عورت

ایک ایسی ہستی جو دنیا کی سب سے عظیم ہستی ہے۔ جس کے نام کا مطلب ہیــ’’پردے میں رہنے والی چیز‘‘اسکو ہم دنیا میں مختلف رشتوں میں دیکھتے ہیں کبھی ماں، کبھی بہن، کبھی بیٹی، کبھی پوتی وغیرہ وغیرہ مگر آج کے دور میں تو ہم نے اس نام کو ہی شرمندہ کردیا ہے تمام مذاہب سے ہٹ صرف انسان ہوتے ہوئے ہم نے انسانیت کے اس عظیم ستون کو اتنا شرمندہ کردیا ہے کہ وہ بھی آج اپنے آپ کو نیم عریاں لباس میں رکھ کر فخر محسوس کرتی ہے ایسا ہم نے کیا کیا ہے۔ کیا غلطی سرزد ہوگئی ہے جس کا ہم کو احساس ہی نہیں یا ہم اس بارے میں سوچنا نہیں چاہتے مگر آخر کچھ تو غلط کررہے ہیں ہم اس حوا کی بیٹی کے ساتھ جس کی وجہ سے اس کو بھی رشتوں کی اور اقدار کی اور سب سے بڑھ کر اپنی روایات کی قدر نہیں رہی اور وہ غیروں کی روایات اور رسم و رواج پہ مر مٹنے کو تیا ر ہوگئی ہے۔

دنیا کا کوئی بھی مذہب عورت کو اس طرح ذلیل و رسوا کرنے کا نہیں کہتا بلکہ سب ہی اس کو محفوظ رکھتے تھے پھر اسلام نے تو اس کو ایسے ایسے حقوق دلائے کہ اس کو گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت ہی نہیں رہی مگر ہم نے آج کے اس نام نہاد ترقی یافتہ دور میں اسکو مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا کردیا ہے اور اسکی حیثیت ایک اشتہار تک محدود کردی ہے کہ کوئی بھی چیزمارکیٹ میں لانی ہے تو اس کے لیے اشتہار ہمیشہ عورت کا ہوتا ہے خواہ وہ اچھی ہے یا بُری۔ جیسے بھی ہو اسکو اشتہاروں کی زینت بنادیا ہے اور اس پہ فخر محسوس کرتے ہیں۔

اسکی سب سے بڑی وجہ یہ کہ جو ذمہ داری ہماری تھی کام کاج کرکے گھر کو سنبھالنا اور اخراجات برداشت کرنا وہ ہم نے عورت کے ذمے لگادیے ہیں اور سکو کھل عام چھٹی دے دی ہے کہ جو مرضی کرے جیسا کام بھی ملتا ہے کری اور گھر کے اخراجات برداشت کرے تو اس نے بھی حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیا ہے اور اچھے بُرے کی تمیز ختم ہوتی جارہی ہے بس یہی ترقی ہوئی ہے چودہ سو سال میں کہ ہم نے خود ہی اپنے ہی ہاتھوں عورت کو چادر اور کپڑوں سے نکال کر رونق محفل بنا دیا ہے اور اس کے تمام حقوق کو تلف کرکے اسکو اشتہاروں کی زینت بننے پر مجبور کردیا ہے اور اس سب کے باوجود ہم اپنے آپ کو بہت مہذب سمجھتے ہیں پتہ نہیں کون سے مہذب ہیں ہم اور کون سی تہذیب کو اپنا یا ہے کون سی ترقی کی طرف جارہے ہیں کسی کو کچھ خیال نہیں۔

مگر لگتا ہے کہ دوبارہ پہاڑوں کے دور کی طرف جارہے ہیں کیونکہ آپس میں بھی ایک دوسرے کا دکھ درد ختم ہوگیا ہے اور ایسے رہ رہے ہیں جیسے انجان بھی نہیں رہتے اور یہ ترقی ہے یہ تہذیب ہے۔۔۔ کیا عجیب تہذیب ہے کہ نہ کپڑوں کی فکر ہے ناحلئے کی فکر ہے جیسے آج سے ہرزاروں سال پہلے لوگ جنگلوں میں رہتے تھے ویسی ہماری تہذیب ہوتی جارہی ہے اور ہوسکتا ہے جس تیزی سے ہم اس میں ترقی کررہے ہیں عنقریب ہم اس دور میں پہنچ جائیں گے۔ جس میں لوگوں کو کپڑوں کا پتا نہیں تھا مگرضرورت تھی اور جس میں لوگوں کو شرم و حیا تھی مگر جسم ڈھانپنے کے لیے کچھ نہیں تھا جبکہ آج کے دور میں اس کے بلکل اُلٹ ہوگیا ہے کہ جسم ڈھانپنے کو تو ہزاروں اقسام کے کپڑے اور دوسری مختلف اشیاء ہیں مگر شرم و حیا کی کمی ہوتی جارہی ہے؛ جیسے جیسے ترقی ہورہی ہے ۔اور اس میں ہم سب برابر کے شریک ہیں۔

اس آزادی نے ہماری تہذیب و تمدن تباہ کردیا ہے اور ہم اپنی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو عجیب غریب پہناوے پہنا کے فخر محسوس کرتے ہیں جبکہ ہم سب کو اس پر کم از کم شرمندہ تو ہونا چاہیے تھا چاہے ہمارا کسی بھی مذہب سے تعلق ہو انسانیت کے تقاضے تو نظر انداز نہیں کرنے چاہیے۔کیونکہ جب بھی قومیں انسانیت کے تقاضوں کو پامال کرتی ہیں تو دنیا میں تباہی مچ جاتی ہے۔تو خدارا سوچئے آج کے دور میں تباہی کی اصل وجہ کیا ہے کیو ں ہر معا شرے میں اتنے برے حالات پیدا ہوگئے ہیں؟کیوں ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم ہے؟ کیوں ہرروز لاکھوں عزتیں پامال ہوتی ہیں کیوں ہرروز عورت کی شان میں گستاخیاں ہوتی ہیں؟ کیوں ہر روز طلاقوں کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے ؟ کیوں گھروں میں آرام و سکون غائب ہوتا جارہا ہے؟ کیوں دل میں عورت کی عزت ختم ہوتی جارہی ہے؟

ذرا سوچئے کہ ایسا کیونکر ہورہا ہے دراصل اسکی سب سے بڑی وجہ آج کی یہ آزادی اور ترقی ہے جس نے عورت کو بازار حسن کی زینت بنا دیا ہے اور کچھ لوگ زبردستی اسکی طرف بھاگ رہے ہیں جیسے کہ ایک مشہور مقولہ ہے ’’آ بیل مجھے مار‘‘ عورت چاہے گاؤں میں رہ رہی ہے یا شہر میں ہرکوئی اس دوڑ میں شامل ہونے کی کوشش کرہی ہے اس کی وجہ سے ہی ہر معاشرے میں بے چینی کا عالم ہے اور لڑائیاں جھگڑے اور قتل و غارت ہورہی ہے۔ زنا کاری عام ہورہی ہے۔ بے حیائی اور فحاشی و عریانی عام ہورہی ہے۔ اس مقدس ہستی کو سنبھالنے کی اور سمجھانے کی کوشش کرو تاکہ حالات پر قابو پایا جا سکے۔کیونکہ اگر معاشرے میں عزت و آرام سے جینا چاہتے ہو تو سب سے پہلا قدم یہ اٹھانا ہوگا کہ عورت کو اس کے تمام جائز حقوق دے کر اسکو گھروں کی زینت بنایا جائے کیوں کہ اس کا اصل ٹھکانہ یہی ہے اور تمام تہذیبیں اور مذاہب عورت کو عزت کی نشانی قرار دیتے ہیں اور انسانیت بھی عورت کی عزت کرنے کاحکم دیتی ہے تاکہ معاشرے میں کوئی بگاڑ پیدا نہ ہو اور امن و آشتی کا بول بالا ہے۔

تو خدارا سب لوگ انسان بننے کی کوشش کرو اور عورت کی عزت کرنا سیکھو اسی میں بھلائی ہے ہرمعاشرے کی ہر ملک کی اور ہر مذہب کے ماننے والوں کی ! کیونکہ اس نام نہاد ترقی نے ہمیں فحاشی و عریانی اور تباہی کے سوا کچھ نہیں دینا تو ہم کو بھی چاہیے کی ایسی چیز کو کیونکر اپنائیں جس کا کوئی فائدہ نہ ہو اور تباہی ہی تباہی ہو

ذرا سوچو! اور ہوش کے ناخن لو اور عقل مند بن جاؤ ہر طرف امن و آشتی کا بول بالا ہوجائے گا اور سکون ہی سکون ہوجائے گا
اگر چاہتے ہو زمانے میں امن و آشتی کا بول بالا
تو عورت کا مقام و مرتبہ کیا ہے پہچانو اس کو!
سب کا مخلص
ایک ادنیٰ انسان
Zahid Sadiq
About the Author: Zahid SadiqCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.