امتحانات ، بوٹی مافیا اور کرنے کا کام

نقل عقل کے مقابلے میں استعمال ہوتی ہے ،اسی لیے کہا جاتا ہے نقل کے لیے عقل کی ضرورت ہوتی ہے ،نقل اصل کو سامنے نہیں آنے نہیں دیتی،نقل سمجھ پر غفلت کے پردے چڑھا دیتی ہے۔ نقل کرنے والا کام چور سست اورشارٹ راستے سے منزل تک پہنچنا چاہتا ہے نقل نقل کی رٹ اس لئے لگا رکھی ہے کہ امتحانات کے قریب آتے ہی بوٹی مافیا حرکت میں آجاتی ہے فوٹوسٹیٹ کا کاروبار بھی عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ خلاصے گائیڈزاور گیس پیپرز کی بھر مار ہوتی ہے ۔امتحان ہال میں بیٹھا معصوم بچہ نقل کرکے صرف اکیلا گنہگارنہیں اس کی ابتداء میں بڑے بڑے کاروباری اور بوٹی مافیا ہیں جو تعلیمی نظام کو کھوکھلا کر رہے ہیں ،جن کے بنے ہوئے پاکٹ خلاصے اور گائیڈزمارکیٹ میں با ٓسانی دستیاب ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر بچے میں محنت کا جذبہ ماند پڑجاتا ہے ،ضخیم درسی کتب کا خلاصہ یقینا بچے کو اپنی طرف کھینچتا ہے بلکہ ایک قدم اور ذرا پیچھے جائیں تو اب اساتذہ بھی ان گائیڈز کا سہارا لیتے نظر آتے ہیں بلکہ بعض اساتذہ توبچوں کو صرف اتنا کہہ دیتے ہیں کہ اس سوال کا جواب گائیڈ سے دیکھ کر لکھ لیں ان صاحب سے بھلا اگر کوئی پوچھے کہ آپ کو گورنمنٹ نے کس کام کے لیے رکھا ہوا ہے؟ آپ اتنی بھاری بھرکم تنخواہیں وصول کرکے بچے کی استعدادکیوں کر خراب کرتے ہیں۔ ہم اپنے اساتذہ سے سنا کرتے تھے کہ گائیدز صلاحیتوں کے قاتل ہیں اس سے بچے کی فطری استعداد کا قتل ہوتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب ہر چیز میں اختصار کا پہلو غالب آتا جاتا ہے ،ہر کوئی ڈبل شاہ بننے کے چکرمیں شارٹ راستے پر گامزن ہے کیوں کہ اصلی راستہ دشوار اور دور پڑتا ہے ۔بات ہورہی ہے نقل کی ،امتحانات قریب آرہے ہیں اور خاص کر میٹرک کے۔میٹرک کا امتحا ن شروع سے توجہ طلب رہا ہے ۔دس سال کی محنت کا نتیجہ ۔والدین کی امیدوں کا مرکز ۔کبھی کبھی میٹرک امتحان کا رزلٹ دیکھنے پوراگاؤں بے تاب ہوتا تھا ،پاس ہونے والے بچے کے گھر مبارکبادی آتی تھی ،ایسے میں اگر کوئی ناکام ہوتا تو اس کے لیے زمین کے ظاہر سے زمین کا باطن بہتر ہوتا تھا وہ اپنی زندگی کا چراغ گل کردیتا تھا ،اب نہ تو وہ دلچسپی رہی اور نہ ہی کوئی پوچھنے والا ۔تعلیم عام ہورہی ہے اور خوب عام ہورہی ہے اتنی عام کہ ہر طالب علم کی جیب میں علم کا خزانہ ،اور اس خزانے کو چھپانے کے نت نئے طریقے ،بہت سی جگہوں جانے کا اتفاق ہو اہے عجیب وغریب حرکات وسکنات کا سامنا کرنا پڑا ، پرائیویٹ سکول اپنارزلٹ بہتر بنانے کے لیے امتحانی سینٹر اور امتحانی عملہ خریدنے سے بھی گریز نہیں کرتے ،من پسند سٹاف کی تقرری کے لیے تگ ودو ،مزید براں سرکاری سکول بھی کسی سے کم نہیں ،انکریمنٹ ختم ہونے کا ڈر سکول کا پرنسپل بھی نقل مافیا کا سربراہ ،آنے والے سٹاف کی آؤ بھگت ، خاطر تواضع،سیر وتفریح اور ریفریشمنٹ کا بہتر ین انتظام ،پرسکون ماحول اور اپنی مرضی کے سٹیشن پر ڈیوٹی کے لیے کمیشن مافیا ۔ اب کی بار اس کا خطرہ مزید بڑھ چکا ہے کیوں کہ اچھا رزلٹ دینے والے سکولوں کی حوصلہ افزائی کے لیے پچھلی مرتبہ خطیر رقم تقسیم کی گئی اس بار وہ رقم شنید ہے کہ دگنی ہوگی اس لیے ہر ادارہ اپنا رزلٹ بہتر بنانے کے لیے کوشا ں ہوگا ۔

عصری اداروں کے تعلیمی بورڈ بھی دیکھے ان کے ماتحت ہونے والے امتحانات دیے بھی اور لیے بھی ۔دینی اداروں کے نمائندہ بورڈ وزٹ کیے اور وہاں بھی امتحان کا نظام مشاہدہ کیا ۔ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ۔ایک طرٖف کروڑوں روپے دوسری طرف کسمپرسی ، ایک طرف نقل مافیاتو دوسری طرف خوف خدا ۔ایک طرف صوبے میں کئی بورڈ دوسری طرف پورے ملک کا ایک بورڈ ،ایک طرف امتحانی عملے پر تشدد تو دوسری طرف اساتذہ کا احترام، ایک طرف اعزازیہ کے نام پر کروڑوں روپے تودوسری طرف بقدر ضرورت اکرام ،ایک طرف معاوضوں میں تاخیر دوسری طرف بلا تاخیراجراء۔ ان سب باتوں کو سوچتے ہوئے کبھی کبھی حیرانگی ہوتی ہے کہ مدارس اسلامیہ کو کوسنے والے صرف ان جیسا امتحان ہی کروا دیں ،مداس کے نصاب پر انگلیاں اٹھانے والے ذرا اپنے نصاب کو دیکھیں کتنے لوگ ان کا نصاب پڑھ کے فلاسفر بنے ۔پورے ملک میں بشمول فاٹا،گلگت بلتستان ایک وقت میں پیپررز کا انعقادیقینالائق تحسین ہے ،اس نظام کو لانے کی کوشش کی جائے ،طلباء کی تربیت ان خطوط پر کی جائے کہ ان میں خوف خدا کا جذبہ غالب ہو ،امتحان نگران مدارس کے نگران کی طرح صرف نگران ہو ،رشوت سے کوسوں دور ہو ،پیپر شروع ہونے سے پہلے جامہ تلاشی کی نوبت نہ آئے یہاں تو ایک چھانٹی امتحان ہال میں داخل ہوتے وقت، دوسری پیپر شروع ہونے سے پہلے اور تیسری ہنگامی اور خطرے کا سائرن بجنے کے وقت کی جاتی ہے جب متعلقہ بورڈ کا نمائندہ سینٹر میں داخل ہوتا ہے اس وقت منادی کی جاتی ہے ۔نقال :ہوشیار باش ؛اب آپ کو لاسٹ وارننگ دی جاتی ہے بورڈ سے بادشاہ سلامت تشریف لاچکے ہیں جس کسی کے پاس کسی قسم کا علمی خزانہ یا تعویذ موجود ہے آن ِواحد میں میں نکال باہر کرے ،پیپر کینسل ہونے کی صورت میں سپرٹینڈنٹ کسی قسم کا کوئی ذمہ دار نہ ہوگا ۔صاحب کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے اس کے بعد دھڑام سے پرزیاں، پرزے اور تعاویذ کے نکلنے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہوتا ہے اور چشم زدن میں علم کے خزانے کا انبار لگ جاتا ہے بعدازاں سینٹر کی انتظامیہ اس کو بیچ کر ادارے کی جائز ضروریات پوری کرتی ہے۔

اُفتاد تو یہ بھی ہے کہ نقل کرنے میں عقل سے بھی طلباء عاری ہو جاتے ہیں اسلامیات اور اس سے متعلق درسی کتب کی اہانت کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے قرآنی آیات ٹائلٹ اور ناپاک جگہوں میں پڑی دکھائی دیتی ہیں جن کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے پھر سلمان رشدی ،ٹیری جونزاور سلمان تاثیر کی اہانت کچھ نہیں لگتی جو قوم نبی ﷺکی عزت و ناموس کے قانون کوکالاقانون کہنے والے کو برداشت نہیں کرتی وہی قوم اس نبی آخر الزمانﷺپر نازل شدہ کتاب اورمقدس احادیث کو اپنے ہاتھوں سے اس کا تقدس پامال کرتی ہے ۔ان سب باتوں کو کون سوچے گا ؟کون اس کا سد باب کرے گا ؟امتحانی ہال اسی طرح چلتے رہے ،بوٹی مافیا اسی طرح متحرک رہی اور علم کے خزانے نونہالوں کی جیب سے یوں ہی نکلتے رہے تو تعلیم کا اﷲ ہی حافظ ہے ۔اس کے لیے اکیلا عمران خان کچھ نہیں کر سکتا ،بورڈ کا چیئرمین ہر طالب علم کے سر پر کھڑا نہیں ہو سکتا ،ہر نگران کو بورڈ کا چئیرمین بننا ہوگا ۔اس بات کو سوچنا ہوگا آپ کی عطاء کردہ رخصت ذہین طالب علم کے ساتھ ناانصافی ہے ،رات دن ایک کرنے والا پورا سال محنت کرنے والا طالب علم افسردہ ہوگا اس کے میرٹ کا قتل عام ہوگا ،اس کے لیے سب کو احساس ذمہ داری نبھانا ہوگی ،نگران بھی سپرٹینڈنٹ بھی ،بورڈکا چئیرمین بھی اور ڈائیریکٹر ایجوکیشن بھی ،وزیر تعلیم بھی وزیر اعلی بھی اور سب سے بڑھ کر صوبے میں انصاف کی تحریک کے سربراہ جناب عمران خان صاحب کو تعلیمی ایمرجینسی کو عملی جامہ پہنانا ہوگا ،بوٹی مافیا کو بے نقاب کرنا ہوگا ،امتحان ہالز کی سکروٹنی سخت کرنا ہوگی ،قوم کے معماروں کو مانیٹروں کے حوالے کرنے تبدیلی نہیں آجا یا کرتی مانیٹر مانیٹر ہوتا ہے کلاس کا ہو یادس سکولوں کا اس کا کام ہے شکایت لگانا اور اپنے نمبر بنانا ۔۔۔کرنے کاکام ہے نقل کی روک تھام ،مقدس آیات کی بے حرمتی کرنے والے طلباء کا کڑا احتساب اوربوٹی مافیا کو لگام۔۔۔۔نہیں تو کام کام کام ۔۔۔بس اپنا کام ۔
Touseef Ahmed
About the Author: Touseef Ahmed Read More Articles by Touseef Ahmed: 35 Articles with 35080 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.