زیست مشکل ہے

اتنی پیاری او رعزیز زندگی کو خود ہی کس طرح ضائع جا سکتا ہے۔ برے سے برے حالات میں بھی انسان زندگی سے پیار کئے ہی چلا جاتا ہے۔ پھر لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں میرے سامنے آج کا اخبار پڑا ہے جس میں ایک عورت کی خودکشی کی خبر آتی ہے کچھ تو ایسا ہوتا ہے جو برداشت سے باہر ہو جائے کوئی تو بات ایسی ہوتی ہے جس کا تداراک ممکن نہیں ہوتا ہو گا جب آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہو جب کوئی جائے پناہ نہ ہو جب کوئی جائے اماں نہ ہو۔
تب ہاں تب ہی ایسا ہوتا ہے

وہ دو مہینے کی دلہن ہی تھی کہ سسرال والوں نے اس پر بدچلنی کا الزام رکھ دیا رشتے کے دیور کے ساتھ ملوث کر کے اس کے خلاف ایک محاذ بنا لیا پہلے ہی اس کا نکاح ایک جگہ سے ٹوٹ چکا تھا رخصتی سے پہلے ہی طلاق کا داغ لگ چکا تھا لڑکے والوں کو کوئی اور لڑکی بہت سارے جہیز کے ساتھ بھا گئی تھی اور انہو ں نے بغیر کسی وجہ کے نکاح ختم کر دیا تھا اب دوسرے جگہ شادی ہوئی تو الزام بہتان کا سامنا تھا قصور یہ تھا کہ وہ غریب باپ کی بیٹی تھی سسرال والوں کو خوش کرنے کے لئے ڈھیر سارا جہیز نہیں لا سکی تھی اور وقتاً فوقتاً ان کا منہ بھرتے رہنے کا کوئی بندوبست نہیں تھا اس کے پاس۔ سو وہ معصوم کلی جیسی لڑکی ہراساں ہو گئی سب سے زیادہ خوف یہ دامن گیر تھا کہ کہیں والدین کو یہ سب پتہ نہ چل جائے مگر جس چیز کا سب سے زیادہ خوف تھا وہی ہوا۔

اس کی والدہ اسے لینے آئیں تو سب نے ایک زبان ہو کر رپورٹ سنانی شروع کر دی۔

تمہاری بیٹی ایسی ہے تمہاری بیٹی ویسی ہے۔ ’’نہیں ……نہیں میری بیٹی ایسی نہیں ہو سکتی‘‘ ماں کا رنگ زرد پڑ چکا تھا اور اس کا اپنارنگ لٹھے کی طرح سفید۔ سسرال والے اپنی بات پر مصر تھے آخر تھک کر ماں نے کہا چل بیٹی میرے ساتھ اب تیرا یہاں کیا کام؟

نہیں امی نہیں میں یہا ں سے نہیں جاؤں گی مجھے یہاں سے کوئی نہیں نکال سکتا۔

نکالنے کے سارے انتظام تو کر دیئے ہیں انہو ں نے، اب کیا باقی رہ گیا ہے بیٹی اب چل میرے ساتھ۔

نہیں میں نہیں چل سکتی آپ کے ساتھ، آپ جائیں اور آپ کو میری جان کی قسم اگر آپ نے گھر میں کسی سے کچھ کہا ہو تو۔

اچھا جیسی تیری مرضی مگر اس کا کچھ تو نتیجہ نکلے گا نا؟

ہاں نکلے گا نتیجہ ضرور نکلے گا اور جلد ہی نکل جائے گا بس آپ جائیں اس کی آواز میں اک عزم تھا۔

اور ماں من من بھر کے قدم اٹھاتی آنکھوں سے دریا بہاتی واپس چلی آئی۔

کتنے دن سے وہ اپنے شوہر سے کہہ رہی تھی کہ باورچی خانہ میں جو ایگزاسٹ فین ہے ا س کا تارایک جگہ سے ننگا ہے اس کو ٹھیک کریں مگر وہ ٹھیک نہیں ہوا وہی ننگا تار اس کے کام آیا۔ دوسرے دن صبح ہی صبح سسرال والوں کو نام نہاد بدچلن بہو سے نجات مل چکی تھی۔ اپنی جان اپنے ہاتھوں لینا کس قدر خوفناک کام ہے کتنا دہشت ناک اور مشکل مگر لوگ یہ کر جاتے ہیں۔

مایوسی، بے بسی، ناقدری، نشہ اور بیماری ہاں ایسا ہی تھا کہتے ہیں جب جسم بیمار ہو تو چہرہ پتہ دیتا ہے لیکن روح بیمار ہو تو آنکھیں پتہ دیتی ہیں اس کی بھی آنکھیں بیماری کا پتہ دیتی تھیں مگر اس پُر آشوب دور میں، بھاگتی دوڑتی زندگی میں کس کے پاس اتنا وقت تھا کہ اس کی آنکھوں میں جھانک کر بیماری کا پتہ چلائے۔

وہ تو مسیحا بننا چاہتی تھی حالات نے اسے مریض بنا دیا تھا وہ حالات کیا تھے ایک لمبی داستان ہے مگر نتیجہ یہی نکلا کہ دوسروں کے دکھ درد کا علاج کرنے کی خواہشمند خود ہی سخت ڈپریشن کا شکار ہو گئی۔کسی کام سے کسی چیز سے دلچسپی نہ رہی نہ کسی کی بات توجہ سے سنتی نہ کسی بات کا جواب دے پاتی چپ چاپ اور گم سم، بیماری نے شدت اختیار کی اور اسے برے برے خیالات آنے لگے۔ راتوں کو خوفناک خواب آنے لگے دن بھر خود کشی کے خیالات اور خواہش ہوتی رہتی ان خیالات کی دہشت سے بھوک ختم ہو گئی حلق خشک رہتا دل پتے کی طرح کانپتا رہتا مگر خیالات کی یلغار تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی کبھی وہ چاہتی باورچی خانے کی چھری لے کر اپنے حلق میں گھونپ لے، کبھی چاہتی چوتھی منزل کے فلیٹ کی چھت سے چھلانگ لگا لے، کبھی خود کو گلے میں پھندا لگا کر پنکھے سے لٹکتا ہوا دیکھتی، کبھی سوچتی نہاتے میں بلیڈ سے اپنی شہہ رگ کاٹ لے، گھر کی ساری چھریاں بلیڈ چھپاتی پھرتی تنہائی سے خوف آتا کہ ایسے میں جب کوئی روکنے والا نہ ہو تو وہی سب کر نہ بیٹھے۔ جب گھبراہٹ حد سے بڑھی تو اپنی عزیز دوست کو فون کر کے اپنی کیفیت بتائی اور خدا ا س کا بھلا کرے کہ اس نے فوراً ماہر نفسیات سے مشورہ کرنے کا کہا اور یہ بھی کہا کہ اگر تم نے یہ قدم فوراً نہ اٹھایا تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گی جب افتاں و خیزاں ماہر نفسیات کے پاس پہنچی تو انہوں نے کافی تسلی دی اور دوا بھی تجویز کی۔

اﷲ نے کوئی بیماری ایسی نہیں رکھی جس کی دوا نہ پیدا کی ہو ضرورت اس بات کی ہے کہ مریض خود یا گھر والے دوست احباب ان کیفیات کا اندازہ لگا کر مسیحا سے رجوع کریں ورنہ اخبارات میں ایسی ہی خبریں آتی رہیں گی کہ ایک اٹھائیس سالہ عورت نے گلے میں پھندا لگا کر خود کشی کر لی، دماغی توازن درست نہ تھا۔ الامان الحفیظ۔
Aasia Binte Abdullah
About the Author: Aasia Binte Abdullah Read More Articles by Aasia Binte Abdullah: 23 Articles with 20473 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.