ذہن سازی کے عمل پہ مختصر تحریر

آج کے دور میں ذہن سازی کے مرحلے صرف بچوں کے لیئے ہی اہمیت نہیں رکھتے ، بلکہ آج کے بڑوں کو بھی ان لمحات سے گزرنا پڑتا ہے۔ بلکہ یہ کہ گزارا جارہا ہے۔ بچے تو ناتواں ہوتے ہیں، وہ کیسے کسی کے آگے ڈٹ کے کھڑے ہو سکتے ہیں، لیکن بڑوں کا ذہن بنانے کے بعد کوئی جیسے چاہے اُن کا رخ اپنے بظاہر نادیدہ مقاصد کو پانے کے لئے موڑ سکتا ہے۔ عرفِ عام میں ذہن سازی کے اس عمل کوہم "Brain Washing" کے نام سے جانتے ہیں۔ مگرطاقت کے باوجود آج کے بہت سے” بڑے “اس عمل میں چاہتے نہ چاہتے ہار کو اپنا مقدر سمجھ کر دشمن کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں۔

یہ کیسے عجیب حالات و واقعات کا تسلسل ہے کہ کچھ سالوں تک ہمارے گھروں کی مالکن، ہماری عورتوں کو ایک نہایت ہی منظم طریقےسے ٹیلی ویژن کے چھوٹے سے ڈبے کے ذریعے ایسے ڈرامے دکھائے جاتے ہیں جن کا موزوع صرف و صرف عورت ہوتی تھی (ہے) اور ان کے اشتہارات اخبارات میں بڑی شان و شوکت سے دیئے جاتے تھے (ہیں)۔ اور جب ایک خاص عرصہ تک جب ہماری عورتوں کا (مردوں سمیت) ایک خاص قسم کا ذہن بن گیا، جس میں عورت مرد سے بھی زیادہ طاقتور تصور کی جاتی تھی(ہے)، اور مرد کی حیثیت کو شک و شبہ میں ڈال دیا جاتا تھا (ہے)۔ تو ساتھ ہی ایک تحفظِ نسواں بل پارلیمنٹ سے پاس کرا دیا جاتا ہے، اور حیران کن طور پہ وہ طبقہ جو ذہن سازی کے عمل سے گزر چکا تھا، اپنے ہونٹوں کو ہاتھوں کی طرح پھیلائے اس بل کو اپنی باہوں میں لے لیتا ہے۔ یہ طبقہ آج کے جدید دور کے مرد و عورت دونوں پہ مشتمل ہے۔

مگر اس منظم طریقہ کار کو بالکل کلیتاً نظروں سے اوجھل کر دیا گیا کہ اسلام جیسی نعمت، اسلام جیسا نظامِ زندگی ہونے کی باوجود آخر ایسے کونسے محرکات ہیں جن کی وجہ سے ہمیں اس "بِل" کی ضرورت پڑی۔ سیاست میں ذوق و شوق نہ رکھنے کے باوجود، یہ بات سمجھ سے بالاتر بالکل بھی نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ اپنے آٹھ Millennium Development Goals پوری طرح سے پوری دنیا میں انتہائی منظم طریقے سے نافذ کروانا چاہتی ہے، جس میں وہ بہت کامیاب بھی ہے۔ اور یہ بات بھی سمجھ میں آنے والی ہے کہ یہ تحفظِ نسواں بل کا "عورتوں کے عالمی دن" کے آس پا س پارلیمنٹ سے پاس کروانا اقوامِ متحدہ کے اس پروگرام کی بہت بڑی کامیابی ہے۔

یہ ساری بحث تو اپنی جگہ، مگر ہمیں اس چیز کو سامنے رکھنا چاہیے، جس سے اس با ت کا آغاز کیا گیا، کہ ذہن سازی کا عمل ہمارے بچوں اور بڑوں دونوں کےلئے یکساں اہمیت کا حامل ہے ۔ اور بڑوں کی نسبت بچے اس ذہن سازی میں جو بھی سیکھتے ہیں یا سیکھ رہے ہیں، اُس کو اپنی ذات کا حصّہ بناتے جا رہے ہیں۔ اور یہ ذہن سازی کا عمل آج کے دور میں ٹھیک بچوں کے والدین اور بڑوں کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے ۔ بد بختی یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی کثیر تعداد، جس کو دین کی طرف "بسمِ اللہ"، "الحمد اللہ" "سبحان اللہ" جیسی رغبت حاصل ہے، وہ خود اس Brain Washing کے عمل سے اس حد تک گزر چکی ہے کہ اپنی آنے والی نسلوں میں Modernism کے نام پہ کیا چیز منتقل کی جا رہی ہے، اس کا احساس شاید ان کے پاس سے نہیں گزرا۔
یہ بلا عنوان مضمون لکھنے کا اصل مقصد بھی آنے والی نسلوں کی اوپر بیان کی گئی ذہن سازی سے متعلق تشویش کا اظہار کرنا ہے، کہ آج قرآن کی آیت “مرد عورتوں پر حاکم ومسلط ہیں اس لیے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں (مال و آبروکی) خبر داری کرتی ہے- سورۃالنساٰء “ کے برخلاف ایک "بِل" پارلیمنٹ سے پاس کرا لیا گیا، جسکو معلوم نہیں کہ کون کیسے ادا کرے گا، مگر یہی نا دیدہ طاقتیں اگر قرآن کی اس آیت “اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سواء کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی (کرتے رہو) ، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ ہی انہیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا - سورۃ بنی اسرائیل" کے خلاف منظم طریقے سے کوئی ایسا بل پیش کرکے لے آئیں، جس میں اپنے ہی بچے کی پرورش کرنے والے والدین کو اپنے ہی بچوں کی سرزنش کرنے پہ اپنے ہی بچوں کے ہاتھوں جیل کی ہوا کھانا پڑ جائے گی تو پھر کیا سماں ہو گا۔

بظاہر اگر عورت بھی مرد کے ساتھ ساتھ "مُلک" کو سنبھالنے کے لئے اپنے گھر سے نکل جائے گی تو پھر وہ کیسے اپنے بچوں کی پرورش کرے گی، اور جب وہ خود اپنا مال کما کے گھر چلائے گی تو اپنے مرد کی بات کو کیسے اہمیت دے گی۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ، خاص حالات کو نکال کر، عورت اپنے "ملک" اپنے گھر کو بچائے جہاں وہ ایک پوری سلطنت کی مالکن ہے۔ جہاں اس کی اولاد بھی اس کو ملکہ مانتی ہے۔ اس لئے اپنے بچوں کے اندر شہزادوں اور شہزادیوں جیسی اقدار ڈالنے کے لئے خود ملکہ کو اپنی سلطنت کی حفاظت کرنی پڑے گی۔ ورنہ ملکہ کی غیر موجودگی میں یقیناً نقب لگ سکتی ہے۔ اور پھر الزام بھی ہم اس کو ہی دیں گے جس نے نقب لگائی، حالانکہ قصور وار بادشاہ اور ملکہ کا مشترکہ غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔

آخر میں ہمیں اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ اگر کسی اونچے مضبوط اور توانا درخت کو گرانا اور اس کے گرنے کے بعد بھونچال سے بچنا مقصود ہو تو صرف اس درخت کی جڑوں کو زہر ملے پانی سے سیراب کر دیا جاتا ہے، وہ درخت آہستہ آہستہ اپنی تمام رونق کھو بیٹھتا ہے اور پھر اسی چیز کو وجہ بنا کے اس درخت کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ ہم ۔۔۔۔۔۔ بحیثیت مسلمان ۔۔۔۔۔۔ ایک مضبوط درخت تھے، جس کی جڑوں میں میٹھا زہر گھولا جا رہا ہے، اور اگر ہم سب نے ہوش نہ کیا ،اور کچھ کڑوی دوائیں نہ کھائیں، تو ہماری بے رونقی کو وجہ بنا کر ہمیں ہٹا دیا جائے گا۔ جس کا عمل شروع ہو چکا ہے۔

مگر یہ بات بھی ذہن میں رہے، اللہ اپنے دین کو غالب کر کے رہے گا۔ ہمارے خلاف جیسی مرضی چالیں چل لی جائیں، اللہ اپنے فیصلے کو مقررہ وقت پہ ظاہر کر کے ہی رہے گا۔ گزارش اتنی ہے، کہ ہمیں آج اپنے آنے والے کل، آنے والی نسلوں کے لئے ایسا پلیٹ فارم تیار کرنا ہے، جہاں سے وہ اللہ کی اس رحمت کی نظر پانے کے قابل بن سکیں جسکے بعد ان کو اپنے اور اپنے دین کے خلاف ہونے والی ہر شازش صاف نظر آ سکے اور وہ اس قابل بن سکیں کہ اس سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے صرف "اللہ اکبر" کا نعرہ ہی نہ لگائیں بلکہ اس نعرہ کی گہرائی کو سمجھتے ہوئے اپنے ہر قدم کو اس کو جانب موڑ دیں۔ قرآن کے اٹھانے والے ہی نہ بنیں بلکہ قرآن کی اصل وجہءِ نزول کو سمجھ کردوبارہ سے اسلامی نظام کے موسمِ بہار میں مسلمانوں کے درخت کو ایک بار پھر مضبوطی بخش سکیں تاکہ آنے والے موسموں میں اس پہ وہ پھل لگ سکے جس کو کھا کر پوری دینا اس درخت کی آبگیاری میں لگ جائے۔
وہ دن دور نہیں۔ انشااللہ۔

اللہ ہمیں اور ہمارے بڑوں کو مغرب اور اس کے ہاتھ میں جکڑے میڈیا کی منظم سازشی ذہن سازی سے بچائے۔ اور ہمیں دین کو سمجھنے، سیکھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
-------------------
قاری سے درخواست ہے کہ ازراہِ کرم، درستگی کی گنجائش سے آگاہ ضرور کیا جائے۔
Muhammad Abdullah
About the Author: Muhammad Abdullah Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.