زمینی خداؤں کی عطاء ۔۔بے روزگاری ،مہنگائی اور غربت
(Muhammad Riaz Prince, Depalpur)
سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے ملک کے اندر
اتنے وسائل موجود ہونے کے باوجود ہم بے روزگاری اور مہنگائی کا شکار ہو رہے
ہیں۔بے روزگاری نے اس وقت ہمارے ملک کے ہر انسان کو گھیرا ہوا ہے اس سے ہم
بچنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر بچ نہیں سکتے ۔اس لئے کہ دن بدن مہنگائی میں
اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہمارے ملک کے کسی بھی انسان
، حکومت اور حکومتی نمائندوں کے بس کی بات نہیں ۔اس مہنگائی کو بڑھنے میں
مدد کون کرتا ہے ۔آپ کو شاید پتہ ہو مگر پھر بھی میں آپ کو بتانے اور
سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ہمارے ملک کے وسائل میں کمی نہیں ہے اور نہ ہی
ہمارے ملک میں مہنگائی بے روزگاری کو ختم کرنے کے ذرائع میں کمی ہے ۔اگر
کسی چیز میں کمی ہے تو ہماری سوچ اور بھوک میں ہے جو کبھی بدلتی ہی نہیں
اور بھوک ہماری کبھی مٹتی ہی نہیں جتنا مرضی کمیشن ہم کھا لیں ۔میری بات آپ
سمجھ تو گئے ہوں گے کہ میں آپ کو کیا سمجھانا چاہتا ہوں
ہمارے ملک کے اندر اس قدرقدرتی وسائل موجود ہیں کہ اگر ہم نیک نیتی سے ان
پر کام کریں اور بے روزگاروں کو ان پر لگائیں تو ہمارے ملک سے بے روزگاری
اور مہنگائی سے جان چھوٹ سکتی ہے ۔مگر ایسا یہ لوگ کریں کیوں ۔اگر ان لوگو
ں نے غریب کو خوشحال دیکھ لیا تو ان کے تو کمیشن بند ہو جائیں گے ۔اور ان
خداؤں کو پوجے گا کون۔اگر یہ لوگ اپنی سوچ بدل لیں تو ہمارے ملک کا کچھ
بھلا ہو سکتا ہے ۔رہی کئھی کسر سٹاک ہولڈرز نکال دیتے ہیں وہ بھی تو ان
خداؤں کی پیداوار ہوتے ہیں ۔ان کو کسی غریب پر ترس کب آتا ہے۔وہ تو اپنے
خزانے بھرنے کی حوس میں مگن بیٹھے ہوتے ہیں۔
بے روزگاری کو ختم کیا جاسکتا ہے اگر ہمارے حکومتی نمائدے غریب لوگو ں کے
قابل اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو وسائل میسر کریں تو۔ ہمارے ملک میں ہر روز
بہت سی جابز نکلتی اور بند ہوتی ہیں ۔ غریب کا بچہ درخواست دیتا ہے اور اس
درخواست کے لئے لوگوں سے ادھار لے کر اس کی فیس ادا کرتا ہے کہ شاید اب
میری سنی جائے ۔ مگر اس کے سارے ارمان اس وقت خاک میں مل جاتے ہیں۔جب اس کو
اس قدر وسیع انتظار کی سولی چڑھا دیا جاتا ہے اور وہ انتظار کرتا رہتا ہے
کہ آخ یا کل اس کو کال لیٹر موصول ہو جائے گا ۔مگر اس کو تو صرف انتظار ہی
ملتا ہے ۔اور ان پوسٹ پر وہ لوگ فائز ہو جاتے ہیں جن کو اس جاب کی ضرورت ہی
نہیں ہوتی ۔ان کے تو پہلے ہی حالات بادشاہوں جیسے ہوتے ہیں ۔اور ان کے رقبے
ہزاروں ایکٹرز ہوتے ہیں ۔ان کو جابز کا کیا فائدہ مگر پھر بھی ہمارے ملک کے
غریب نوجوان کے ساتھ ناانصافی ہو جاتی ہے ۔اگر ہمارے ملک کے اندر ایسا ہو
تا رہا تو غریب کو ایک دن اس ملک سے نکال دیا جائے گا۔یہ کہہ کر کہ اس کے
پاس کچھ ہے ہی نہیں جو اس ملک میں رہ سکے ۔
جس کے پاس دولت ہے وہی خدا بنا بیٹھا ہے اور جس کے پاس دولت نہیں ہے اس کی
کوئی قدرقیمت نہیں ۔ایک غریب کو اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے ان
خداؤں کے لئے کیا کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ان زمینی خداؤں کے لئے چور،ڈاکوبننا
پڑتا ہے ۔تاکہ اس کو اپنے بچوں کے لئے کھانا مل سکے ۔مگر ہم چپ ہیں اور ہم
سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ کر نہیں سکتے ۔اس لئے کہ اگر ہم نے کچھ کہہ دیا تو
کہیں ہمارا کھاناپینا بند نہ ہوجائے ۔زمینی خداؤ اگر آپ کسی کو کچھ دے نہیں
سکتے تو کیوں غریبوں کے بچوں سے نوالہ چھینتے ہو۔کب تک ایسے کرتے رہوگے۔اور
آخر کب تک یہ ظلم ہو تا رہے گا۔
ہمارے ملک میں یہ حالات دن بدن کیوں بڑھ رہے ہیں ان کی وجہ یہی ہے کہ ہم
اپنے دین سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔ہمار ے ملک کے ہر انسان کے اندر حوس اب
صرف دولت کی رہ گئی ہے دن رات بس ایک ہی کام ہے دولت مل جائے ۔میں ا میر ہو
جاؤں ۔ خدارا ہم کس طرف جا رہے ہیں ۔اب کہاں سے آئیں خلیفہ رسول ؐحضرت ابو
بکر صدیقؓ جنھوں نے بھوک اور پیاس خود برداشت کی مگر اپنے لوگوں کو بھوکا
نہیں سونے دیا۔کہاں سے آئیں اب خلیفہ رسول ؐحضرت عمر فاروقؓ جو رات کو گشت
کیا کرتے ہو اپنے ہمسایہ اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کے حالات پتہ کرتے اور
اگر کسی کو کھانہ میسر نہ ہوتا تو اس کو کھانا ملتا۔پتہ نہیں ہمارے ملک میں
ایسے حکمران کب پیدا ہو ں گے جو یکساں وسائل کے لئے جدوجہد کریں گے ۔
یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے دین سے دور ہو جارہے ہیں اور ہمارے حالات دن بدن
خراب ہوتے جار ہے ہیں اگر ہم دین کے مطابق زندگی گزارتے تو آج حالات ایسے
نہ ہوتے ۔اسلام میں تو سب برابر ہیں نہ کوئی امیر ہے اور نہ کوئی غریب ہے ۔
ایک بھائی جو اپنے لئے پسند کرے وہ دوسرے بھائی کے لئے بھی پسند کرے ۔جو
خود کھائے وہ دوسرے کو بھی کھلائے ۔مگر کیسے ہم اب یہ سب کچھ بچا ہی نہیں ۔اگر
ہماری زندگیاں اسلام کے مطابق ہوتیں تو یہ سب ہمارے اندر ہوتا اور ہم ایک
دوسرے کا ساتھ دیتے اور احساس کرتے ۔اور کبھی بھی کسی کو بھوکاپیاسہ نہ
سونے دیتے ۔
اگر حالات اس طرح ہی رہے تو بے روزگاری ،مہنگائی اور غربت میں اضافے کو
روکنا ہمارے بس سے باہر ہو جائے گا اور ہم تنگ دستی ،بے روزگاری اور غربت
میں ڈوب جائیں گے ۔اورہمارے ملک کے حالات مزید خراب ہو جائیں گے ۔اگر حکومت
نے بے روزگاری ،مہنگائی اور غربت کو کنٹرول کرنے کے لئے غریبوں کے بارے میں
کوئی اچھی حکمت عملی تیار نہ کی تو حالات کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے
گا۔جب تک وسائل نچلی سطح تک منتقل نہیں کریں گے ہمارا ملک ترقی نہیں کر سکے
گا۔ |
|