نصیب زیست تیرا انتظار ٹھہرے گا

دیار غیر میں ملنے والے تشویشناک خطوں نے اس کا سکون چھین لیا تھا ۔ نیندیں حرام کر دی تھیں، وہ روزی کمانے کے چکر میں پچھلے گیارہ مہینے سے مشرق وسطیٰ میں مقیم تھا ، اور اب کے چھٹیاں قریب تھیں تو پچھلے دو ماہ سے گھر سے آنے والے خط جو اکثر و بیشتر اس کے بہنوئی کے ہوتے۔ جسے اپنے پیچھے گھر کا ذمہ دار بنا کرآیا تھا۔ حظوں میں کچھ ایسے جملے استعمال کرتا جو اس بات کی نشاندہی کرتے کہ اس کے گھریلو حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ اور آج کے خط نے تو حد ہی کر دی۔

بھائی صاحب آپ کی ازدواجی زندگی کا خطرہ لاحق ہے۔ بھابی صاحبہ کا رویہ پُراسرار ہوتا جا رہا ہے۔ ایسا نہ ہو معاملہ آپ کے اختیار سے باہر ہو جائے۔ مثال کے طور پر کل رات تین بجے عامر میاں کی طبیعت خراب ہونے پر جو اپنی دادی کے کمرے میں سوتے ہیں۔ بھابی کے بیڈ روم کا دروازہ پیٹا گیا تو ایک گھنٹے کے بعد دروازہ کھلا۔آپ کی بہن نے دیکھا کہ تمام بیڈ پر زیورات جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ اور وہ خود ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کہیں سے آئی ہیں، یا کہیں جانا ہے ۔ تازہ تازہ صاف کیا ہوا میک اپ چغلی کھا رہا تھا یا پھر ہو سکتاہے کسی کو آنا ہو بہرحال آپ خود سمجھ دار ہیں جو چاہے فیصلہ کر لیں ہمارا کام صورتحال سے آگاہ کرنا تھا۔

بڑی سوچ بچار کے بعد اس نے طے کیا کہ وہ اپنے روم میٹ ناصر کو اعتماد میں لے گا وہ نہ صرف ساتھی بلکہ اس کا فرسٹ کزن بھی تھا اور اس کے گھر میں آنا جانا بھی تھا یہی سوچ کر آج جب کہ چھٹی کا دن تھا اور باقی تمام ساتھی پکنک پر گئے تھے ۔ اس نے ناصر کو ضروری بات کا کہہ کر روک لیا تھا اور اب دھیرے دھیرے ساری بات اس کو بتا دینے کے بعد اس کے مشورے کا منتظر تھا۔

’’یا ر شاہد! یہ عورتیں کیسی ہوتی ہیں ؟جب انہیں معاشی تنگی کا سامنا ہوتا ہے تو ہر وقت آہیں بھرتی رہتی ہیں دوسروں کی چیزوں کی مثالیں دیتی رہتی ہیں ۔ اور جب ہم انہی کی ضروریات اور شوق پورے کرنے کے لئے اپنوں سے دور، اور ان سے دور آ پڑتے ہیں تو ساری چیزیں پا کر بھی مطمئن نہیں ہوتیں بلکہ ہمارااطمینان بھی چھین لیتی ہیں کیوں ہوتی ہیں یہ ایسی، آخر ہم کیا کریں؟‘‘

’’نہیں دوست میری بیوی ایسی نہیں اس نے بھی کسی چیز کو مجھ سے زیادہ اہمیت نہیں دی ‘‘ ناصر نے اس لہجے میں جواب دیا ۔ کبھی بھی اس نے مجھے وطن چھوڑ نے کا مشورہ نہیں دیا۔ جب بھی ایسی کوئی بات کرنا، وہ ٹال دیا ترقی ، وہ ہر بات کو غیر اہم بنا دیا کرتی صرف ایک بات اس کے لئے اہمیت رکھتی تھی اور وہ تھی میری رفاقت۔

مجھے یاد ہے کہ دفتر سے آتے ہی وہ میرے لئے چائے بنانے کچن میں گھس جاتی چائے بنائی جاتی اور گنگنائی جاتی
یہ رنگ تیری محبت کا جس میں نہ ہو۔
ایسا جیون بھلا میرے کس کام کا

ابھی ابھی وہ وطن واپس پہنچا تھا اور ائیر پورٹ سے سیدھا ناصر اسے اپنے گھر لے گیا اس نے آنے کی اطلاع کسی کو نہیں دی۔ ائیر پورٹ کی حدود سے باہ رنکلتے ہی اس نے ناصر سے سوال یا۔ کیونکہ ناصر تم اپنا کام کر چکے ہو نا جو میں نے تمہارے سپرد کیا تھا ؟ اداس لہجہ سرد انداز۔

ہاں دوست تم سے ایک ہفتہ پہلے اسی لئے آیا ہوں خالہ جان کے کمرے میں اے سی فٹ کیا بڑی دعائیں ملیں، تمہیں بھی اور مجھے بھی مگر بھابی کے کمرے میں جب اے سی فٹ کر کے اور مودی آٹو میٹک کیمرہ چھپا کر نکلا ہوں تو صرف ایک جملہ سننے کو ملا۔ برآمدے میں کرسی ڈالے بیٹھی تھیں مجھے دیکھ کر بولیں شکریہ ناصر تمہارا اور تمہارا بھائی شاہد کا بھی بڑا خیال ہے انہیں میری پریشانیوں کا اور میں یہ کہہ کر آیا

چار دن بعد چیک کرنے آؤ ں گا کہ سب کچھ ٹھیک کام کر رہا ہے یا نہیں اور اسی بلنگ کے بہانے کل کیمرہ اور کیسٹ وغیرہ بیگ میں چھپا کر لا چکا ہوں مگر دوست وہ کیسٹ تمہاری امانت ہے اسے جوں کا توں رکھ دیا ہے میں نے شکر ہے امی اب حج کے لئے روانہ ہو چکے ہیں اب ہم اکیلے گھر میں اطمینان سے دیکھیں گے خدا کر ے اچھے مناظر دیکھنے کو ملیں۔

دونوں دوست ایک ہی صوفے پر بیٹھے تھے ناصر نے دھڑکتے دل کے ساتھ وی سی آر آن کر دیا۔

رات کا وقت تھا وہ سست قدموں سے کمرے میں داخل ہوئی سادہ سے کریم کلر کے سلکی سوٹ کے ساتھ ہمرنگ بڑا سا دوپٹہ لئے ایک لمحہ کو رک کر اس نے چارو ں طر ف نظر دوڑائی اور دھیمے دھیمے چلتی ہوئی وارڈ روب کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ تمام ملبوسات میں سے اس ساڑھی کو منتخب کیا جو پچھلے ماہ عید پر شاہد نے بڑی چاہت سے اسے بھیجی تھی۔

آتشی گلابی کامدار ساڑھی پہنے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی اپنی دراز زلفوں کو سلجھا رہی تھی ۔ بالوں کو پشت پر جونہی کھلا چھوڑ کر اس نے میک اپ کیا بعد سارے زیورات پہن لئے۔ نتھ اور ٹیکا بھی اب حسن نے حسن جہاں سوز کا روپ دھار لیا تھا۔ لبو ں پر بری پیاری بڑی مدھر مسکراہٹ تھی جیسے تصور ہی تصورمیں کسی سے مخاطب ہو۔ شاہد نے بے چین ہو کر پہلو بدلا غصہ اور صدمہ سے اس کا چہرہ سیاہ پڑ ا جا رہا تھا بے وفا عورت میں تیرا وہ حشر کروں گا کہ ہر عورت عبرت حاصل کر ے گی بھنکارتی ہوئی سرگوشی ناصر نے بھی سنی۔

صبر میرے دوست صبر ابھی تم نے دیکھا ہی کیا ہے حوصلہ سے کام لو میں تمہارے ساتھ ہوں وار کیا دیکھوں گناہ کی طرف پیش قدمی خود ایک گناہ کے برابر ہے سارے زمانے کی وحشت اس کی آنکھو ں میں اتر آئی تھی۔

’’تمہیں دیکھنا پڑے گا شاہد ثبوت وہی ہوتا ہے جو آخر تک مہیا کیا جائے ۔ اب وہ کلفہ خوشبوؤں میں خو د کو بسا رہی تھی۔ پھر آئیے میں مختلف انداز میں اپنا جائزہ کے بعد مطمئن انداز سے وہ چل پڑی شاہد کی سانسیں تیز ہو تی گئیں ۔ سوئچ آف کرنے کے لئے اس نے بے ساختہ ہاتھ بڑھایا۔ اسی لمحے ناصر نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا کیا بے وقوفی ہے جب اتنی کوشش کی ہے تو انجام تک دیکھو درمیان میں سے اٹھ جانے سے کیا اندازہ ہو گا۔

اس کے قدم شاہد کے دل پر پڑ رہے تھے جانے یہ قدم کہاں کے لئے اٹھ رہے ہیں ۔ کون سے چور دروازے اس نے کھول لئے ہیں۔ ہاں جب سامنے کا دروازہ بند ہو جائے تو بہت سے چور دروازے کھل جاتے ہیں۔
بوجھل قدموں سے وہ سائیڈ ٹیبل کی طرف آئی جس پر شاہد کی تصویر رکھی تھی دونوں ہاتھوں میں تصویر آہستگی سے احتیاط سے اٹھانے کے بعدوہ اپنے بیڈ پر دوزانو ہو کر بیٹھ گئی اور تصویر گود میں رکھ کر دیکھنے لگی۔ جھکی ہوئی پلکیں گلگوں عارض،۔۔۔۔۔۔ ہوائے لب اس کے جذبات کی ترجمانی کر رہے تھے۔ناصر نے بے اختیار شاہد کی طرف دیکھا سو ا ۔۔۔ نظرو ں سے۔ کیوں میں نے کہنا تھا۔ اگلا سین شاہد تمہارے حق میں ہو اور شاہد تو سامنے کے منظر میں کھویا ہوا تھا ۔ ہاں آنکھو ں کی وحشت کم ہو چکی تھی۔ چہرے پر اطمینان کا رنگ اتر چلا تھا اس نے آہستگی سے تصویر گود سے اٹھا کر دوبارہ ٹیبل پر سجادی اور مسہری سے ٹیک لگا کر فرش پر بیٹھ گئی۔

’’یہ شاندار بیڈ تمہارے بغیر مجھے منہ چڑا تا ہے اور یہ ……یہ سارے زیورات چبھتے ہیں ۔‘‘ اس نے سارے زیورات اتار اتار کر مسہری پرا چھال دیئے۔‘‘یہ ساری اشیاء کبھی خوشی نہیں دیتیں ان سے محظوظ ہونے کے لئے تمہاری موجودگی ضروری ہے۔‘‘مگر تمہاری ذمہ داریاں ، مجبوریاں، تمہارے فرائض سے میں واقف ہوں تم اپنے والدین کی امیدوں کا مرکز اور بہنوں کے روشن مستقبل کی ضمانت ہو بہت سے لوگ تم سے متعلق ہیں صرف میں ہی تو نہیں ہوں نا؟۔۔۔۔!‘‘

وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور تیزی سے باتھ روم میں داخل ہوگئی دوبارہ کمرے میں آئی تو وہی پہلے والا سادہ لباس زیب تن تھا میک اپ اتار چکی تھی مگر اس کے آثار اب بھی چہرے پر نظر آتے تھے۔ دھلا دھلا یا مقدس ۔۔۔ چہرہ عجیب شان بے نیازی لئے ہوئے تھا ۔ سکون، روحانی سکون اس کے سارے سر اپنے پرچھایا ہوا تھا۔ آنچل ماتھے ہوتا ہوا، بڑے پیار سے اس کے وجود کو ڈھانپے ہوئے تھا۔ اگلے لمحے وہ جانماز پر کھڑی ہوئی تھی ۔ اپنے خیالات، احساسا ت کا رخ خوابوں سے حقیقت کی جانب موڑ دیا تھا اس نے المیہ ، مراقبہ گیتوں کے بجائے آسانی ، الوہی نغمے ڈھونڈے تھے اس نے کتنی اچھی پناہ اور کتنا مضبوط سہارا ڈھونڈا تھا اس نے!
Aasia Binte Abdullah
About the Author: Aasia Binte Abdullah Read More Articles by Aasia Binte Abdullah: 23 Articles with 20465 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.