کرشمہ

گھر بننے کی جہاں خوشی تھی وہیں اپنے گملوں کو بچانے کی بھی فکر لاحق تھی۔جب سارا گھر ٹوٹے گا تو گملے کیسے بچیں گے؟ جو اتنے شوق سے رکھے ہیں۔ اور کو تو جانے دو مگر گلاب کا گملہ ضرور بچانا ہے اورایک حل ا س کی سمجھ میں آ ہی گیا۔
’’راشد بھیا یہ گملہ کچھ دنوں کے لئے اپنے گھر رکھ لو روزانہ پانی دے دیا کرنا اتنے اچھے گلاب کھلتے ہیں اس میں۔‘‘ اس نے خوشامدانہ لہجے میں کہا۔
’’اچھا ممانی جان لے جاؤں گا شام میں آ کر ، اس نے بڑی خوشی سے ہامی بھر لی۔‘‘
تین ماہ بعد جب گھر تیار ہو گیا تب اس نے پہلی فرصت میں اپنا گملہ منگوایا جمعہ کا دن تھا چھٹی تھی ناشتہ کے دوران اسے یاد آیا اوہ ہو میرا گملہ تو راشد نے لا کر ہی نہیں دیا۔
’’چلو اعظم تم جاؤ پھوپھی جان کے گھر اور ارشد بھیا سے کہو ابھی گملہ پہنچا دیں ‘‘ اس نے فوراً بیٹے سے کہا۔ ’’میں یہا ں برآمدے میں رکھوں گی کمرے سے باورچی خانے میں آتے جاتے گلاب کی مہک آیا کرے گی۔‘‘اور اس خیال سے ہی اسے سرور آ گیا۔
’’اوہو اتنی بے قراری بھی کیا ہے منگوا لینا پھر کبھی‘‘ سلیم صاحب نے تیکھی نظروں سے دیکھا۔ تم تو ایسے فراق میں تڑپ رہی ہو جیسے تمہارا کوئی بچہ رہ گیا اتنی دور!‘‘
’’تمہیں کیا پتہ سلیم میں نے کتنی چیزوں سے دل لگایا ہے ایک تمہاری چاہت کی کمی دور کرنے کے لئے تم جو ہمیشہ ہی مجھے نظر انداز کرتے آئے یا خدا جانے تمہارا طریقہ ہی یہی ہے تم انسان کو فرنیچر بنا ڈالتے ہو کہ بس ایک طرف رکھ دیا او رکام ختم۔‘‘اس نے سوچا اور کہہ نہ سکی۔
بھلا کیا فائدہ مانگ مانگ کر چاہت لی جائے۔ محبت کوئی خیرات نہیں ہے کہ صدا لگا لگا کر وصول کی جائے!‘‘
’’محبت تو نذرانہ ہے، تحفہ ہے، انعام ہے۔جو دینے والا دل کی گہرائیوں سے، خلوص سے، خوشی سے اور مرضی سے پیش کرتا ہے آنکھوں میں التجا لے کر کہ قبول کر لو، منظور کر لو! ‘‘ تب پلکوں سے نذرانے سمیٹے جاتے ہیں ۔ بچی کی طرح ہو گئی جس کا پسندیدہ کھلونا ٹوٹ گیا ہو۔
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ راشد میاں خود ہی گملہ ہاتھوں میں اٹھائے آ موجود ہوئے۔
مگر یہ کیا…… اس نے بے یقینی سے دیکھا
’’ تم کوئی اور گملہ اٹھا لائے راشد میاں یہ وہ والا نہیں ہے؟ چُرمرُپتیاں، سوکھے پھول، زردی مائل کالی ٹہنیاں! ‘‘
’’ وہ تو سرسبز و شاداب مضبوط پودا تھا جس میں ہر وقت دو چار گلاب جھومتے نظر آتے اور خوشبو بکھیرتے رہتے تھے۔
’’نہیں ممانی جان یہ وہی ہے ہمارے پاس تو کوئی اور گملہ ہے ہی نہیں۔ ننھے راشد نے حیرت سے دیدے گھمائے۔
’’تو پھر تم اسے روز پانی نہیں دیتے ہو گے حالانکہ میں نے جتایا تھا تمہیں۔‘‘ وہ لمحہ بھر کو بالکل اسی ضدی لہجے میں بولی
’’ارے ممانی جان قسم لے لیجئے صبح شام بلاناغہ پانی ڈالا کرتا تھا میں۔‘‘ ننھا راشد اب پریشان ہو چلا تھا۔’’اچھا تو پھر ڈالا ہو گا تم نے پانی مجھے یقین ہے۔‘‘
اس نے بڑے دکھ کے ساتھ گملہ باورچی خانے کے سامنے رکھ دیا۔
دوسرے جمعے کو ناشتہ ہو رہا تھا کہ راشد چلا آیا، آؤ راشد آؤ بیٹھو کیا حال ہے؟ سب خیریت ہے اور آپ سنائیں اور وہ آپ کا گملہ کیسا ہے ؟ میں یہی دیکھنے آیا تھا۔
’’وہ دیکھو! ‘‘ اس نے خوشی سے سرشار لہجے میں اشارہ کیا اور راشد کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب گلاب ایک نہ دو اکٹھے تین پھول ہنستے مسکراتے دیکھے۔ پودا پھر سے سبز ہو رہا تھا۔
’’واہ بھئی ممانی جان کمال ہو گیا کیا جادو کر دیا آپ نے اس میں تو جان پڑ گئی زندہ ہو گیا ہے۔‘‘ راشد خود بھی کھلا پڑتا تھا۔
’’محبت ایسے ہی کرشمے دکھاتی ہے بھیا۔‘‘ دراصل اسے تمہارے گھر میں پانی تو ملا صبح شام مگر محبت کی نظر نہیں ملی۔
’’وہ نظر جو میں سارا دن آتے جاتے اس پر ڈالا کرتی تھی پیار بھری نگاہیں مردوں کو جِلا دیتی ہے اور لا پرواہی ، سرد مہری زندگی کو مار دیتی ہے۔دیکھ لو ثبوت تمہارے سامنے ہے اور ہر اس انسان کے لئے ہے جو محبت کے اعجاز مسیحائی کا قائل نہ ہو․․․․․․!‘‘
ننھا راشد جا چکا تھا مگر وہ ایک جذبے کے عالم میں کہے جا رہی تھی۔
’’ جو جذبات و احساسات کو اہمیت نہ دے اور صرف ضروریات کی تکمیل کو ہی سب کچھ جان لے۔‘‘
اخبار پڑھتے پڑھتے سلیم صاحب کے کان کھڑے ہو گئے۔ یہ کیا کہہ رہی ہے۔ کون سے راز سے پردہ اٹھا دیا اس نے پھر سامنے نگاہ کی تین جھومتے مسکراتے پھولوں نے خوشبو بکھیرتے ہوئے اس کی بات کی تصدیق کر دی جو ابھی ابھی ان تک پہنچی تھی۔
Aasia Abdullah
About the Author: Aasia Abdullah Read More Articles by Aasia Abdullah: 23 Articles with 20471 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.