بھوت

 ہمیں زندگی میں ابھی تک کوئی اصلی بھوت نظر نہیں آیا ۔ بھوت ہی کیا کوئی جن بھی نہیں، پری کی تو ہم نے کبھی تمنا یا آس بھی نہیں رکھی: غالب ؔ ان ماہ رخوں کے واسطے چاہنے والابھی اچھا چاہیئے ہم میں ایسی کون سی بات ہے کہ کوئی پری یا پری پیکر ہمیں نظر ہی آئے ۔ وہ تو ہماری طرف دیکھنے کا تکلف بھی کرنے سے گریز کریں گے۔

دوسری بات یہ کہ ہر جاندار کے اندر ایک بھوت بھی ہوتا ہے جو اس جاندار کے جانے کے بعد سامنے آتا ہے۔انسان کے بھوت بننے کا دن اس کی ریٹائر منٹ کے بعد، ضعیف عمری میں یا دنیا سے چلے جانے کی بعدنظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد یا ضعیف عمری کے دوران دنوں کا گزرنا مشکل ہو جاتا ہے اور راتیں مشکل ترین ہو جاتی ہیں ۔ویسے بھی زندگی کا گزارنا مشکل نہیں تو آسان بھی نہیں ہے۔ لیکن زیادہ تر رائے اس کے مشکل ہونے پر متفق ہو تی ہے۔

پروفیسر اکمل کا بھوت دھیرے دھیرے اپنے گھر کے صحن میں گرے پتوں ، بکھرے تنکوں اور گرد آلودکاغذ کر پرزوں پر قدم رکھ رہا تھا تا کہ اس کی آ ہٹ کسی کان کو سنائی نہ دے۔ کیوں کہ آج سے کئی سال پہلے جب وہ اپنی چھوٹی بیٹی، سفینہ، کے پاس آیا تھا تو وہ اسے دیکھ کر چیخ اٹھی تھی اور پھر اپنے اوسان برقرار نہ رکھ سکی تھی ۔ کئی دنوں کی کوشش اورروحانی عاملوں کی جھاڑ پھونک اور تعویزوں سے اسے نارمل حالت میں واپس لایا گیا تھا۔ اور اس کے بعد انہیں مشورے بھی دیئے گئے اور وہ خود بھی چاہتے تھے کہ مکان فروخت کر کے کہیں اور چلے جائیں۔ لیکن یہ بات لوگوں تک کسی نہ کسی ذریعے سے پہنچ گئی کہ اس گھر میں آسیب ہے۔ اس گھر کی فروخت میں مشکلات پیش آرہی تھیں۔ اور اب تو وہ مکان واقعی ایسا لگ رہا تھا کہ اس پر آسیب کا تسلط ہوچکا ہو۔ جو بھی خرید دار آتا اسے یہ مکان یوں گھور کر دیکھتا جیسے یہ کہہ رہا ہو :ایک بار تو آگئے ہو ، دوبارہ ادھر نہ آؤ تو بہتر ہے ورنہ تمام ذمہ واری تمہاری اپنی ہو گی ۔

چنانچہ مکان کی فروخت ایک معمہ بنی ہوئی تھی۔بہت سارے پراپرٹی ڈیلر تھک ہار کر نام ہو چکے تھے اور اب ان کی اس مکان کی فروخت میں ذاتی دلچسپی نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ کبھی کبھار ہی کوئی خریدار آتا لیکن دوبارہ کوئی نہ آتا۔

پروفیسر اکمل کو دنیا سے رخصت ہوئے بہت سے سال بیت چکے تھے۔ وہ اپنی ریٹائر منٹ کے چندہی سال بعد بھوتوں کی دنیا میں چلا گیا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ ریٹائر منٹ کے بعد اپنے دوستوں سے ملنے کالج جایا کرتا تھا۔ کالج میں اس نے اپنی زندگی کا ایک لمباعرصہ گزارا تھا۔ جہاں اس نے اپنے سے بہت سے سینیئرز کو ریٹائر ہوتے دیکھا ۔ اور ان زندہ بھوتوں کا مشاہدہ بنفسِ نفیس کیا تھا۔ اس کے کئی دوستوں کے ساتھ بہت اچھے مراسم تھے اور کئی ایک کے تو گھروں میں بھی آنا جانا تھا۔ لیکن کئی ایک کے ناموں سے بھی شناسائی نہیں تھی۔ یہ اکثر ہوتا ہے کہ جب ملازم کی ریٹائر منٹ قریب آجاتی ہے تو اسے ادارے سے دلچسپی کم ہو جاتی ہے ، اس کے دوست ساتھی بھی اس سے کچھ دور، دور ہونے لگتے ہیں اور وہ خود بھی دلی طور پر اپنے آپ کو کچھ علیحدہ سا محسوس کرنے لگتا ہے۔ لیکن جب تک آدمی مر نہ جائے اسے مرحوم قرار نہیں دیا جاتا اور جب وہ مر جائے تو اسے کبھی زندہ تصور نہیں کیا جاتا۔ہاں کبھی وہ زندہ تھا ،یہ تصور کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت ، حقیقت ہوتی ہے۔چاہے کوئی مانے نہ مانے۔وہ ایک ایسا چھلکا بن جاتا ہے جس کے اندر کا رس یا گودا یا تو کھا جا چکا ہوتا ہے یا پھر سوکھ چکا ہوتا ہے۔ اور پھر اسے اٹھا کر باہر پھینکنے کی تدبیر سوچی جاتی ہے۔ اس کے مناسب وقت کا انتظار کیا جاتا ہے ۔ اس کو کوڑے کے ڈھیر کی زینت بنا دیا جاتا ہے۔ پہنچی وہیں پے خاک جہاں کا خمیر تھا۔ آخرانسان مٹی سے پرانی نسبت کو یاد کرتے ہوئے اس سے قریبی رشتہ استوار کرتا ہے اور پھر وہ چارو ناچار پیوندِ خاک بننے میں ہی اپنی عزت و آبرو کی عافیت پاتا ہے۔

سال گھٹتے، گھٹتے مہینے ، مہینے سکڑتے، سکڑتے ہفتے، ہفتے سمٹتے ، سمٹتے دن اور دن گزرتے، گزرتے گھڑیاں رہ گئے اور پھر آخری گھڑی بھی آن پہنچی جب دن کے تین بجے اس نے اپنی ریٹائر منٹ کے کاغذات پر اپنے آخری دستخط ثبت کئے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے لیکن اس کی برداشت نے فوراً اپنے حوصلے کے رومال سے انہیں خشک کر دیا تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ پروفیسر اکمل اپنی ریٹائر منٹ پررو پڑا تھا۔ آخر انسان کا ضبط بھی تو ہوتا ہے۔ اس دن کی یادوں میں اتنی خوشگواری ، جان نثاری اور غم گساری تھی جتنی کوئی خواب میں محسوس کرے ۔ وہ ایک لمحے کے لئے حیران ہوا کہ لوگ اسے کتنا چاہتے ہیں، اس کے چلے جانے کا کالج کے ماحول اور اس کے رفقائے کار کو کتنا صدمہ ہوا ہے، وہ اپنے دوستوں کے کتنا قریب تھا بلکہ ان کے دل اسی کے دم قدم سے آباد تھے جو کہ اس کے بعد خزاں کا نشان بن کر رہ جائیں گے۔ اس کی اپنے کالج میں کتنی عزت تھی جس کا اندازہ اسے بس آخری دن ہو رہا تھا جب سب ساتھی لوگ اس کی الوداعی تقریب میں اچھے کپڑے پہنے ، چہروں پر مسکراہٹیں سجائے اس کی شان میں پڑھے جانے والے نثری قصیدوں سے اپنے کانوں میں رس گھول رہے تھے۔ ایک شاعر پروفیسر تو اس کی شان میں منقبت لکھ لایا تھا ۔ اس کے لئے کالج اور دوستوں کی طرف سے بہت سے تحائف کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ اسے ایسے رخصت کیا جا رہا ہے جیسے کسی دلہن کو کیا جاتا ہے لیکن بار بار اسے محفل کے دلہے کا اعزاز ہی دیا جاتا تھا۔ اس تضاد کو دل ہی دل میں محسوس کر کے محظوظ بھی ہوتا ۔اس کے گلے میں پھولوں کے اتنے ہار پہنائے گئے تھے جیسے اسے ہاروں کے بوجھ سے گلا گھونٹ کر مار دیا جانا ہو۔ لیکن یہ صرف ایک خیال تھا لوگوں نے اپنی محبت کا اظہار ہی اتنا کیا تھا کہ اب مرجانا بھی کوئی مشکل نہ تھا۔ اتنی عزت افزائی کے بعد اگر موت بھی آئے تو بری نہیں ۔اتنی عزت انسان کو کہاں ملتی ہے؟

اس تقریب میں جب طوالت آنے لگی تو لوگوں کو پریشانی ہونے لگی۔وہ آپس میں چہ مگوئیاں کرنے لگے اور اشاروں کی زبان سے احتجاج کا اظہار کرنے لگے کہ انہوں نے جانا بھی ہے، دیر ہو رہی ہے ، تقریب کو مختصر کیا جائے تا کہ کھانا ٹھنڈا نہ ہو جائے۔ ان اشاروں سے پروفیسر اکمل اچھی طرح آگاہ تھا کہ یہ پہلے ہونے والی ایسی تقریبوں میں بھی چلتے رہے تھے، کوئی نئی بات نہ تھی۔اسے اس بات کا بھی ادراک تھا کہ الوداعی تقریب میں ہونے والی باتیں بڑی حد تک رسمی ہوتی ہیں ۔ لیکن انسان پھر انسان ہے دھوکہ کھا جاتا ہے اور یہ سمجھنے لگتا کہ دنیا کا جو وطیرہ دوسروں کے ساتھ ہے شاید اس کے ساتھ نہ ہو۔ لیکن ہوتا پھر وہی ہے جو کہ سب کے ساتھ ہوتا ہے۔اس تقریب کی تقاریر ریکاڈ کی گئیں، بے شمار تصویریں بنائی گئیں۔ گروپ فوٹو بھی لئے گئے۔آج کا دن تو بس پروفیسر اکمل کے نام تھا ، لیکن ستم ظریفی یا حقیقت پسندی یہی تھی کہ بس آج کااور صرف آج کا دن ہی تھا باقی کی ساری عمر اس کے بر عکس ہی گزرنی تھی۔جیسا کہ ہوتا آیا ہے۔ جب تقریب کی طوالت میز بانوں کو پریشان کرنے لگی تو انہوں نے اسے سمیٹنے کی ترکیب کی ۔ آخر پے پروفیسر اکمل صاحب کو بھرپور تالیوں کی زور دار گونج میں سٹیج پر لیکٹرن پر بلایا گیا کہ وہ آ کر اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں۔ اس کے نشت سے اٹھنے پر تمام لوگ اپنی اپنی نشستوں سے اٹھے گئے ۔ اور دیر تک تالیاں بجتی رہیں اس لئے کہ آج کے بعد اکمل صاحب کے لئے تالیوں کے ڈھیر کا کوٹا ختم ہو جانا تھا اور بعد میں خود انہوں نے بجتے پھرنا تھا۔

تقریب کے اختتام پر ایک پر تکلف دعوت پروفیسر اکمل کے اعزاز میں ارینج کی گئی تھی۔ اگرچہ کھانا تو لوگوں نے اپنے اپنے پیٹ کے لئے تھا لیکن نام اکمل صاحب کا تھا کہ ان کے اعزاز میں کھانا دیا جا رہا ہے۔ کھانے سے فارغ ہوتے ہی لوگوں کو اپنے اپنے گھروں کی یاد ستانے لگی ۔ انہیں پہلے ہی کافی دیر ہو چکی تھی۔ وہ کھانے سے فارغ ہوتے ہی اپنے گھروں، شہروں اور اکیڈمیوں کی طرف گامزن ہو رہے تھے۔ جلد ہی اتنی محبت کے نعروں کی قلعی کھلنے لگی تھی۔

اختتام پر پروفیسر اکمل اور اس کے چند ایک قریبی رفیق ہی رہ گئے تھے باقی سب نے ان سے الوداعی مصافحہ و معانقہ کیا اور چلتے بنے۔ بعض نے جاتے جاتے یہ ضرور کہا کہ آپ کالج آتے جاتے رہنا۔ ہم آپ کے آنے کا انتظار کریں گے۔پھر وہ ساعت آن پہنچی جو کئی سالوں سے چلی آ رہی تھی اور اب وہ سر پر آ کر رک گئی تھی۔ ہاں وہی لمحہ جب انسان اپنے ریٹائر منٹ کے کاغذوں پر اپنے دستخط ثبت کرتا ہے۔ سو وہ بھی ہو گئے اور پھر اکمل کے ساتھ بس ایک دو ساتھی ہی تھے جو آج اس کے ساتھ اس کے گھر تک جانا چاہتے تھے۔ کیوں کہ ان کی محبت اس بات کا اجازت نہیں دے رہی تھی کہ سروس کے آخری دن بھی پروفیسر اکمل اکیلے ہی گھر جائیں۔وہ ان کے ساتھ ہی کالج سے نکلے اور پھر موٹر بائیک پر ان کے گھر کی جانب روانہ ہو گئے۔

کچھ دیر مذید ان کے ساتھ گفتگو ہوتی رہی اور آخر تو سب نے جانا ہی ہوتا ہے۔ سب چلے گئے اور آخر پروفیسر اکمل اکیلے ہی رہ گئے۔ گھر میں اس کی بیوی اور دوبیٹیاں اس کی منتظر تھیں۔ پھر وہ ان کے پاس جا بیٹھے اور آج کے دن کے حوالے سے کالج، دوستوں اور سارے ماحول کی باتیں ہوتے ہوتے آج شام کے کھانے کی باتوں میں گم ہو گئیں۔

دنیا ایک کتاب، وقت اس کا استاد اور انسان اس کا طالب علم ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے، پڑھتے ز مانے بیت جاتے ہیں اور سمجھ پھر نہیں آتی اور اگر آتی ہے تو ادھوری اور قلیل۔

کچھ ہفتوں بعد اکمل صاحب کو تنہائی کی ناگن ڈسنے لگی تھی۔ دوستوں کے فون تو کیا میسج بھی آنے کم، کم اور بند، بند سے ہو گئے تھے۔ شروع،شروع میں دوستوں کی کال اور میسج کا سلسلہ کسی حد تک چلا تھا لیکن پھر موسم کی تبدیلی سے سردی کی شدت بڑھنے لگی تھی۔ کال اور میسج کی گرم جوشی آہستہ آہستہ موسم کی سرد مہری کی عادت اپنانے لگی تھی۔ درختوں سے بہت سے پرانے پتے گر چکے تھے۔ پرانی یادوں کی البم میں نئی تصویریں سج چکی تھیں۔ پرانے زخم مندمل ہو رہے تھے۔ آخر کسی کے پاس اتنا وقت کہاں ہے کہ بیگانے غموں اور پریشانیوں کو گلے لگائے رکھے۔ رسمی باتیں ہی کافی ہوتی ہیں ۔ مرنے والے کے ساتھ کون مرتا ہے۔ اگر اکمل صاحب ریٹائر ہوئے ہیں تو کیا کوئی انوکھی بات ہوئی ہے، سب نے ہونا ہے، بہت سے پہلے بھی تو ہو چکے ہیں ، اور ہوتے ہی رہتے ہیں ، وقت کا چلن ہی ایسا ہے۔

پروفیسر اکمل کا موبائل اس انتظار میں رہتا کہ کوئی کال آئے یا کسی کا میسج آئے۔ کالیں اور میسج تو ضرور آتے تے لیکن وہ جب بھی غور سے دیکھتا وہ کال کسی سم کی کمپنی کی ہوتی اور یہی حال میسجوں کا بھی تھا۔وہ کمپنیوں کی کالوں اور میسجوں کے علاوہ بھی لوگوں یعنی اپنے جاننے والوں کے میسجوں کا منتظر رہتا لیکن وہ سب پرانے دور کی باتیں ہو چکی تھیں۔خیر اس میں عزتِ نفس بھی تھی تو اس نے خود سے اپنے دوستوں کو کال اور میسج کرنے کی سبیل نکالنا چاہی تو اس سلسلے میں بھی اچھا رسپانس نہ آیا دوستوں نے رپلائی کرنا بھی زیادہ مناسب نہ سمجھا ۔

جب وہ کالج جاتا تھا تو ساتھی سب اچھے برے لطیفے ، اشعار وغیرہ جو میسجوں میں آتے نہ صرف زبانی سناتے بلکہ اس کو میسج بھی کرتے لیکن اب پتہ نہیں ویسے میسج سینڈ کرنے سرکاری طور پر دہشت گردی یا شرانگیزی کے زمرے میں آگئے ہیں یا دوست اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ ان کے پاس اتنابھی وقت نہیں ، یا یہ کہ اس کا نمبر ہی ڈیلیٹ ہو گیا ہے کہ وہ چاہتے تو بہت ہیں کہ اس کو کال کریں یا میسج بھیجیں لیکن ان کے پاس نمبر ہی نہیں ہے ۔ لیکن یہ ساری باتیں طفل تسلیاں تھیں بات صرف یہ تھی کہ اکمل ساحب ریٹائر ہو گئے تھے ۔ دوسرے الفاظ میں وہ ملازمت کے صفحات میں بھوت بن چکے تھیں۔ جس طرح لوگ بھوتوں سے خوف زدہ ہوتے ہیں ایسے ہی ریٹائرڈ لوگوں سے ملنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ جس طرح بھوت نا پسندیدہ ہوتا ہے ایسے ہی اکمل ناپسندیدہ ہو چکا تھا۔ دوسرے الفاظ میں وہ ایک زندہ بھوت تھا۔

آخر دوستوں کو ہو کیا گیا ہے۔ چند ماہ بعد اکمل ساحب کا دل کیا کہ وہ خود ہی جا کر دوستوں سے مل آئے ۔ اس نے کون سے کسی کے پیسے مارے ہیں یا کسی سے مانگنے ہیں ۔ کچھ وقت دوستوں کی محفل میں گزاریں گے ،دل ہلکا ہو جائے گا ۔ کوئی نئی، پرانی بات کریں گے۔ اچھا لگے گا ۔ اس نے اچھے سے کپڑے زیبِ تن کئے اور اپنے کالج آنے کے پرانے انداز سے کالج کے گیٹ سے کالج کی حدود میں وارد ہو گئے۔ دوستوں نے دیکھا تو لپک کے چلے آئے۔ اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹوں میں آنے کی دعوت دی ۔لیکن ایک وقت میں تو وہ ایک کی بات ہی مان سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے سب سے قریبی دوست اظہر کی بات مان لی اور اس کے کمرے میں چلے گئے جہاں وہ اکثر جایا کرتے تھے۔ جب وہ بھوت نہیں بنے تھے۔ وہاں کافی دوستوں سے ملاقات ہو گئی ۔ اکثر دوست تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے بیٹھے اور پھر جانے یا پیریڈپرھانے کا کہہ کر چلتے بنے۔ کسی کے پاس زیادہ دیر بیٹھنے کا وقت نہیں تھا ۔ ویسے آج کل وقت ہے کس کے پاس ، شاید کسی کے پاس بھی نہیں۔دوستوں نے اپنی اپنی مصروفیات اور مجبوریوں کی باتیں کیں۔ اکمل واضح طور پر ان کی آنکھوں میں آچکی بے گانگی پڑھ سکتا تھا۔ کیوں کہ وہ اب تجربہ کار ہو چکا تھا۔

یہ بیگانگی وہی تھی جو کسی زندہ اور کسی مردہ کے درمیان ہوتی ہے۔اسے یہ بات کافی محسوس ہوئی کہ اسے آنے کی غلطی دوبارہ نہیں کرنی چاہیئے۔ زمانہ بدل چکا ہے۔ اس تبدیلی کو مان لینا ہی دانائی ہے۔ ورنہ دہائی ہی دہائی ہے۔اسے اب بھوتوں کی دنیا میں ہی رہنا چاہیئے۔ بھوت انسانوں میں اچھے نہیں لگتے۔

چند ماہ بعد اکمل صاحب کو پھر کسی کام کے حوالے سے کالج کی چاردیواری میں قدم رکھنا پڑا۔ اس بار تو کلرکوں کے تیور بھی واضح تبدیلی ظاہر کر ہے تھے۔ جو کبھی سر، سر کیا کرتے تھے ۔ اب ان کے سر کہنے کے لہجے میں کچھ فرق آ چکا تھا۔ خاص طور پر ہیڈ کلرک کی بھاری آواز میں پہلے جیسی ادب افزائی نہیں تھی۔چائے کی صلح بھی ایک تکلف کا درجہ اختیار کر چکی تھی۔وہ وہاں بیٹھا اپنے بھوت بن جانے کے کسی بھی وہم سے آزاد ہو چکا تھا۔اس کی مجبوری تھی کہ اسے کالج آنا پڑا۔ دوستوں کے پاس آج با لکل وقت نہ تھا، ان کی کوئی ایمرجنسی میٹنگ سٹاف روم میں ہو رہی تھی۔ سکیورٹی کے حوالے سے کل کوئی سیکرٹری آ رہا تھا اور تمام انتظا میہ اس پریشانی میں تھی۔ پریشانی میں رویوں کی تبدیلی اکثر ہو جاتی ہے۔ شاید اس وجہ سے آج کوئی دوست اسے اپنے کمرے میں آنے کی دعوت نہیں دے رہا تھا۔ وہ کالج کے آفس سے فارغ ہو کر تھکے تھکے قدموں سے یوں گیٹ کی طرف محوِ گام تھا جیسے وہ اپنے گھر سے صدیوں کے فاصلے پر کسی نا آشنا جگہ پر چل رہا ہو ۔ جیسے وہ کوئی بھوت ہو جو کسی کو نظر نہ آرہا ہو اور ہر کوئی اس سے نظریں چرا نے میں اپنی عافیت سمجھتا ہو ۔

اتنی عمر میں اتنی عقل تو آ جانی چاہیئے کہ تبدیلی ایک حقیقت ہے اور آ کر رہتی ہے۔ اگر کوئی آج کو گزشتہ کل کی طرح ہی سمجھتا ہے تو وہ مطلق احمق ہے۔ ہر ساعت ایک نئی ساعت ہوتی ہے۔ اب تو اتنے مہینے اور اتنے سال گزر چکے تھے۔ اس کا کالج میں آنا ایسا تھا جیسے دنیا سے جا کر کوئی واپسی کا سفر کرے۔ یعنی بھوت بن کر واپس آئے۔

ریٹائرڈ پروفیسر اکمل نے اپنے پیاری پیاری دونوں بیٹیوں کی شادیاں اچھے گھر دیکھ کر دیں۔ اور وہ اپنے گھروں میں خوشی اور عزت کی زندگی گزار رہی تھی۔ اس کی پیاری بیوی جلد ہی اس کی تنہائیوں میں اضافہ کر گئی۔ اس کی ضعیفی زندگی کا بوجھ اٹھانے سے عاجز آنے لگی تھی ۔ آخر ایک دن مسجد میں اعلان ہوا کہ پروفیسر اکمل دنیا سے کوچ کر گئے ہیں ۔ مرحوم کی نمازِجنازہ نمازظہر کے بعد ادا کی جائے گی۔

پروفیسر کی چھوٹی بیٹی کو اس سے بے حد محبت تھی۔ اس نے رو رو کے برا حا ل کر لیا ۔ دن رات رونے میں گزار دیئے۔ کھانے پینے کا ہوش بھی نہ رہا ۔ بڑی مشکل سے طبیعت معمول پر آئی۔ اکمل کے بھوت کوخیال آیا کہ کیوں نہ کسی دن وہ اپنی پیاری بیٹی سے مل آئے۔ بھوتوں کی دنیا سے انسانوں کی دنیا میں آنا بہت مہنگا تھا۔ ایک گھنٹے کے وزٹ کے لئے زندگی کیآدھی نیکیاں دینی پڑتی تھیں۔ اکمل کو اپنی چھوٹی بیٹی جسے وہ اپنی بیٹی ، اور بڑی کو اس کی ماں کی بیٹی کہا کرتا تھا، سے بہت پیار تھا۔ اس کو اس بات پر سوچتے سوچتے کئی دن لگ گئے ۔ آخر اس نے آدھی نیکیوں کے بدلے ایک گھنٹے کا وزٹ لینے کی درخواست دے دی۔ کئی مہینوں بعد اس کی درخواست کا نمبر آیا۔ اس کو ایک دن کا ایک گھنٹہ اپنی مرضی سے منتخب کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ اس نے وہ لمحہ دن کے بارہ بجے کا منتخب کیا ۔ اس کا خیال تھا کہ بیٹی جاگ رہی ہو گی اس کے پاس بیٹھے گا ، اس سے باتیں بھی کرے گا، حال احوال پوچھے گا اور اسے وہ ساری باتیں بتائے گا جو بھوتوں کے جہان میں ہوتی ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے بیرونِ ملک کی سیر کرنے والے واپس آ کر لوگوں کو اپنے سفر سے متعلق آگاہ کرتے ہیں۔ اس کی بٹیا بہت خوش ہو گی۔ آدھی زندگی کی نیکیوں کی کوئی بات نہیں باقی آدھی سے کام چل جائے گا ۔اس کی زندگی میں اتنی غلطیاں اور گناہ تھے ہی نہیں۔

اس نے مقررہ دن بارہ بجے اپنی بیٹی کے سامنے اپنا بھوت جسمانی شکل میں ظاہر کر دیا ۔ اس کی بیٹی خوف میں مبتلا ہو گئی۔ اس نے بہتیرا سمجھایا کہ وہ اس کے باپ کا ااصلی بھوت ہے جو انسانی شکل میں پھر سے اس کے پاس اس سے ملنے آیا ہے۔ لیکن بیٹی کو یقین کون دلائے۔ وہ چیخیں مارتی ہوئی اپنے کمرے سے باہر بھاگ گئی ، اس کا سانس پھول گیا ، پسینے چھوٹ گئے، رنگ اڑ گیا ، وہ بھوت! بھوت!
چلانے لگی۔
جلد ہی کافی لوگ اکٹھے ہو گئے ۔ انہوں نے سمجھا کہ وہ اکیلی بیٹھی ڈر گئی ہے۔ وہ کمرے میں داخل ہوئے ۔ اکمل کا بھوت پریشان ہو کر غائب ہو چکا تھا۔ کمرے میں کچھ بھی نہیں تھا۔ بیٹی کو بڑی مشکل سے دوبار کمرے میں لایا گیا ۔ وہ بے ہوش ہوتی جا رہی تھی۔ وہ دل کی کمزور تھی۔ اور اپنے باپ کے بھوت سے اس قدر ڈر گئی تھی کہ اب وہ اس مکان میں رہنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ اس نے اپنے شوہر کو مجبور کیا کہ اس مکان کو فروخت کر دیا جائے جو کہ اکمل کا اپنا مکان تھا۔ جس میں اس کی چھوٹی بیٹی اپنے شوہر کے ساتھ رہنے لگی تھی۔

ایک مدت گزرنے کے بعد پھر اکمل کو اپنی بیٹیوں کی محبت ستانے لگی۔ اس کو بار بار خیال آتا کہ اس کی چھوٹی بیٹی، سفینہ، کا پتہ نہیں کیا حال ہو۔ وہ بچاری ڈر گئی تھی۔ اس نے ایک بار پھر دنیا کا وزٹ کرنے کی درخواست دے دی اور اس کے عوض اپنی زندگی کی باقی آدھی نیکیاں دینے کی شرط پر دستخط بھی کر دیئے تھے۔ اس سلسلے میں وہ آج پھر اپنے پیارے گھر کے صحن میں قدم رکھ رہا تھا۔ لیکن گھر کے درو دیوار سے یہ کہہ رہے تھے کہ کیوں آئے ہو، کیا لینے آئے ہو، کس سے ملنا ہے، وہ لوگ یہاں سے جا چکے ہیں۔ یہ باتیں اس مکان کی دیواریں اس کے کانوں میں سرگوشیوں کے انداز میں کر رہی تھیں۔اکمل کا بھوت اپنے گھر کے بھوت کی باتیں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 313084 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More