفیکیشن ہوئی تو لوگ کیا سوچیں گے کہ میں نے اپنے ایک دوست کا کام کر دیا ہے۔ میں نے کہا کہ دوست ہونا تو کوئی برائی نہیں۔ کہنے لگے تمھیں اندازہ نہیں لوگ باتیں بنائیں گے۔ تمہارا کام ہو گیا ہے۔ نوٹیفیکیشن چند ماہ بعد بھی ہو جائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ وہ مزید دو سال اس محکمے کے سربراہ رہے اوراس سارے عرصہ میں میری فائل ان کے دراز میں۔ ان کے جانے کے بعد فائل نہیں مل رہی تھی۔ میں نے ہائیکورٹ رٹ کی کہ محکمے کو کہا جائے کہ نوٹیفیکیشن جاری کرے۔ ۲۰۰۹ء سے کیس ہائیکورٹ میں ہے۔ کبھی کیس نہیں لگتا اور کبھی لگ جائے تو باری نہیں آتی۔ ایک آدھ دفعہ براہ راست دفتر درخواست دی کہ شاید کام بن جائے۔ مگر میری درخواست کے جواب میں محکمے میں تو کچھ نہیں ہوتا البتہ کچھ لوگ میرے پاس پہنچ جاتے ہیں اور نوٹیفیکیشن فوری کروانے کا یقین دلاتے ہیں اور اس کام کی فیس مانگتے ہیں۔ پوچھتا ہوں کہ آپ کون؟ کوئی خود کو کسی افسر کا بھائی بتاتا ہے اور کوئی عزیز۔ مگر میں ان کے کبھی قابو نہیں آیا۔ایک سرکاری وکیل بھی واقف ہیں ان کا خیال ہے کہ عدالت سے مجھے کچھ نہیں ملے گا اس لئے کہ سرکاری وکیل سب جاننے کے باوجود حکومت کا دفاع کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور جج سرکار کی بات زیادہ اچھی سنتے ہیں۔

میرے دوست کو تمام صورت حال کا پتہ ہے۔ اس دفعہ ملاقات کے دوران جب انہوں نے پوچھا اور میں نے کہا کہ ابھی تک کچھ نہیں بنا، تو کہنے لگے بہتر ہے کوئی پیسے مانگے تو دے کر کام کرا لو وقت ضائع نہ کرو۔ میں نے معذرت کی کہ کہ ایک تو میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں اور ہوں بھی تو میں اس طرح رشوت دینے پر اعتقاد نہیں رکھتا۔ مگر یہ آپ کہہ رہے ہیں، مجھے آپ کا کہنا کچھ عجیب لگ رہا ہے۔
 
مسکرائے اور کہنے لگے میں جب تک ریٹائر نہیں ہوا تھا دنیا بہت مختلف تھی۔ ایمانداری کے درس، ایمانداری کی باتیں بڑی بھلی لگتی تھیں۔ کوئی رشوت مانگنے کی جرأت بھی نہیں کرتا تھا۔ مگر اب دنیا کی سمجھ آچکی ہے۔ وقت خراب کرنے کی بجائے تھوڑی رقم خرچ کر لو لیکن اس یقین کے ساتھ کہ یہ ایک برائی ہے اور اسے ایک کم تر برائی سمجھ کر ہمیں اس وقت تک قبول کرنا ہوگا جب تک رب العزت کوئی بہتر حالات پیدا نہیں کرتا۔ پہلے میں کسی کو کبھی رشوت کے پیسے لینے بھی نہیں دیتا تھا، مگر اب سوچنے لگا ہوں۔ میں ایک ذاتی واقعہ تمہیں بتاتا ہوں۔

میں ایک ماہ پہلے اپنے نئے تعمیر شدہ گھر میں منتقل ہوا ہوں۔ منتقل ہونے سے پہلے مجھے اس گھر میں بجلی کا میٹر لگوانا تھا۔ میں نے اپنے ملازم کو کہا کہ لیسکو آفس جاؤ اور فارم لے آؤ۔ صبح پیسے جمع کروا دینا اور فارم لیتے وقت ان سے پوچھ لینا کہ میٹر جلدی کیسے لگ سکتا ہے؟ شام کو میرا ملازم فارم لے کر آیا کہ فارم بھر دیں اور اٹھارہ ہزار صبح صبح جمع کروا کر تقریباً دو ماہ میں کنکشن لگ جائے گا۔ میں نے پوچھا جلدی لگنے کے لئے کس کو کہنا پڑے گا، یہ پوچھ کر آئے ہو؟ کہنے لگا لیسکو کا اہلکار کہتا تھا کہ ہمیں پتہ ہے کہ تمہارا صاحب بہت بااثر ہے واپڈا کے چئیرمین کو بھی کہہ سکتا ہے۔ روٹین میں دو ماہ لگیں گے، چئیرمین صاحب نے مداخلت کی تو بہت جلدی بھی لگا تو بیس سے پچیس دن لگ ہی جائیں گے۔ ویسے بھی ہمارے پاس میٹر بھی ختم ہیں، تار بھی نہیں ہے۔ ہاں البتہ اٹھارہ ہزار تو تمہیں جمع کرانے ہی ہیں۔ ہمیں صبح تیس ہزار روپے لا دو، اٹھارہ سرکار کے اور بارہ ہمارے۔ نو بجے پہنچا دو، گیارہ بجے میٹر لگ جائے گا۔ میٹر کہاں سے آئے گا اور تار کہاں سے یہ ہماری سردردی ہے، صاحب سے پوچھ لو۔ اثر استعمال کر کے میٹر اگلے ماہ لگوانا ہے یا بارہ ہزار ہمیں دے کر دو گھنٹے میں؟ میں نے بہت سوچا، بیگم سے بھی مشورہ کیا اور بالآخر دو گھنٹے والی آپشن بارہ ہزار کے عوض قبول کر لی۔ افسوسناک، انتہائی افسوسناک! ایسے فیصلے مایوسی کے فیصلے ہیں اور ہمیں مایوسی سے خود کو بچانا ہے کیونکہ مایوسی کے فیصلے کبھی اچھے نہیں ہوتے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444625 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More