گزشتہ برس نیپال میں آنے والے ہولناک زلزلے کے باعث کئی
لاکھ افراد بے گھر ہوگئے تھے۔ اس قدرتی آفت کے نتیجے میں قریب 9000 افراد
اپنی جان بھی کھو بیٹھے تھے۔ اب نیپال میں تعمیر نو کا کام کیا جا رہا ہے۔
تاہم اس بار نیپال میں عمارات کی تعمیر میں بانس کا استعمال بڑے پیمانے پر
کیا جا رہا ہے۔
ڈوئچے ویلے کے مطابق نیپال کے ایک ماہر تعمیرات نریپال ادھیکاری کا کہنا ہے،
’’زلزلے میں سب سے خطرناک بھاری وزن ہوتا ہے، بانس ہلکے وزن کا ہوتا ہے
ليکن ساتھ ساتھ لچک دار اور فولاد کی طرح مضبوط ہوتا ہے، یہ ماحول دوست بھی
ہے۔‘‘
|
|
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو انٹرویو دیتے ہوئے نریپال ادھیکاری نے مزید کہا
کہ بانس دوسرے تعمیراتی مواد کی نسبت 50 فیصد کم قیمت بھی ہے۔ نیپال کے
پہاڑی علاقوں پر بانس کا استعمال اس لیے نہایت فائدہ مند ہے کیوں کہ بانس
خود رو ہے اور اسے ایک جگہ سے دوسرے مقام منتقل کرنا آسان بھی ہے۔ نیپال کی
حکومت نے اسکولوں کی تعمیر کے لیے بانس کو استعمال کرنے کی منظوری دے دی ہے
اور امید ہے کہ وہ جلد گھروں کو تعمیر کرنے کے لیے بھی بانس استعمال کرنے
کی منظوری دے دی گی۔
نریپال ادھیکاری انٹرنیشنل نیٹ ورک فور بیمبو اینڈ رتن (آئی این بی اے آر)
کے کوآرڈینیٹر بھی ہیں۔ یہ ادارہ نیپال کی حکومت اور چند دیگر اداروں کے
ساتھ 8 لاکھ ڈالر کی مالیت کے ایک پائلٹ منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ اس
منصوبے کے تحت 150 مکانات اور 10 اسکولوں کو تعمیر کیا جا رہا ہے۔
|
|
نیپال میں 54 مختلف قسموں کے بانس اگتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق نیپال
میں بانس 63000 ایکڑ رقبے پر اگا ہوا ہے۔ ارتھ کوئک انجئینرنگ کے ماہر ڈیوڈ
ٹروجیلو نے اس حوالے سے کہا ہے کہ سن 1999 میں کولمبیا میں زلزلے سے آنے
والی تباہ کاریوں کے بعد بانس کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ ڈیوڈ ٹروجیلو
کے مطابق بانس بہت جلد قابل استعمال ہو جاتا ہے ۔ کاشت کیے جانے کے بعد سے
چھ ماہ تک ایک بانس 25 سے 30 میٹر تک بلند ہو جاتا ہے۔ اور اسے تین سے چار
سال کے عرصے میں دوبارہ کاشت کیا جا سکتا ہے۔ نیپال کے علاہ پیرو، فلپائن،
ایکواڈور اور میکسیکو میں بھی زلزلے کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے بانس کا
استعال کیا جا رہا ہے۔
|