اے بابو تیرے بچوں کی خیر،اﷲ تیری
روزی میں برکت دے ،اس قسم کی سدائیں پورے پاکستان میں گونج رہی ہیں اس وقت
جہاں کراچی پر ہر قسم کی مافیاز راج کر رہی ہیں وہیں گداگر مافیاز نے بھی
شہریوں کا جینا حرام کر رکھا ہے اس مافیا کا تشویش ناک حد تک اضافہ لمحہ
فکریہ ہے ۔ کراچی آپریشن میں کئی سو کے کالے دھن کی پیدا گیری ،ٹرانسپورٹ،انکروچمنٹ،ممنوعہ
اشیاء کی فروخت،مختلف نوعیت کے نا جائز کاروبارسے بھتہ وصولی،چنگ چی رکشوں
سے کروڑوں روپے بھتہ اور چائنا کٹنگ وغیرہ وغیرہ سے دہشت گردی کی سہولت
کاری کے تدارک کے دعوے تو بہت کئے گئے لیکن درست سمت یعنی کراچی سمیت ملک
بھر میں گداگری جیسے منعفت بخش اور ناجائز کاروبار اور ایک اچھے معاشرے کے
بد نما داغ پر کبھی نوٹس لینے کی جسارت نہیں کی گئی جس کے باعث ہر
گلی،چوراہا ،شاپنگ مال، بازار،ٹریفک سیگنلز پر ان کی اجاراداری ہے گدا گری
اب مجبوری کے نام سے نکل کر سو فیصد منافع بخش کاروبار میں تبدیل ہو گیا ہے
اور گدا گری کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر دروازے پر پہنچنے کی آزادی
فراہم کرتا ہے بد قسمتی سے اس مکروہ اور فریب کے کاروبار کی بیخ کنی کے لئے
قانون تو موجود ہے لیکن اس سے پہلو تہی اُس سے بھی بڑھ کر تشویش ناک پہلو
ہے اسٹیل ٹاون ،پیپری،گلشن حدید ،شاہ ٹاون کے علاقے میں بھکاریوں کی بہتات
کا یہ عالم ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ نصف آبادی بھیک مانگنے جیسے منافع بخش
کاروبار میں ملوث ہے ، مجھ پر حیرت کے پہاڑ اسوقت ٹوٹے جب میں نے ایک جواں
سال بھکارن کو منی بس سے بھیک مانگ کر اترتے دیکھا جو قریبی وائن شاپ میں
داخل ہوئی شراب کی بوتل لی پرس میں رکھا اور شاہ ٹاون کی گلیوں میں گُم ہو
گئی۔ پچھلے دنوں ایک نجی ٹی وی چینل نے لاہور کی ایک ایسی ماں کو دکھایا جس
نے اپنی بیٹی کے سر اور ہاتھ پر جعلی خون آلود پٹیاں باندھ کر مشہور شاہراہ
پر بھیک مانگنے کے لئے بیٹھا دیا تھا اس ماں کو پیسے کی لالچ نے اتنا اندھا
کر دیا ہے کہ وہ اس معصوم بچی کے مستقبل کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتی تھی
کہ وہ جس پیسوں کے حصول کی خاطر اس بچی کی ذہنی نشو نما جس انداز میں کر
رہی ہے اور جس ما حول میں اس کو جھونک دیا گیا ہے کیا وہ معاشرے کے لئے
مفید ہے؟پھر سوال یہ اُبھرتا ہے کہ اُس معصوم بچی کو معاشرے کے لئے کار آمد
بنانے کی ذمہ داری اس کے والدین کے بعد کس پر عائد ہوتی ہے؟بھیک مانگنے کے
اس بھیانک روپ سے بھی آپ اچھی طرح واقف ہو نگے کہ بچوں کو اغوا کر کے معذور
بنا کر بھیک منگوایا جاتا ہے بسوں میں اکثر نو عمر بچے اور بچیاں ایک کارڈ
جس میں انکی روداد درج ہوتی ہے سیٹ پر بیٹھے افراد میں تقسیم کرتے ہیں اس
کے بعد بھیک دینے کی اپیل کرتے ہیں ،اکثر بھکاری ٹریفک کے ہجوم میں گھس کر
بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ،میلے کچلے بچے گاڑیوں کی ونڈ اسکرین کو زبردستی
صاف کر رہے ہوتے مقصد بھیک مانگنا ہی ہوتا ہے، خواجہ سرا بھیک مانگتے ہوئے
عجیب غیر اخلاقی حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں، یہ تمام بھیک مانگنے کے حربے
پہلے مرحلے کے ہیں اگلا مرحلہ منشیات کی فروخت چوری چکاری ،لوٹ مار،موبائل
اسنیچنگ،وغیرہ ہوتا ہے پھر یہ ہی بھیک مانگنے والے تیسرے مرحلے میں داخل
ہوتے ہیں تو وہ دہشتگرد کا روپ دھار لیتے ہیں گداگر کے روپ میں دہشت گرد
ہونے کا شک وشبہ کم ہی پایا جاتا ہے راولپنڈی میں ایک سرجن پر خود کش حملہ
گداگر کے روپ میں دہشت گرد نے کیا تھا جس میں وہ جاں بحق ہو گئے تھے ۔اس
قسم کے دہشت گرد ملک کے کونے کونے میں پھر رہے ہیں جنکی ابتداکم عمری میں
بھیک مانگنے سے ہوتی ہے لیکن افسوس قا نون نافذ کرنے والے تماش بین بنے
بیٹھے ہیں یا اس منعفت بخش لیکن بد نما سے کاروبار سے حصہ وصول کر کے ملک
کو مسلسل غیر محفوظ بنا رہے ہیں، کیوں اس کا ادراک آج تک کسی بھی حکومت کو
نہیں ہو سکا ؟کیونکہ کوئی بھی حکومتی اہلکار اتنی اہلیت نہیں رکھتا کہ وہ
اتنی باریک بینی سے کسی بھی معاملے کا مشاہدہ کر سکتا ہو اس کی ایک وجہ یہ
بھی ہے کہ ان کا واسطہ ایسے طبقے سے نہیں پڑتا ،کیونکہ حکومتی ارکین ،قانون
بنانے اور قانون کے رکھوالے تیز رفتارمہنگی گاڑیوں ، ہیلی کاپٹر اور ہوائی
جہاز کے ذریعے ہواوں میں اُڑنے والی مخلوق ہیں ۔ایک بہت بڑی تعداد پیشہ ور
گداگروں کی جرائم پیشہ افراد میں شامل ہوگئی ہے جس کا خمیازہ مظلوم،بے بس و
بے کس عوام کو بھگتنا پڑ رہاہے بھیک مانگنا سماج ،اخلاق اور اسلام کی
تعلیمات کے منافی ہے بلکہ گناہ ہے اور اس کا تدارک نہ کرنا اس بھی بڑھ کر
گناہ اور گناہ میں شراکت داری ہے میں وزیر اعظم، چیف جسٹس آف پاکستان ،چیف
آف آرمی اسٹاف اور چاروں وزرائے اعلیٰ سے دردمندآنہ اپیل کرتا ہوں کہ
دہشتگردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ دہشتگردی کی نرسری "گداگری" کا بھی خاتمہ
کرنے کا حکم صادر فرمائیں ورنہ یہ امن وامان کی کار گزاری دھری کی دھری رہ
جائے گی ۔ |