اسلام کی آمد سے قبل عورت بہت مظلوم اور
معاشرتی وسماجی عزت واحترام سے محروم تھی۔ اسے تمام برائیوں کاسبب اور قابلِ
نفرت تصور کیا جاتا تھا۔ اہلِ عرب کے خواتین سے اس بدترین رویے کو بیان
کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
وَیَجْعَلُوْنَ لِلّٰہِ مَا یَکْرَہُوْنَ۔(النحل : ۶۲)’’اور وہ اﷲ کے لئے
وہ کچھ (بیٹیاں)ٹھہراتے ہیں جسے وہ خود ناپسندکرتے ہیں۔‘‘
یعنی کفارِ مکہ کا عقیدہ تھا کہ فرشتے اﷲ کی بیٹیاں ہیں جب کہ انہیں خود
اپنے لیے بیٹیاں پسند نہ تھیں بلکہ بیٹے پسند تھے۔ نومولود بچیوں کو زندہ
دفن کردینا اس جاہلی معاشرے کا جزوِ لاینفک تھا ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَإِذَا الْمَوْءُ وْدَۃُ سُئِلَتْ بِأَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَت۔(التکویر:۸، ۹)
’’اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ اسے کس جرم میں قتل کیا
گیا ؟‘‘
ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ زمانہ ٔجاہلیت میں عورت کا مرتبہ بہت ہی
ناپسندیدہ تھا اور وہ مظلوم اور ستائی ہوئی تھی ،نیز عورت کی حیثیت اس
زمانہ میں مال ومتاع کی طرح تھی جسے خریدا اور بیچا جاتا تھا ۔
اسلام نے آکر ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار
کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطاکیے جن سے وہ معاشرے میں انتہائی عزت
وتکریم کی مستحق قرار پائی ۔اسلام کی عورت کو عطا کردہ عزت وتکریم اور چند
حقوق یہ ہیں:
عورت کے انفرادی حقوق :
۱۔ عفت و عصمت کا حق: معاشرے میں عورت کی عزت واحترام کو یقینی بنانے کے
لئے اسلام نے اس کو حقِ عفت و عصمت عطا کیا اور مردوں کو بھی پابند کیا کہ
وہ اس کے حقِ عصمت وعفّت کی حفاظت کریں ۔ارشاد ربانی ہے :
قُلْ لِلْمُؤْمِنِینَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا
فُرُوجَہُمْ ذٰلِکَ أَزْکٰی لَہُمْ إِنَّ اللّٰہَ خَبِیرٌ بِمَا
یَصْنَعُونَ۔(النور :۳۰)
’’(اے رسول مکرم ﷺ !)ایمان والوں سے فرما دیجیے اپنی نظریں نیچی رکھا کریں
اور اپنی شرمگا ہوں کی حفاظت کریں ۔یہ ان کے لئے انتہائی پاکیزگی کا موجب
ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس سے باخبر ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں ۔‘‘
اس کے بعد عورتوں کو حکم ہوتا ہے :
وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ
فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ
مِنْہَا۔(النور:۳۱)
’’اور (اے رسول اکرمﷺ ! )ایمان والی عورتوں سے کہہ دوکہ (مردوں کے سامنے
آنے پر )وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور
اپنی زیب وزینت کی نمائش نہ کریں سوائے جسم کے اس حصہ کے جوکھلا رہتا ہے۔
‘‘
اب حواء کی بیٹی کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے گوہر عصمت و عفت کی حفاظت کرے ۔
۲۔ تعلیم وتربیت کا حق : حضور اکرم ﷺ نے خواتین کی تعلیم وتربیت کو بہت اہم
اور ضروری قرار دیا ،آپ ﷺ کا ارشاد ہے :
الرجل تکون لہ الامۃ فیعلمہا فیحسن تعلیمہا ویودبہا فیحسن ادبہا ثم یعتقہا
فیتزوجہا فلہ اجران۔( کنزالعمال )
’’اگر کسی شخص کے پاس ایک لونڈی ہو پھر وہ اسے تعلیم دے اور یہ اچھی تعلیم
ہو ۔اور اس کو آداب مجلس سکھائے اور یہ اچھے آداب ہوں۔پھر آزاد کر کے اس سے
نکاح کرے تو اس شخص کے لئے دوہرا اجر ہے ۔‘‘
۳۔ حسن سلوک کا حق : حضور نبی اکرم ﷺ نے عورتوں سے حسن سلوک کی تعلیم دی
اور زندگی کے عام معاملات میں عورتوں سے عفوودرگزر اور رافت ومحبت پر مبنی
سلوک کی تلقین فرمائی:
’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے
فرمایا : جو شخص اﷲ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے
ہمسائے کو تکلیف نہ دے ،اور عورتوں کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں میری
وصیت قبول کر لو کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئیں ہیں۔اور سب سے اوپر والی
پسلی سب سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو توڑ ڈالو
گے اور اس کے حال پر چھوڑے رہو گے تب بھی ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی۔ پس عورتوں کے
ساتھ بھلائی کرنے کے بارے میں میری وصیت قبول کر لو ۔‘‘(مسلم)
’’مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا ،اور عورتوں کے لیے اس
میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا ۔‘‘
۴۔ حرمتِ نکاح کا حق : اسلام سے قبل کفار و مشرکینِ عرب بلا امتیاز ہر عورت
سے نکاح کو جائز سمجھتے تھے ۔باپ مرجاتا تو بیٹا ماں سے شادی کرلیتا
تھا۔(الجصاص، احکام القرآن)
اسلام نے عورتوں کے حقوق نمایاں کرتے ہوئے بعض رشتوں سے نکاح کو حرام قرار
دیا ۔اس کی تفصیل قرآن کریم نے یوں بیان کی ہے : حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ
أُمَّہَاتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَأَخَوَاتُکُمْ وَعَمَّاتُکُمْ
وَخَالَاتُکُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّہَاتُکُمُ
اللَّا تِی أَرْضَعْنَکُمْ وَأَخَوَاتُکُمْ مِنَ الرَّضَاعَۃِ وَأُمَّہَاتُ
نِسَائِکُمْ وَرَبَائِبُکُمُ اللَّا تِی فِی حُجُورِکُمْ مِنْ نِسَائِکُمُ
اللَّا تِی دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَإِنْ لَمْ تَکُونُوا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ
فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِکُمُ الَّذِینَ مِنْ
أَصْلَابِکُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَیْنَ الْأُخْتَیْنِ إِلَّا مَا قَدْ
سَلَفَ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُورًا رَحِیمًا۔(النساء :۲۳)
’’تم پر تمہاری مائیں ، تمہاری بیٹیاں ، تمہاری بہنیں ، تمہاری پھوپھیاں ،
تمہاری خالائیں ، بھتیجیاں،بھانجیاں اور تمہاری (وہ )مائیں جنہوں نے تمہیں
دودھ پلایا ہو، تمہاری رضاعت میں شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں سب
حرام کردی گئی ہیں ۔اور (اسی طرح )تمہاری گودمیں پروش پانے والی وہ لڑکیاں
جو تمہاری ان عورتوں (کے بطن)سے ہیں جن سے تم صحبت کر چکے ہو (بھی حرام ہیں
)۔ پھر اگر تم نے ان سے صحبت نہ کی ہو تو تم پر ان کی (لڑکیوں سے نکاح کرنے
میں )کوئی حرج نہیں اورتمہارے ان بیٹوں کی بیویاں (بھی تم پر حرام ہیں )جو
تمہاری پشت سے ہیں اور یہ (بھی حرام ہے کہ )تم دوبہنوں کو ایک ساتھ (نکاح
میں )جمع کرو سوائے اس کے جو دور جہالت میں گزر چکا۔ بے شک اﷲ تعالیٰ بخشنے
والا، رحم فرمانے والا ہے ۔‘‘
عورت کے عائلی حقوق :
۱۔ ماں کی حیثیت سے حق : حضرت ابو ہریرۃ رضی اﷲ تعالیٰ نے بیان کیا :ایک
آدمی رسول اﷲ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزارہوا : یارسول اللّٰہ من
احق الناس بحسن صحابتی؟’’یا رسول اﷲ ﷺ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق
کون ہے؟‘‘قال: امک، قال: ثم من؟ قال: ثم امک، قال: ثم من؟ قال:ثم امک، قال:
ثم من؟ قال :ثم ابوک۔(صحیح بخاری)
’’فرمایا : تمہاری والدہ ۔اس نے عرض کی کہ پھر کون ہے ؟فرمایا: تمہاری
والدہ ۔ اس نے عرض کی کہ پھر کون ہے ؟فرمایا : تمہاری والدہ ہے ۔ اس نے عرض
کی کہ پھر کون ہے ؟فرمایا : تمہارا والد ہے ۔‘‘
۲۔ بیٹی کی حیثیت سے حق : وہ معاشرہ جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت ورسوائی کا
سبب قرار دیا جاتا تھا ،آپ ﷺ نے بیٹی کو عزت و احترام کا مقام عطا کیا ،
اسلام نے نہ صرف معاشرتی وسماجی سطح پر بیٹی کا مقام بلند کیا بلکہ اس کو
وراثت کا حق دار بھی ٹھہرایا ،ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یُوصِیکُمُ اللَّہُ فِی أَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ
الْأُنْثَیَیْنِ فَإِنْ کُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَہُنَّ
ثُلُثَا مَا تَرَکَ وَإِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصْفُ۔(النساء
:۱۱)
’’اﷲ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت)کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لیے
دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے ‘ پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا)دوسے زائد
تو ان کے لیے اس ترکہ کا دوتہائی حصہ ہے ‘ اور اگر وہ اکیلی ہوتو اس کے لیے
آدھا ہے ۔‘‘
۳۔ بہن کی حیثیت سے حق : قرآن کریم میں جہاں عورت کے دیگر معاشرتی وسماجی
درجات کے حقوق کا تعین کیا گیا ہے ،وہاں بطور بہن بھی اس کے حقوق بیان کئے
گئے ہیں ۔بطور بہن عورت کا حقِ وراثت بیان کرتے ہوئے قرآن حکیم میں ارشاد
فرمایا گیا :
وَإِنْ کَانَ رَجُلٌ یُورَثُ کَلَالَۃً أَوِ امْرَأَۃٌ وَلَہُ أَخٌ أَوْ
أُخْتٌ فَلِکُل وَاحِدٍ مِنْہُمَا السُّدُسُ فَإِنْ کَانُوا أَکْثَرَ مِنْ
ذٰ لِکَ فَہُمْ شُرَکَاءُ فِی الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوصٰی
بِہَا أَوْ دَیْنٍ غَیْرَ مُضَارٍّ۔(النساء :۱۲)
’’اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جارہی ہو جس کے نہ ماں
باپ ہوں نہ کوئی اولاد ہو اور اس کا( ماں کی طرف سے) ایک بھائی یا ایک بہن
ہو (یعنی اخیافی یا بہن )تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا حصہ ہے۔
پھر اگر وہ بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے۔
(یہ تقسیم بھی )اس وصیت کے بعد (ہوگی )جو (وارثوں کو )نقصان پہنچائے بغیر
کی گئی ہو یا قرض (کی ادائیگی )کے بعد ۔‘‘
۴۔ بیوی کی حیثیت سے حقوق : بیوی کے رشتے کی اہمیت اور اس سے رازداری کو
یوں بیان کیا گیا :
وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ
عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ وَاللّٰہُ عَزِیزٌ حَکِیمٌ۔(البقرۃ :۲۲۸)
’’اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں
کے عورتوں پر ،البتہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے ، اور اﷲ تعالیٰ بڑا غالب ‘
بہت حکمت والا ہے ۔‘‘
وَلَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ أَزْوَاجُکُمْ إِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُنَّ وَلَدٌ
فَإِنْ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنْ
بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوصِینَ بِہَا أَوْ دَیْنٍ وَلَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا
تَرَکْتُمْ إِنْ لَمْ یَکُنْ لَکُمْ وَلَدٌ فَإِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ
فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوصُونَ
بِہَا أَوْ دَیْنٍ۔(النساء :۱۲)
’’اور تمہارے لیے اس (مال)کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں
بشرطیکہ ان کی کوئی اولادنہ ہو، پھر اگر ان کی اولاد ہو تو تمہارے لیے ان
کے ترکہ سے چوتھائی ہے۔ (یہ بھی )اس وصیت(کو پورا کرنے )کے بعد جو انہوں نے
کی ہو یا قرض (کی ادائیگی )کے بعد ، اور تمہاری بیویوں کا تمہارے چھوڑے
ہوئے (مال)میں سے چوتھا حصہ ہے بشرطیکہ تمہاری اولاد نہ ہو ‘ پھر اگر
تمہاری کوئی اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے
تمہاری اس (مال)کی نسبت کی ہوئی وصیت(پوری کرنے ) یاتمہارے قرض کی ادائیگی
کے بعد۔‘‘
عورت کے ازدواجی حقوق :
۱۔ شادی کا حق : اسلام سے قبل عورتوں کو مردوں کی ملکیت تصور کیا جاتا تھا
اور انہیں نکاح کا حق حاصل نہ تھا۔اسلام نے عورت کو نکاح کا حق دیا ہے ۔
یعنی عورت خواہ یتیم ہو ،باندی ہو یا مطلقہ ،شریعت کے مقرر کردہ اُصول
وضوابط کے اندر رہتے ہوئے اسے نکاح کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا :
وَأَنْکِحُوا الْأَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصَّالِحِینَ مِنْ عِبَادِکُمْ
وَإِمَائِکُمْ إِنْ یَکُونُوا فُقَرَاء َ یُغْنِہِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہِ
وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ۔(النور:۳۲)
’’اور تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کا نکاح کردیاکروجو بغیر ازدواجی
زندگی کے (رہ رہے )ہوں اور اپنے نیک غلاموں اور باندیوں کا بھی ۔اگر وہ
محتاج ہوں گے (تو )اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں غنی کردے گا اور اﷲ بڑی
وسعت والابڑا علم والاہے ۔‘‘
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء َ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلَا
تَعْضُلُوہُنَّ أَنْ یَنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا
بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوفِ۔(البقرۃ :۲۳۲)
’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت (پوری ہونے )کو آپہنچیں تو
جب وہ شرعی دستور کے مطابق باہم رضامند ہوجائیں تو انہیں اپنے شوہروں سے
نکاح کرنے سے مت روکو۔‘‘
۲۔ مہر کا حق : شریعت نے سب سے اہم حق جوشادی کے وقت عورت کو دیا ہے ‘ وہ
مہر ہے ۔ اس بارے میں ارشاد ربانی ہے :
وَآتُوا النِّسَاء َ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَۃً فَإِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ
شَیْءٍ مِنْہُ نَفْسًا فَکُلُوہُ ہَنِیئًا مَرِیئًا۔(النساء :۴)
’’ اور عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے ادا کیا کرو، پھر اگر وہ اس میں سے
کچھ تمہارے لیے اپنی خوشی سے چھوڑ دیں تو تب اسے (اپنے لیے ) سازگار اور
خوش گوار سمجھ کر کھاؤ۔‘‘
یہاں تک کہ اگر مباشرت سے قبل طلاق ہوجائے تو اس صورت میں بھی عورت کو آدھا
مہر دیاجائے گا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِنْ طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوہُنَّ وَقَدْ
فَرَضْتُمْ لَہُنَّ فَرِیضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ۔(البقرۃ :۲۳۷)
’’اگر تم انہیں چھونے سے قبل طلاق دو اور ان کے لیے مہر مقرر کیا ہو تو
مقررکئے ہوئے مہر کا آدھا انہیں دو۔‘‘
۳۔ خلع کا حق : حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت ثابت
بن قیس رضی اﷲ عنہکی اہلیہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض گزار
ہوئیں : یارسول اﷲ ﷺ !میں کسی بات پر ثابت بن قیس رضی اﷲ عنہ سے ناخوش نہیں
ہوں ،نہ ان کے اخلاق سے اور نہ ان کے دین سے، لیکن میں اسلام میں احسان
فراموش بننا نا پسند کرتی ہوں ۔ تو حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :کیا
تم ان کا باغ واپس دینا چاہتی ہو؟انہوں نے کہا : ہاں۔حضور نبی کریم ﷺ نے
فرمایا :ان کا باغ دے دو اور ان سے طلاق لے لو۔‘‘(بخاری)
تاہم اگر شوہر صحیح ہو اور عورت کے تمام شرعی حقوق پورے کرتا ہو تو اس حالت
میں خلع لینا دُرست نہیں ہے ۔حضرت ثوبانؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے
ارشاد فرمایا :
ایما امرأۃ سألت زوجہا الطلاق ما بأس فحرام علیہا رائحۃ الجنۃ۔(مسنداحمد بن
حنبل)
’’جو کوئی عورت اپنے شوہر سے بلا وجہ طلاق مانگے اُس پر جنت کی خوشبو حرام
ہے ۔‘‘
۴۔ طلاق کے بعد عورت کے حقوق : اسلام کے نظام قانون میں طلاق کا اختیار مرد
کے پاس ہے۔مگراس اختیار کو اس وقت ہی استعمال کرنے کا حکم ہے جب اس کے
علاوہ کوئی چارہ نہ ہو۔آخری چارے کے طور پر جائز ہونے کے باوجود طلاق کو
حلال کاموں میں سب سے زیادہ نا پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔حضور نبی کریم ﷺ کا
ارشاد ہے :
ابغض الحلال عند اللّٰہ الطلاق۔(ابوداؤد، السنن)’’اﷲ تعالیٰ کے نزدیک حلال
چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے ۔‘‘
آپ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی ا ﷲ عنہ کو ارشاد فرمایا :
ولاخلق اللّٰہ شیاء علی وجہ الارض ابغض الیہ من الطلاق۔(دارقطنی، السنن)
’’اﷲ تعالیٰ نے روئے زمین پر کوئی چیز طلاق سے زیادہ ناپسندیدہ پیدا نہیں
فرمائی ۔‘‘
۵۔ حقوق زوجیت: مردپریہ ذمہ داری بھی عائدہوتی ہے کہ وہ حتی الوسع حقوق
زوجیت اداکرنے سے دریغ نہ کرے۔زمانۂ جاہلیت میں یہ رواج تھاکہ اگرخا
وندبیوی کودق کرنا چاہتاتوقسم کھالیتاکہ میں بیوی سے مقاربت نہیں کروں گا‘
اسے اصطلاح فقہ میں ایلاء کہتے ہیں۔اس طرح عورت معلقہ ہوکررہ جاتی،نہ مطلقہ
نہ بیوہ (کہ اورشادی ہی کرسکے)اورنہ شوہروالی ‘کیونکہ شوہرنے اس سے قطع
تعلق کرلیاہے۔یہ رویہ دُرست نہیں کیونکہ جوچیزاﷲ تعالیٰ نے انسان کے لیے
حلال ٹھہرائی ہے ،انسان کاکوئی حق نہیں کہ اسے اپنے اُوپرحرام قراردے
لے۔قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ کا فرما ن ہیـ: لِلَّذِینَ یُؤْلُونَ مِنْ
نِسَائِہِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَۃِ أَشْہُرٍ فَإِنْ فَاء ُوا فَإِنَّ
اللّٰہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ۔(البقرۃ :۲۲۶)
ـِْ’’جولوگ اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں توان کے لیے چارماہ
کی مہلت ہے۔پھراگروہ اس مدت کے اندررجوع کرلیں اورآپس میں ملاپ کرلیں تواﷲ
تعالیٰ بڑا بخشنے والا‘ انتہائی مہربان ہے۔‘‘
نبی اکرم شفیع معظمﷺنے اس بارے میں صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے
خاص طورپرارشاد فرمایا:
واللّٰہ انی لأخشاکم للّٰہ واتقاکم لہ لٰکنی أصوم وأفطروأصلی وأرقد، واتزوج
النساء فمن رغب عن سنتی فلیس منی۔(نسائی، السنن)
’’خداکی قسم،میں تمہاری نسبت خداسے بہت زیادہ ڈرتاہوں اوربہت متقی ہوں۔اس
کے باوجود ر و زہ بھی رکھتاہوں،اورافطاربھی کرتاہوں۔نمازبھی
پڑھتاہوں،سوتابھی ہوں اورعورتوں سے نکاح بھی کرتاہوں۔پس جومیری سنت سے
روگردانی کرے گا،وہ میرے طریقے پرنہیں۔‘‘
اس کے مقابلے میں عورت کوبھی یہ حکم دیاکہ وہ شوہرکی اجازت کے بغیرنفلی
روزہ نہ رکھے۔نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا:
لاتصوم المرأۃ وبعلھاشاھد الاباذنہ۔(ترمذی، الجامع الصحیح)
’’اپنے خاوندکی موجودگی میں عورت (نفلی)روزہ نہ رکھے مگراس کی اجازت سے۔‘‘
۶۔ کفالت کاحق: مردکوعورت کی جملہ ضروریات کاکفیل بنایاگیاہے۔اس میں اُس کی
خوراک ،سکونت،لباس،زیورات وغیرہ شامل ہیں: الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی
النِّسَاء ِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا
أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِہِمْ۔(النساء:۳۴)
’’مردعورتوں پرمحافظ ومنتظم ہیں اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان میں سے بعض
کوبعض پرفضیلت دی ہے ،اوراس وجہ سے (بھی)کہ
مرد(ان پر)اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘
وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ
أَرَادَ أَنْ یُتِمَّ الرَّضَاعَۃَ وَعَلَی الْمَوْلُودِ لَہُ رِزْقُہُنَّ
وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لَا تُکَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَہَا لَا
تُضَارَّ وَالِدَۃٌ بِوَلَدِہَا وَلَا مَوْلُودٌ لَہُ بِوَلَدِہِ وَعَلَی
الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ۔(البقرۃ :۲۳۳)
’’اورمائیں اپنے بچوں کودوبرس تک دودھ پلائیں۔یہ(حکم)اس کے لیے ہے جودودھ
پلانے کی مدت پوری کرناچاہے اوردودھ پلانے والی ماؤں
کاکھانااورپہننادستورکے مطابق بچے کے باپ کے ذمہ ہے ۔کسی جان کواس کی طاقت
سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے، (اور)نہ ماں کواس کے بچے کے باعث نقصان
پہنچایاجائے، اورنہ باپ کو اس کی اولادکے سبب سے،اوروارثوں پربھی یہی حکم
عائدہوگا۔‘‘
وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَی
الْمُتَّقِین۔(البقرۃ :۲۴۱)
’’اورطلاق یافتہ عورتوں کوبھی مناسب طریقے سے خرچ دیاجائے،یہ پرہیزگاروں
پرواجب ہے۔‘‘
حضرت حکیم بن معاویہ رضی اﷲ عنہ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں:
’’ایک آدمی نے بارگاہ رسالت مآب ﷺمیں عرض کیا: عورت کاخاوندپرکیاحق
ہے؟آپﷺنے فرمایا: جب خودکھائے تواسے بھی کھلائے ،جب خودپہنے تواسے بھی
پہنائے ،اس کے منہ پر نہ مارے ،اُسے برانہ کہے اورگھرکے علاوہ کہیں تنہانہ
چھوڑے۔‘‘(ترمذی، الجامع الصحیح)
۷۔ حسن سلوک کاحق: ازدواجی زندگی میں اگرمرداورعورت کے ایک دوسرے پرحقوق
ہیں توذمہ داریاں بھی ہیں۔پہلے مردکوحکم دیا:
وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ۔(النساء :۱۹)’’عورتوں کے ساتھ معاشرت میں
نیکی اور انصاف ملحوظ رکھو۔‘‘
اسلام نے نکاح کوایک معاہدہ قراردے کر بھی اس امرکی طرف اشارہ کیاہے :
وَأَخَذْنَ مِنْکُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا۔(النساء:۲۱)’’اورتمہاری عورتیں تم
سے مضبوط عہد لے چکی ہیں۔‘‘
اس’’مضبوط عہد‘‘کی تفسیرخودنبی اکرمﷺکے حجۃ الوداع کے خطبے میں یوں فرمائی:
اتقواللّٰہ فی النساء فانکم اخذتموھن بامانۃ اللّٰہ۔(دارمی، السنن)
’’عورتوں کے بارے میں اﷲ تعالیٰ سے ڈرو،کیونکہ تم نے انہیں اﷲ تعالیٰ کی
طرف سے بطورامانت لیاہے۔‘‘
اس حسن سلوک کی تاکید کرتے ہوئے حضورنبی اکرم ﷺنے فرمایا:
خیرکم خیرکم لأھلہ۔(ترمذی، الجامع الصحیح)’’تم میں سے اچھاوہی ہے جواپنے
اہل(یعنی بیوی بچوں)کے لیے اچھا ہے۔‘‘
۸۔ تشددسے تحفظ کاحق: خاوندپربیوی کایہ بھی حق ہے کہ وہ بیوی پرظلم
اورزیادتی نہ کرے:
وَلَا تُمْسِکُوہُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ یَفْعَلْ ذٰ لِکَ
فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ وَلَاتَتَّخِذُ وْاآیٰتِ اللّٰہِ ھُزُوًا۔(البقرۃ
:۲۳۱)
’’اوران کوضررپہچانے اورزیادتی کرنے کے لیے نہ روکے رکھو۔جوایساکرے گااس نے
( گویا) اپنے آپ پر ظلم کیا اوراﷲ تعالیٰ کے
احکام کومذاق نہ بنالو۔‘‘ |