وہ اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑی باہر
سرد موسم کی پہلی پہلی فلوریز کا نظارہ کر رہی تھی ۔۔۔ ابھی برف باری شروع
نہیں ہوئی تھی اکتوبر کا آخری ہفتہ تھا ۔۔۔ اور ڈھلتی دوپہر میں بھی باہر
کوئی انسان اور جانور تک دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔۔۔ عجیب ہو کا عالم تھا
۔۔۔ وہ چپ چاپ کھڑی سمینہ کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔۔ پہلے اسے اس سے ایک
طرح کی نفرت اور گھن سی محسوس ہوتی تھی ۔۔۔ مگر آج وہ اس کے لئے اپنے دل
میں ہمدردی محسوس کر رہی تھی ۔۔۔ اور آصف حاجی سے نفرت ۔۔۔ واش روم کا
دروازہ کھلنے پر وہ دروازے کی سمت دیکھنے لگی ۔۔۔۔ سمینہ ابھی بھی روئی
روئی سی لگ رہی تھی ۔۔۔بہت عرصے بعد وہ کسی کے سامنے کھل کر روئی تھی ۔۔۔
اور اپنا آپ کھول کر رکھ دیا تھا ۔۔۔ اور حوریہ نے اسے رونے دیا تھا اور جب
وہ خود ہی چپ ہوگئی تب اسے واش روم بھیجا تھا کہ جاکر فریش ہوجائے ۔۔۔ اب
اسے باہر نکلتے دیکھ کر وہ اس کی طرف بڑھی تھی ۔۔۔۔
سمینہ چلیں باہر چل کر بیٹھتے ہیں ۔۔۔۔
سمینہ کو اس نے کہا تو وہ چپ چاپ اس کے ساتھ اس کے کمرے سے باہر آگئی ۔۔۔۔
بڑے سے ہال نما لونگ روم کے آرامدہ کالے لیدر کے سوفے پر بیٹھ کر اس نے
محبت اور خلوص سے سمینہ کا ہاتھ تھام لیا تھا۔۔۔
سمینہ مجھے لگتا ہے آصف صاحب کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے ۔۔۔
نہیں حوریہ آپ نہیں جانتی اسے وہ بہت خطرناک آدمی ہے ۔۔۔۔ اگر اسے ذرا بھی
بھنک پڑی کے میں نے آپ کو کچھ بتا دیا ہے تو وہ مجھے نہیں چھوڑے گا ۔۔۔۔۔
وہ خوفزدہ لہجے میں بولی تھی حوریہ سے ۔۔۔۔
آپ مجھ پر بھروسہ رکھیں ۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔ اگر یونہی چپ بیٹھی رہیں
تب یہ سلسلہ جبر کا یونہی چلتا رہے گا ۔
اس نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
حوریہ ۔۔۔ میں تمہیں کیسے بتاؤں وہ شخص کتنا خترناک ہے ۔۔۔ میں نہیں چاہتی
کہ جمال اور آپ کو کوئی نقصان پہنچے ۔۔۔
آپ خلع کیوں نہیں لے لیتیں ۔۔۔۔
خلع ۔۔۔ اگر ایسا کر سکتی تو بہت پہلے اس سے چھٹکارا حاصل کرلیتی ۔۔۔۔ وہ
مجھے کبھی نہیں چوڑے گا ۔۔۔۔ یہ جو روپے کی ریل پیل دیکھ رہی ہو یہ سب میرے
والد کا ہے ۔۔۔ جنہوں نے مرتے وقت میرے نام کردیا تھا ۔۔۔ وصیت کے مطابق
جائیداد میرے نام ہی رہے گی اگر میں چاہوں بھی تو کسی اور کےنام منتقل نہیں
کرسکتی ۔۔۔ اور اسی لئے وہ مجھے اپنے ساتھ رکھنے پر مجبور ہے ۔۔۔ اور میرے
والد کا غصہ وہ مجھ پر تشدد کرکے نکالتا ہے ۔۔۔ میں بھی کبھی آپ کی طرح تھی
۔۔۔ دولت کی ریل پیل کے باوجود ہمارے گھر کی خواتین اوڑھے لپٹے رہتی تھیں
برقہ تو کبھی نہیں پہنا مگر باہر نکلتے وقت بڑی سی چادر لیتی تھیں ۔۔۔ گھر
میں سکون خیر و برکت تھی ۔۔۔ جب میرے رشتے آنے لگے تب ابو نے میرا رشتہ
اپنے امپلوئی سے کردیا ۔۔۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں ان کی آنکھوں سے دور
ہوجاؤں ۔۔۔ اسی لئے آصف کی دیانت داری کو دیکھتے ہوئے اسے میرے لئے منتخب
کیا تھا ۔۔۔ اگر وہ جانتے کہ ان کا انتخاب ان کے گھر کا سکون برباد کردے گا
ان کی بیٹی کو زندہ درگور کردے گا تو وہ کبھی ایسا فیصلہ نہ کرتے ۔۔۔ میں
اکلوتی اولاد تھی پوری جائیداد رشتہداروں کا حق دے کر میرے نام کردی تھی
۔۔۔ شادی کے بعد آصف ہمارے ساتھ ہی رہنے لگا ۔۔۔ لیکن چند سال میں ہی ایک
پرسرار بیماری سے میری دادی اور والدہ کا انتقال ہوگیا ۔۔۔اچھی بھلی رات کو
سوئیں اور صبح مردہ حالت میں پائی گئیں ۔۔۔۔ پھر میری بیوہ پھوپھو اور ان
کا اکلوتا سات سال کا بیٹا بھی ایسے ہی اپنے بیڈ پر مردہ پائے گئے تب والد
کو آصف پر شک ہوا تھا ۔۔۔ اور انہوں نے وصیت میں تھوڑی سی تبدیلی کردی
تھی۔۔ جس کی رو سے یہ جائیداد میں کسی کو منتقل نہیں کرسکتی تھی۔۔۔ انہیں
اپنے سے زیادہ میری فکر تھی ۔۔۔ مرنے سے پہلے انہوں نے مجھے بٹھا کر
سمجھایا تھا ۔۔۔۔ اور نہ جانے کیوں معافی مانگی تھی۔۔ اور میری پیشانی کو
بوسہ دیا تھا ۔۔۔۔ شاید انہیں یقین ہوگیا تھا کہ اب ان کی باری ہے ۔۔۔۔۔
دوسرے دن وہ اسی طرح مردہ حالت میں پائے گئے ۔۔۔۔ ان کے مرتے ہی آصف بھی
اپنے خول سے نکل آیا ۔۔۔۔ سب سے پہلے اس نے گھر سے قرآن نکال دیا ۔۔۔۔ پھر
مجھے نماز بھی پڑھنے سے روک دیا۔۔ میں چھپ کر نماز پڑھنے لگی ۔۔۔ پتہ نہیں
کیسے اسے خبر ہوگئی ۔۔۔بہت مارا ۔۔۔۔ پھر میری حیاء میری پاکدامنی پر حملہ
کیا ۔۔۔زبردستی مجھے ایسے گندے ملبوسات پہنے پر مجبور کرنے لگا ۔۔۔۔اور اگر
انکار کرتی تو تشدد پر اتر آتا ۔۔۔ کب تک اس کی مار سہہ پاتی آخر اس کے
کہنے پر عمل کرنے لگی ۔۔۔مگر اپنی عزت کا کبھی سودہ نہیں کیا ۔۔۔جبآزان
ہوتی تو جتنی سورتیں یاد ہوتی ہیں پڑھ لیتی ہوں ۔۔۔ اور اپنے رب سے معافی
مانگتی رہتی ہوں ۔۔۔۔ میں کتنی مجبور کردی گئی ہوں کے اپنے رب کو ایک سجدہ
کرنے سے بھی محروم ہوگئی ہوں ۔۔۔ زندگی بہت مشکل بنادی ہے اس شخص نے میری
۔۔۔۔ اگر دین کی سمجھ نہ ہوتی تو کب کی خودکشی کر چکی ہوتی ۔۔۔
وہ اپنی کہانی سنارہی تھی اور حوریہ کے اندر غم و غصہ بڑھنے لگا تھا ۔۔۔
*****************************
سفید Plymouth Volare سئنسان سڑک پر دوڑ رہی تھی ۔۔۔۔ جمال ڈرائیونگ سیٹ پر
بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔ اور فرنٹ سیٹ پر آصف حاجی بیٹھا ہوا تھا ۔۔ جمال کے
کانوں میں ابھی بھی اس مجذوب کی کہی باتیں گردش کر رہی تھیں ۔۔۔۔ مگر انہیں
حوریہ پر مکمل اعتماد تھا ۔۔۔۔ مگر وہ آدمی کیسی باتیں کر رہا تھا ان کی
بیوی کے متعلق اور وہ اسے کیسے جانتا تھا ۔۔۔۔
کیا سوچ رہے ہو جمال ۔۔۔۔۔
آصف حاجی سے رہا نیہں گیا تو پوچھ بیٹھا ۔۔۔۔
آں ہممم ! نہیں کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔
عجیب آدمی تھا ۔۔۔سمینہ کے بارے میں کیسی باتیںکر رہا تھا ۔۔۔۔ اور جمال وہ
تم سے بھی تو حوریہ بھابی کے بارے میں عجیب سی بات کی تھی ۔۔۔ جس پر تمہیں
غصہ بھی آگیا تھا ۔۔۔۔
ان کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے وہی بات چھیڑ دی تھی جس سے وہ بچنا چاہتے تھے
۔۔۔۔۔۔۔
بکواس کر رہا تھا حوریہ کے بارے میں وہ ۔۔
وہ سپاٹ لہجے میں اس سے بولے تھے ۔۔۔
لیکن میں تو پریشان ہوگیا ہوں جمال ۔۔۔۔۔۔۔۔ پتا نہیں کیوں اس کی باتیں
مجھے کٹھک رہی ہیں ۔۔۔ سمینہ مجھے بہت عزیز ہے ۔۔۔۔ وہ ضرور کچھ جانتا ہے
ورنہ وہ سمینہ سے متعلق اتنی بڑی بات کرتا ہی کیوں ۔۔۔
ہمممم !
وہ ہنوز اپنی نظریں سامنے ونڈ سکرین پر جمائے ہوئے تھے ۔۔۔۔ کہ اچانک انکی
نظر اسٹینلے پارک میں بنے ٹی ہاؤس پر پڑی تھی جہاں سے ایک عورت نکلی تھی ۔۔
اور انہوں نے گاڑی کو بریک لگائے تھے ۔۔۔
کیا ہوا جمال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وائے یو اسٹاپ دی کار ؟
آصف نے پوچھا تھا ۔۔ مگر وہ انسنی کرتے ہوئے روڈ کی دوسری طرف دیکھنے لگے
۔۔۔ ۔۔ رات کے گیارہ بج رہے تھے ۔۔۔۔ اور ہفتے کا دن تھا ۔۔۔ لڑکھڑاتے
قدموں سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ کتنے پیگ بئیر کے پی کر نکلی ہے ۔۔۔۔ چست
لیدر کی پینٹ اور لیدر ہی کی جیکٹ جو سامنے سے فرنٹ اوپن تھی جس میں سے
جھانکتی نہایت مختصر ڈیپ نیک سلور تنگ شرٹ پہنے ہوئے وہ ایک میکسیکن کی
بانہوں میں بانہیں ڈالے بیہودگی کا کھلے عام مظاہرہ کر رہی تھی۔۔۔ اس کی
حرکات اور اس کے پہناوے پر انہوں نے گاڑی نہیں روکی تھی بلکہ اس کا چہرا
۔۔۔ ہاں وہ ہو بہو حوریہ سے مل رہی تھی ۔۔۔۔ وہ تیزی سے گاڑی سے اترے تھے
۔۔۔۔ اور سڑک کے اس پار بنے ٹی ہاؤس پر پہنچے تھے ۔۔۔
حوریہ!
آواز دی تھی انہوں نے اسے ۔۔۔۔ ان کی اواز پر اس لڑکی نے پلٹ کر انہیں
دیکھا تھا اور جھٹکے سے اپنی بانہیں میکسیکن کی بانہوں سے جدا کی تھی ۔۔۔۔
اور ایک دم وہ سرپٹ بھاگی تھی ۔۔۔۔ بجلی کی سی رفتار تھی اس کی ۔۔۔ اور
دیکھتے ہی دیکھتے وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئی ۔۔۔وہ حیرت اور صدمے کی سی
کیفیت میں آگئے تھے ۔۔۔ انہیں یقین ہی نہیں آرہا تھا کیا وہ وہی تھی ۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔
دل نے چپکے سے انکار کیا تھا ۔۔۔۔ حوریہ تو کبھی کسی کے سامنے بغیر سر کو
ڈھانپے نہیں آتی تھی ۔۔۔ اور یہ لڑکی تو نہ صرف بیہودہ لباس میں ملبوس تھی
بلکہ کھلے عام اوچھی حرکتیں بھی ایک غیر مرد کے ساتھ کر رہی تھی ۔۔۔ لیکن
اس نے حوریہ کا نام لینے پر انہیں ایسے کیوں دیکھا تھا ۔۔۔ اگر وہ حوریہ نہ
ہوتی تو پلٹ کر کیوں دیکھتی اور گھبراتی کیوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شک آہستگی سےان کے
دل میں اپنی جگہ بنا رہا تھا ۔۔۔ایک کے بعد ایک واقعات حوریہ کی شخصیت کو
مشکوک بنا رہے تھے ۔۔
اچانک پیچھے سے کسی نے ان کے کاندھے پر ہاتھ رکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ چونک کر
پلٹے تھے تو اسی مجذوب کو دیکھا تھا ۔۔۔۔ جو انہیں تاسف سے دیکھ رہا
تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کیا کہتے ہو تم ۔۔۔۔ وہ تو تجھے بھی چھل دے رہی ہے ۔۔۔۔۔
وہ کچھ دیر تو یونہی چپ چاپ اسے دیکھتے رہے ۔۔۔پھر اسکا ہاتھ جھٹک کر سڑک
پار کرنے لگے ۔۔۔۔
اب بھی وقت ہے سمینہ کو بچالے ۔۔۔ایک اچھا کام کر لے بھلا ہوگا تیرا ۔۔۔۔
آؤ میرے ساتھ ِِِِِِِِِِِِِ۔۔۔۔۔
رک کر پلٹ کر اسے دیکھا تھا ۔۔۔۔ اور اسے اپنے ساتھ چلنے کا کہا تھا ۔۔۔۔۔
ایک پرسرار مسکراہٹ کے ساتھ وہ مجذوب نے ان کے پیچھے روڈ کراس کی تھی ۔۔۔۔
انہوں نے چپ چاپ گاڑی کا دروازہ کھولا تھا اور اسے اندر بیٹھنے کا اشارہ
کیا تھا وہ بیک سیٹ پر بیٹھ گیا تو وہ بھی تھکے انداز میں ڈرائیونگ سیٹ پر
بیٹھ گئے ۔۔۔
ارے بھائی یہ تمہیں کہاں سے مل گئے ۔۔
آصف حیرت سے بولا تھا ان سے اور پلٹ کر اس مجذوب کو دیکھا تھا ۔۔۔ مگر
نظریں ملتے ہی مجذوب سے ایک خبیثانہ مسکراہٹ لبوں پر پھیلی تھی اور یہی
مسکراہٹ مجذوب کے ہونٹوں پر بھی رقصاں تھی ۔۔۔۔
×××××××××××
باقی آئندہ ۔۔۔۔۔۔ |