حق اور باطل کی پہچان
(Muhammad Rafique Etesame, Ahmedpureast)
حق کی پہچان سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ
کی معرفت ہے کہ اللہ تعالیٰ واقعی موجود ہے او ر علماء کرام کے نزدیک ا س
پہچان کے دو طریقے ہیں یعنی آفاقی اور انفسی نشانیوں میں غور وفکر ۔
آفاقی نشانیوں سے مراد زمین و آسمان، سور ج چاند ستاروں سیاروں کی بناوٹ
اور انکی حرکات و سکنات اور انکے نظام میں غور و فکر کہ جب سے یہ کائنات
وجود میں آئی ہے اسکا نظام لگے بندھے اصولوں کے مطابق چل رہا ہے مثلاً سورج
اپنے وقت پر مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور وقت پر مغرب میں غروب ہوتا ہے، ایسا
کبھی نہیں ہوا کہ کبھی سورج مشرق کی بجائے مغرب یا شمال یا جنوب سے نکل آئے
یا کسی اور زاویے سے طلوع ہو جائے یا کبھی طلوع ہی نہ ہو، اسی طرح موسم
اپنے وقت پر آتے جاتے ہیں سردی گرمی بہار اور خزاں وغیرہم۔
اسی طرح اگر آسمان کی طرف نگاہ ڈالی جائے تو اس میں لاکھوں کروڑں کے لحاظ
سے ستارے، سیّارے اور کہکشائیں ہیں جو سب کے سب حرکت میں ہیں مگر ایسا کبھی
نہیں ہو ا کہ کوئی ستارہ یا سیّارہ دوسرے سے ٹکرا جائے، یا چاند اور سورج
باہم ٹکرا جائیں، یا کوئی ستارہ یا سیّارہ زمین سے ٹکرا جائے؟
مگر ایسا آج تک نہیں ہو ا او ر نہ ہی قیامت تک ہو سکتا ہے کیونکہ خلاّق ازل
نے انکی حر کت کا ایک دائرہ کار مقرر کر دیا ہے اور یہ اسی میں حرکت کرتے
ہیں۔
اسی طرح انفسی نشانیاں یعنی نفس انسانی میں موجود نشانیاں کہ انسان اپنی
پیدائش پر غور فکر کرے کہ میں کیسے وجود میںآیا پہلے کیا تھا بعد میں کیا
ہوگیا، پانی کے حقیر قطرہ سے میری پیدائش ہوئی پھر مختلف ادوار سے گذر کر
انسان بنا پھر ماں کے پیٹ سے باہر آیا جبکہ میں اس وقت ایک نا تواں بچہ تھا
، پھر کڑیل جوان بنا اور پھر بوڑھا ہو گیا اور کمزور ہو گیا بچپن کی طرح۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ اے لوگو اگر تم کو دھوکا ہے( مرنے کے بعد دوبارہ)
جی اٹھنے پر تو ہم نے تم کو بنایا مٹی سے پھر قطرہ سے پھر جمے ہوئے خون سے
پھر گوشت کی بوٹی نقشہ بنی ہوئی سے اور بغیر نقشہ بنی ہوئی سے ، اس واسطے
تم کو کھولکر سنادیں (مثالیں) اور پھر ٹہرا رکھتے ہیں ہم ماں کے پیٹ میں جو
کچھ چاہیں ایک وقت معیّن تک، پھر تم کو نکالتے ہیں بچہ پھر جب تک کہ پہنچو
جوانی کے زور کو اور پھر تم میں سے کسی کی روح قبض کر لی جاتی ہے ( یعنی
جوانی میں فوت ہو جاتا ہے) اور کوئی تم میں سے چلا جاتا ہے نکمّی عمر تک تا
کہ سمجھنے کے بعد کچھ نہ سمجھنے لگے‘‘(الحج:۵)
انسان کو بنانا اور پھر اسکو ان مختلف حا لتوں سے گذارنے والا کون ہے؟ وہی
خدا ہے۔ علماء کرام نے کائنات کے بڑے جہان کے مقابلے میں انسان کو ’’چھوٹے
جہان‘‘ سے تعبیر کیا ہے یعنی اسکی ہڈیوں کو پہاڑوں سے تشبیہ دی ہے، بالوں
کو نباتات سے، رگوں میں بہتے ہوئے خون کو نہروں اور دریاؤں سے، اور اسکی
آنکھوں کو چاند و سورج سے تشبیہ دی ہے وغیرہم۔
اور جب حق تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو جائے تو پھر یہ جاننا ضروری ہے کہ اسنے
جو ضابطہ حیات یعنی دین اسلام اپنے پیغمبروں کی معرفت اتاراہے وہ واقعی حق
اور سچ ہے اور فطرت انسانی کے عین مطابق ہے۔ یعنی فطرت انسانی زندگی بسر
کرنے کیلئے جن اصولوں اور طریقوں کا تقاضا کرتی ہے وہ سب اسلام میں موجود
ہیں۔آنحضرت ﷺ کے اسوۂ حسنہ میں انفرادی اور اجتماعی ہر شعبہ زندگی کیلئے
رہنمائی ملتی ہے اور یہ سب طریقے فطرت انسانی کے عین مطابق ہیں۔
اور باطل کی پہچان سے مراد بدی کی ان طاقتوں کی پہچان ہے جو انسان کو دین
اسلام کے فطری طریقوں پر عمل کرنے سے روکتی ہیں اور مزاحمت کرتی ہیں اور
اسکے مخالف طریقوں پر عمل کرنے پر اکساتی ہیں یعنی نفس امّارہ اور شیطان
ابلیس ، اور شیاطین الانس و الجن!
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کائنات کے نظام اور انسانی ساخت میں اگر غور و
فکر کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ خدا واقعی
موجود ہے مگر اکثر لوگ اسکے وجود سے انکار کرتے ہیں جنہیں دہریہ (Athiest)
کہا جاتا ہے اور کچھ وہ ہیں اللہ تعالیٰ کو صرف ایک سپریم پاور کی حیثیت سے
جانتے ہیں جو کائنات کو چلا رہی ہے، جبکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے اللہ
تعالیٰ پر ایمان لانا اس حیثیّت سے معتبر ہے کہ اسے وحدہ لا شریک مانا جائے
اور ساتھ ساتھ رسالت کا اقرار بھی کیا جائے یعنی یہ عقیدہ رکھا جائے کہ
سلسلہ انبیاء میں جتنے نبی تشریف لائے وہ سب انبیاء برحق تھے اور ساتھ ساتھ
نبی آخر الزمان حضرت محمد الرسول اللہ ﷺ کی رسالت کی بھی تصدیق کی جائے۔
سوال یہ ہے کہ حق اور باطل کی پہچان کیسے ہوتی ہے اور کیسے یہ پتہ چلتا ہے
کہ یہ چیز حق ہے یا باطل؟ تو اسکی پہچان عمل سے ہوتی ہے کہ جب کوئی شخص حق
پر چلنے کا ارادہ کرتاہے تو باطل یعنی نفس امّارہ اور شیطان ابلیس
فوراًمزاحمت شروع کردیتے ہیں اس سلسلے میں عقائد و اعمال کا مسئلہ قابل غور
ہے کوئی شخص نہ تو کسی نئے مذہب یا عقیدہ کو اتنی آسانی سے اختیار کرتا ہے
اور نہ ہی پہلے سے قائم اپنے کسی عقیدہ جلدی سے چھوڑتا ہے چاہے اسے لاکھ
دلائل دیئے جائیں۔مگر یہ ہے کہ جن کی قسمت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت
لکھی ہوتی ہے وہ سیدھی راہ پر آجاتے ہیں۔
آپ کسی ہندو، سکھ ، بدھ مت یا کسی اور مذھبی عقیدہ سے تعلق رکھنے والے کسی
شخص سے یہ کہیں کہ بھائی!آپ جس عقیدہ پر قائم ہیں اس کو چھوڑ کر اسلام قبول
کر لیں کہ یہ قدیمی اور انبیاء علیہ السّلام کا دین ہے اور اس میں دنیا و
آخرت کی کامیابی ہے؟ تو وہ جواب میں یہ ہر گز نہیں کہے گاکہ’’ٹھیک ہے جی !
یہ کونسی بڑی بات ہے میں آج سے بلکہ ابھی سے اپنے آبائی مذہب کو چھوڑ تاہوں
اور اسلام قبول کر لیتاہوں، ابتک تو میں مندر جایا کرتا تھا اور بھگوت گیتا
اور رامائن پڑھا کرتا تھا اور اب میں مسجد میں آجایا کرونگا اور قرآن پاک
کی تلاوت کیا کروں گا، یا پہلے میرا تعلق سکھ مت سے تھا اور میں اپنی مذہبی
کتاب ’’گرنتھ صاحب‘‘ پڑھا کرتا تھا، اب میں قرآن پڑھا کروں گا اور اسلامی
تعلیمات پر عمل کرونگا بھلا اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟
مگر ایسا نہیں ہوتا اور اس کے اندر سے فوراً مزاحمت شروع ہو جاتی ہے اور
شیطان اسکے دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ’’اسکی بات نہیں ماننا بلکہ تم جس
عقیدہ و مذہب پر قائم ہو وہی بہتر ہے ، اگر یہ غلط ہوتا تو تمہارے باپ دادا
اسے اختیار نہ کرتے‘‘۔
صدیوں سے ایساہی ہوتا آیا ہے کہ جب بھی کسی قوم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی
طرف سے کوئی نبی یا رسولﷺ بھیجا گیا اور اس نے لوگوں کو توحید و رسالت کی
دعوت دی تو اکثر لوگوں نے انھیں جھٹلایا، انکی تعلیمات سے انکار کیا اور
کہا کہ ہمارے لئے ہمارے باپ دادا کا دین کافی ہے جیسا کہ قرآن پاک میں
مذکور ہے’’ اسی طرح آپ سے پہلے بھی ہم نے جس بستی میں کوئی ڈرانے والا
بھیجا تو وہاں کے آسودہ حال لوگوں نے یہی جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا
کو( ایک راہ پر اور) ایک دین پرپایا او ر ہم تو انھیں کے نقش پا کی پیروی
کرنے والے ہیں( نبی نے کہا بھی کہ اگرچہ میں تمہارے پاس اس سے بہتر (مقصود
تک پہچانے والا) طریقہ لے کر آیا ہوں جس پر تم نے اپنے باپ دادوں کو پایا
تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اسکے منکر ہیں جسے دے کر تمہیں بھیجا گیا
ہے‘‘(القرآن)۔
جیسا کہ ابھی عر ض کیا گیا ہے حق روز روشن کی طرح واضح اور پوری آب و تاب
کے ساتھ موجود ہے مگر اکثر لوگ عقیدہ و عمل کے لحاظ سے اسکے وجود سے انکار
کرتے ہیں۔
ابھی عقیدہ کی مثال بیان کی گئی ہے اور عملی انکار کی مثال یہ ہے کہ شرعی
احکامات کو حق جانتے ہوئے بھی
ان پر عمل نہ کرنا یہ گویا حق کا عملی انکار ہے اور جب لوگ شرعی احکامات پر
پوری طرح عمل پیرا نہیں ہوتے تو انہیں حق کی پہچان پوری طرح نہیں ہو پاتی
اور وہ یہی کہتے ہیں کہ ’خدا کا نام سنا ہے مگر خدا نہیں ملتا‘۔
جب تک اللہ تعالیٰ کے احکامات پر پوری طرح عمل نہ کیا جائے اس وقت تک حقیقت
واضح نہیں ہوتی ذیل میں اسے چند مثالوں سے واضح کیا جاتا ہے:۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ نماز قائم کرو زکوۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے
ساتھ رکوع کرو‘‘۔ مگرمشاہدہ کی بات یہ ہے کہ آج کتنے مسلمان ہیں جو پانچ
وقت کہ پوری نمازیں ادا کرتے ہیں؟ کچھ لوگ صرف عید کی نماز ادا کرتے ہیں
اور کچھ لوگ جمعہ کے روز ہی مسجد جایا کرتے ہیں جبکہ کچھ مسلمان صرف فجر کی
ایک نماز پڑہنا ہی کافی سمجھتے ہیں۔
اسی طرح زکوۃ کی مثال ہے بہت سے ایسے مسلمان ہیں جو سرے سے زکوۃ ادا نہیں
کرتے اور جو کرتے ہیں وہ بھی نصاب کے مطابق پوری نہیں نکالتے اور یہ جاننے
کی کوشش نہیں کرتے کہ نصاب کسے کہتے ہیں اور ازروئے نصاب انکی زکوٰۃ کتنی
بنتی ہے؟ بس اندازے سے ہی ادا کردیتے ہیں۔ اگر تمام مسلمان پوری طرح زکوٰۃ
ادا کریں تو معاشرے میں کوئی شخص غریب نہ رہے آج جو زکوٰۃ ادا لینے والے
ہیں وہ کل کو خودادا کرنے والے بن جائیں۔
اسی طرح حق تعالیٰ کا حکم ہے کہ زنا کاری کے قریب بھی نہ جاؤ، نظروں کو
نیچا رکھو، رشوت نہ لو، ملاوٹ نہ کرو، کم نہ تولو، دھوکہ دہی نہ کرو، اور
قتل و غارت گری سے باز آجاؤ وغیرہم۔
مگر کسی ایسے معاشرے کی مثال نہیں دی جاسکتی جہاں زنا کاری یا قتل و غارت
گری نہ ہوتی ہو یا لوگ رشوت نہ لیتے ہوں یا کسی پر ظلم نہ کیا جاتا ہو اور
کسی کا حق نہ دبایا جاتا ہو؟ یہ سب کام ڈنکے کی چوٹ پر جاری ہیں جو اسکا
ثبوت ہیں کہ حق تعالیٰ کے احکامات کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور عملی طور پر
انکا انکار کیا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ تمام مسلمان پانچ وقت کی پوری نمازیں
ادا کرنے والے بن جائیں کہ جب بھی اذان کی آواز سنائی دے فوراً سب کام چھوڑ
کر مسجد میںآ جائیں، اور جس شخص پر زکوۃ واجب ہو، وہ پوری زکوۃ اد ا کرے
اورجب رمضان المبارک کا مہینہ آئے تو تمام مسلمان پورے روزے رکھیں اسی طرح
جس مسلمان پر بھی حج فرض ہو ، تو حج کا سیزن آنے پر وہ فوراً حج کو
چلاجائے؟ مگر ایسا کرنے والے بہت کم مسلمان ہیں اکثریت ایسے مسلمانوں کی ہے
جو ان احکامات کی ادائیگی میں سستی کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ وہ کونسی طاقت ہے جو ان فرائض کی ادیئگی میں رکاوٹ بنتی ہے
تو یہ وہی شیطان ابلیس اور انسان کے اندر موجود نفس امارہ ہے چنانچہ نفس
امّارہ کے بارہ میں قرآن میں ہے’’ میں اپنے نفس کو بری الذمہ قرار نہیں
دیتا بیشک نفس تو برائی کا بڑا حکم کرنے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم
کرے‘‘( پ:۱۳)
ور شیطان کے بارہ میں فرمایا’’ بیشک شیطان انسان کا کھلا ہو ا دشمن ہے ‘‘
(القرآن)
اور پھر قابل ذکر بات یہ ہے کہ لوگوں کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ شیطان
کے بہکاوے میں آکرسراسر نقصان میں جا رہے ہیں بلکہ وہ انھیں اچھے کام
سمجھتے ہیں چنانچہ فرمان الٰہی ہے’’آپ فرمادیجئے کہ اگر (تم کہو تو ) میں
تمہیں بتا دوں ہ با اعتبار اعمال سب سے زیادہ خسارے میں کون ہیں؟ وہ ہیں
جنکی دنیوی زندگی کی تمام کوششیں بیکار ہو گئیں اور وہ اسی گمان میں رہے کہ
وہ بہت امھے کام کر رہے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے پروردگار کی اور
اسی ملاقات سے کفر کیا اس لئے انکے اعمال غارت ہو گئے پس قیامت کے دن ہم
انکا کوئی وزن قائم نہ کریں گے‘‘(الکھف:۱۰۵)
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو حق بات کو سمجھنے اور اس پر
عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین! |
|