آئیں قارئین ! آج سے 1500 سال پہلے چلتے
ہیں۔ جہاں یہودیت تھی، نصرانیت تھی، مجوسیت تھی، بت پرستی تھی، شرک تھا ۔
لیکن وہاں انسانیت نہ تھی، تہذیب نہ تھا، ثقافت نہ تھی، تمدن نہ تھا۔
کیونکہ وہاں اسلام نہ تھا۔ اسلام سے پہلے جہالت اپنے عروج پر تھی۔ لڑائیوں
کے سلسلے نسلوں کو پناہ کر دیتی تھی۔ کوئی قانون تھا نہ کوئی حکمران۔
طاقتور کمزور کے حقوق کو دباتا تھا۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا تصور موجود
نہ تھا۔
اس معاشرے میں عورت کے وجود کو عار سمجھا جاتا تھا۔ جس کی ہاں لڑکی پیدا
ہوتی وہ اسے باعث شرم سمجھ کر زندہ دفنا دیتا تھا۔ جب عورت فطری بیماری کا
شکار ہوتی تو اسے جانوروں کی طرح ایک الگ تلگ کمرے میں ہانکا جاتا۔ جب تک
وہ پاک نہ ہوتی کوئی اسے منہ نہ لگاتا ۔ ایسے میں اﷲ کے ایک برگزیدہ پیغمبر
کو بھیجا گیا۔ جس تاریکی کو ختم کرکے روشنی پھیلائی۔ جس نے انسانیت کی
بنیاد رکھی، جس نے تہذیب اور رہن سہن کا طریقہ سکھا یا، جس نے امن کا پیغام
دیا، جس نے عورت کو نہ صرف انسان ہونے کا حق دیا بلکہ اس کو ماں ، بہن،
بیوی اور بیٹی کی شکل میں جنت، غیرت اور عزت بنایا۔
کئی برسوں سے مغربی دنیا نے خواتین کے آزادی اور حقوق کے نام دے عالمگیر
تحریک شروع کی ہے۔ اس تحریک کے ذریعے عورتوں کو مردوں کے برابرے کے حقوق
اور کاروباری دنیا کا حصہ بننے کی آزادی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ان کے بقول
اسلام نے عورتوں کو گھر میں قید کر رکھا ہے ۔ وہ انہیں گھروں سے نکال کر شو
پیس کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ آج اگر ان ممالک کی حالت دیکھی جائے جو
عورت کے برابری کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں تو وہاں یقینا کوئی
تہذیب نظر نہیں آئے گی۔ بے شک عورت کو آزادی تو ملی ہے ۔ مگر اسے سکون نہیں
ملا، راحت نصیب نہیں ہوئی۔ ان کا جسم مردوں کے لیے تسکین حاصل کرنے کا ایک
کھلونا ہے۔ جانوروں کے طرح بے شمار مردوں کے حوس کا نشانہ بنتی ہیں۔ بغیر
شادی کے بچے پیدا کرتی ہے۔ بچے کو چائلڈ کیئر سینٹروں کے حوالے کرتی ہے۔ اس
طرح نظام چلتا رہتا ہے۔ جب بچے جوان ہو جائے اور وہ خود بڑھاپے کی دہلیز پر
قدم رکھے تو چائلڈ کیئر سینٹروں کے تربیت یافتہ اولاد ان کو انہی کے گھروں
سے بے دخل کرکے اولڈ ہومز میں منتقل کراتے ہیں۔
مغرب نے آزادی کے نام پر عورت کو مشین بنا دیا۔ جہاں ان کو گھروں سے نکال
کر بازاروں، مارکیٹو ں اور بزنس سینٹروں میں لاکھڑا کیا وہاں ان کو ٹیشو
پیپر کی طرح استعمال کیا جانے لگا۔ ان کی زندگی کا مقصد صرف کمانا، کھانا
اور مردوں کے ہوس کا نشانہ بننا ہے۔ ایڈز جیسی خطرناک بیماری جو مغربی
معاشرے سے پروان چڑھی ہے، آزادی خواتین کا تحفہ ہے۔ مختلف قسم کے پیچیدہ
امراض اسی آزادی کا نتیجہ ہے۔ ڈیپریشن عام ہے۔ شادیاں نہ ہونے کی وجہ سے
نسل میں کمی جب کہ سماجی و معاشرتی برائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اجنبی
عورتوں اور مردوں کے رضامندی کے ساتھ ملاپ کے علاوہ ریپ کے واقعات میں بھی
اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کی جسم کا مقصد صرف پیسے کما نا ہے۔ جب پیسے کما کر
اسی کے ذریعے وہ تسکین حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو ان کے پاس خود
کشی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچتا۔
اس کے برعکس اگر اسلامی تعلیمات کو دیکھا جائے تو اسلام عورت کو ماں، بہن،
بیوی، بیٹی کی شکل میں باعزت گھر میں بیٹھنے کا حکم دیتا ہے۔ عورت کے ذمے
صرف مرد کی مال کی حفاظت، اس کے اولاد کی تربیت اور اس کی عزت کی پاسداری
ہے۔ اگر عورتوں کو آزادی دی ہے تو صرف اسلام نے۔ عورت کو اسلام نے جتنا حق
دیا ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ پیسہ کمانا مرد کے ذمہ، رہائش مہیا
کر نا مرد کے ذمہ، طعام مہیا کرنا مرد کے ذمہ، لباس مہیا کرنا مرد کے ذمہ،
علاج معالجہ مہیا کرنا مرد کے ذمہ۔ جس عورت کی ہر ضرورت کی ذمہ داری مرد کی
ذمہ ڈالی گئی ہے تو اسے جگہ جگہ ذلیل ہونے کی ضرورت کیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ
مغرب میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔
آج مغرب سال کے 365دنوں میں سے ایک دن خواتین کے لیے مختص کرکے خواتین کے
عالمی دن کے طور پر مناتی ہے۔ صرف ایک دن عورت کو عزت دیتے ہیں۔ عورت کی
قدر کرتے ہیں۔ عورت کو انسان سمجھتے ہیں۔ کیا سال میں صرف ایک دن خواتین کے
نام پر منانے سے ان کے حقوق ادا ہوجاتے ہیں؟ کیا دنیا میں کوئی بھی مذہب،
کوئی بھی دین، کوئی بھی کتاب، کوئی بھی معاشرہ، کوئی بھی قانون، کوئی بھی
شخص ایسا ہے جو عورت کو ان حقوق کے نصف بھی دے سکیں جو ان کو اسلام نے دئے،
جو ان کو قرآن نے دئے ، جو ان کو پیغمبر آخر الزمان نے دئے۔
آئیں بحیثیت مسلمان آج ہم یہ عہد کریں کہ اپنے خواتین کو اسلام کے تعلیمات
کے روشنی میں ان کے حقوق مہیا کریں گے۔ ان کو وہ مقام اور عزت دیں گے جو
انہیں اسلام نے عطا کی ہے۔ |