کوٹھے والی(حکایت)
(Prof Niamat Ali Murtazai, )
مدت ہوئی بصرہ میں ایک سوداگر دور
دراز کا سفر کرتا ہوا آیا۔ وہ انتہائی امیر تھا۔وہ دنیا کے مختلف علاقوں
میں کاروبار کرتاٍ تھا۔ اس کے کئی ایک بحری جہاز بھی اپنے تھے۔ وہ کسی دور
کے علاقے سے سفر کرتا ، کرتا بصرہ پہنچا تھا۔ اس کا بصرہ میں قیام پروگرام
کے مطابق چند ہفتوں کا تھا۔ اسے بصرہ کا شہر دیکھنے کا شوق پیدا ہوا ۔ وہ
ایک شام اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ بصرہ کی سیر کو نکل پڑا۔ کہیں پیدل اور
کہیں سواری پر ، وہ بصرہ کے بازاروں اور گلی کوچوں سے پھرتا پھراتا آدھی
رات کو اپنی رہائش گاہ پر پہنچا۔ بصرہ کی سیر اس کی ہر شام کا معمول بن گیا
۔وہ کئی دنوں تک یونہی بصرہ کی گلیوں، بازاروں اور محلوں کی سیر سے لطف
اندوز ہوتا رہا۔
اس کی بد قسمتی کہ ایک شام ایک بازار سے گزرتے ہوئے ایک میٹھی ، نسوانی
آواز کا طلسم اس کے کانوں کے رستے اس کے دل میں اتر گیا ،اور اس کے ذہن کے
ہر گوشے میں سرایت کر گیا۔ اور وہ اس سمت دیکھنے لگا جدھر سے وہ مدھر آواز
اس کے کانوں میں رس گھول رہی تھی ۔اس کے ساتھیوں نے جب اس کی یہ حالت دیکھی
تو انہوں نے اسے اس چھت پر جانے کا رستہ بتایا بلکہ اسے ساتھ لے کر اس گانے
والی کے کوٹھے پر جا پہنچے۔ محفل جمی ہوئی تھی۔ ایک خوبرو حسینہ انتہائی
سحرناک نازو انداز کے ساتھ گانے اور رقص کرنے میں مصروف تھی ۔ شراب کے جام
اٹھائے کئی پرستار اس پر دولت کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی نچھاور کرنے میں ایک
دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔
پہلی ہی نظر میں،سوداگر اس کو ٹھے والی کو اپنا سب کچھ لٹا بیٹھا۔ وہ اسے
دل دے دینے والا پہلا شخص نہ تھا۔ دل موہ لینے کی اس کوٹھے والی کی نظر کو
بہت پرانی مہارت حاصل تھی۔ اس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ ایسی ناگن ہے کہ جو
اس سے ایک بار نظر ملا لے پھروہ دل اپنے قابو میں رکھنامحال پاتا ہے۔ اس
ناگن نے کتنوں کو گھائل کیا ہوا تھا۔ یہ سوداگر بھی اپنی وضع قطع ، مال و
دولت وغیرہ کے لحاظ سے کسی سے کم نہ تھا ۔ اس کا خیال بھی یہی تھا کہ وہ
حسینہ اس کے جال کی قیدی بن جائے گی۔ اس نے جلد ہی اس کوٹھے کے آداب و
لوازمات جان لئے ۔
روزانہ اس کوٹھے پر حاضری اس کا فرضِ عین بن چکی تھی۔اسے اس کے بغیر چین
نہیں آ تا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ حسینہ اپنے باقی سب پرستاروں کو چھوڑ کر
بس اسی کی دیوی بن جائے۔اور وہ اس کا اکیلا پوجاری بن کر دن رات اس کی پوجا
کرے، اس کی تنہائی کی بس وہی ہم نشیں بنے۔ اور اس مقصد کے لئے اسے جتنی بھی
دولت خرچ کرنی پڑے ، وہ کر دے گا ۔ اس کے پاس کون سی کمی ہے۔ اس کامال تو
کبھی ختم ہونے کا نہیں۔
حسینہ تو سوداگر سے اپنے باقی چاہنے والوں کے سے انداز میں پیش آ رہی تھی
لیکن سوداگر اس کے لئے اپنا سب کچھ فنا کر چکاتھا۔ وہ اس پر یوں مال و دولت
نچھاور کرنے لگا جیسے اس کا دنیا میں اس حسینہ کے سوا کوئی دوسرا نہ ہو۔
جبکہ جس علاقے سے وہ یہاں آیا تھا ، وہاں اس کی ایک خوبرو بیوی، دو بیٹیاں،
ایک بیٹا، بوڑھے ماں، باپ اور بہن، بھائی اور دوست احباب سبھی لوگ تھے ۔
لیکن جب کسی کشتی کے ڈونبے کا وقت آجائے اسے کون بچائے۔ہماری نظروں کے
سامنے ایسا ہوا ہے اور ہوتا ہے کہ ایک اچھا بھلا نو جوان ہیروئن کا عادی
بنتا ہے اور پھر کیا ! کچھ بھی نہیں بچ پاتا ! سب کچھ، سب کے سامنے ہیروئن
کی آگ میں راکھ ہو جاتا ہے۔ سب دیکھتے رہ جاتے ہیں اور وہ خوبرو نوجوان چند
ہی مہینوں میں موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔
یہ سوداگر اپنے گھر والوں اور ملک سے کوسوں دور تھا ۔ اور پھر اس زمانے میں
ذرائع ابلاغ بھی آج کی طرح تیز اور فوری نہ تھے۔
گھر والوں نے ایک لمبے عرصے تک انتظار اور امید کا سہارا لیا ۔ لیکن ایک
وقت آتا ہے کہ سب تسلیاں جھوٹی اور سب خدشات درست ثابت ہوتے ہیں۔ وہ بے
چارے رونے دھونے کے بعد دل پر پتھر رکھ کر صبر، شکر کا سہارا لے کر زندگی
گزارنے لگ پڑے۔ جو کچھ قسمت نے ان کے لئے بچایا تھا انہیں اسی پر اکتفا
کرنا پڑا۔ ان کی آس ، امید تو بہت زیادہ تھی کہ سوداگر جب واپس آئے گا تو
انہیں بہت خوشی بھی ہو گی اور وہ ان کے لئے بہت کچھ لائے گا بھی۔ لیکن
تقدیر کے آگے تدبیر کب چلتی ہے۔انہوں نے ، جوکچھ ان سے ہو سکتا تھا کیا، تا
کہ انہیں اپنے دل کے تنہا سہارے کی کوئی خبر ملے سکے۔ لیکن کسی طرح سے بھی
تسلی بخش جواب یا معلومات نہ مل سکیں۔ کسی نے جہاز کے ڈوبنے کی بات کی، کسی
نے راستے میں بحری قزاقوں کے ہاتھوں لٹ جانے اور ماردیئے جانے کا افسانہ
سنا یا ، کسی نے رستہ بھول جانے کا خدشہ ظاہر کیا ، کسی نے یہ امید دلا ئی
کہ ایک دن وہ ضرور واپس آئے گا۔الغرض جتنے منہ اس سے بھی زیادہ باتیں۔لیکن
سوداگر نے نہیں آنا تھا ، وہ نہ آیا۔
سوداگر کا اپنے کام کاج اور پیشے سے رغبت آہستہ آہستہ کم ہوتے ہوتے مکمل
طور پر ہی ماضی کا قصہ بن گئی۔ وہ اب دن، رات اسی حسینہ کے تصور، خیال اور
ملاپ میں گزار رہا تھا۔ اس نے اس سے اپنے وقت کا سوداطے کر لیا تھاکہ اس کے
پاس ہر روز جتنے گاہک آتے اور ان سے اسے جتنی رقم اکٹھی ہوتی، سوداگر نے وہ
ساری رقم اکیلے ہی ادا کرنے کا وعدہ کر لیا بلکہ کچھ رقم پیشگی ادابھی کر
دی۔یہ سودا ہوا کہ اب وہ صرف اور صرف اس سوداگر کو ہی وقت دے گی، کوئی اور
گاہک اس کے کوٹھے پر قدم رکھنے کی جسارت نہیں کرے گا۔
کسی چیز کے بیچنے والے کو کیا لگے کہ وہ چیز ایک گاہک خریدے یا چند یا بہت
سے مل کر خرید لیں۔جنس فروش کی تو بس جنس بکنی چاہیئے ۔ کوٹھے والی کی قیمت
ادا ہو چکی تھی اور وہ اس سوداگر کی آغوش کی زینت بنی بیٹھی تھی۔ وہ اسے
اپنے مکان میں ہی لے گیا۔دن رات بس وہ تھی اور وہ تھا۔ ابھی بھی کوٹھے والی
کے دل میں سوداگر ایک گاہک ہی تھا۔ جبکہ سوداگر کے لئے کوٹھے والی سب کچھ
بلکہ اس کی دنیا و ما فیہاتھی ۔ وہ اس کی محبت کا ایسا اسیر ہوا کہ اس کو
کسی چیز کی پرواہ نہ رہی۔ شاید عشق ہوتا ہی ایسا ہے ۔یا کہ اس کوٹھے والی
کے نازو ادا ایسے طلسماتی تھے کہ بس زمانہ بن مول کے غلام ہوا جاتا تھا۔
اور سب سے زیادہ تو یہ سوداگر صاحب اپنا سب کچھ اس کی چوکھٹ پر قربان کر
چکے تھے۔
عیاشی میں تو کنزِ قارون بھی کم پڑ جاتا ہے۔اسی لطف و عیش میں مہینوں اور
سالوں کے گزرنے کی خبر کسے ہوتی ہے۔ سوداگر بوڑھا ہونے لگا ۔ اس کی دولت کم
پڑنے لگی اور اس حسینہ کے نازو انداز میں تبدیلی آنے لگی۔ سوداگر کی صحت
بھی آہستہ آہستہ جواب دینے لگی۔ اس کی دولت بھی پہلے جیسی فراوانی کھو چکی
تھی۔ وہ اب کفایت شعاری کی طرفٖ مائل تھا۔ کمزوری اس پر طاقت اختیار کرتی
چلی جا رہی تھی۔
حسینہ کو اپنے کوٹھے کی یاد پھر سے ستانے لگی ۔ آخر ایک دن موقع پا کر وہ
اپنے کوٹھے پر پھر سے رونق افراز ہو گئی۔ اس کی واپسی کی خبر جنگل میں آگ
کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی۔ اس کا کوٹھاایک بارپھر سے آباد بلکہ پہلے سے
زیادہ با رونق ہو گیا ۔
ادھر سوداگر تھا کہ چلنے سے عاجز آ چکا تھا۔ اس کے لئے کوٹھے والی کی یہ بے
وفائی کسی صدمے سے کم نہ تھی۔لیکن ہر کسی کو اپنی اپنی مجبوری ہوتی ہے، سو
ایسی کئی مجبوریاں اس کوٹھے والی حسینہ کی بھی تھیں جنہیں اب وہ بوڑھا
سوداگر پورا نہیں کر سکتا تھا۔ اس لئے اس کا واپس کوٹھے پر آنا کوئی غیر
معمولی بات ،سوائے سوداگر کے، کسی اور کے لئے نہ تھی۔
سوداگر بڑی مشکل سے چلتا ہوا بلکہ اپنے پاؤں کو گھسیٹتا ہوا کوٹھے کی
سیڑھیوں کے دروازے پر پہنچا ۔ اوپر وہی مجرا ہو رہا تھا جو کہ کئی سال پہلے
ہوا کرتا تھا۔ لیکن آج وہ سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتا تھا۔ اس کا پیغا م بھی
اوپر پہنچانے والا کوئی نہ تھا۔ وہ کافی دیر انتظار کرنے اور اپنے آپ میں س
جلنے بھننے کے بعد واپس چلا آیا۔ اسے غم کھائے جا رہا تھا کہ جس ظالم حسینہ
پر اس نے اپنے سب رشتہ داروں اور مال ودولت کو نثار اسی نے آج اس سے بے
وفائی کی تھی ۔ وہ ان غلطیوں پر اپنے ہاتھ دانتوں سے چبا تا تھا جو بار بار
اس حسینہ پردولت نچھاور کرتے رہے تھے۔ لیکن آج یہ سب کچھ بے معنی بلکہ اذیت
ناک ہو چکا تھا۔ اب اس کے پاس اتنی رقم بھی نہ رہ گئی تھی کہ واپسی کا سفر
ہی کر سکے اور اب وہ واپس جائے بھی کس منہ سے۔ اتنے زیادہ سال ضائع ہو چکے
تھے۔ اسے اپنے کیئے کی سزا ملنی چاہیئے تھی۔
آخر ایک دن شہر میں اعلان ہوا کہ فلاں سوداگر جو کہ اتنے سال پہلے اس شہر
میں وارد ہوا تھا کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس کا جنازہ شام کی نماز کے بعد
اٹھایا جائے گا۔ یہ اعلان اس حسینہ نے بھی سنا۔ وہ اس وقت اپنے بناؤ سنگھار
میں مصروف آئینے میں اپنا جمال دیکھ رہی تھی۔ اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی
مسکراہٹ پھیل گئی اور پھر اس نے اپنی شکارن آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا :
اچھا ہوا بوڑھے کی جان چھوٹ گئیـ۔ اور پھر اپنی زلفوں کی کنڈل بنانے میں
مصروف ہو گئی۔
شام کو سوداگر کا جنازہ اٹھا یا گیا ۔ اتفاق سے وہ جنازہ اسی بازار سے
گزرنا تھا جس بازار میں اس کوٹھے والی کا مجرا ہوتا تھا۔ لوگ کلمہ شہادت کا
ورد کرتے اس جنازے کو کندھا دیتے ہوئے آ رہے تھے۔ اوپر سے گانے بجانے کی
مدھر آوزاور موسیقی اسی انداز میں سارے ماحول میں طلسم بکھیر رہی تھی جس
طرح اس شام کو بکھیرا تھا جس شام وہ سوداگر پہلی بار اس کوٹھے پر آیا تھا ۔
آج اس کا جنازہ جا رہا تھا لیکن کوٹھے والی کا طلسم آج بھی ویسے ہی لوگوں
کو اسیرِ نظر بنائے ہوئے تھا ۔ اس کے شیدائی اس کا گیت سن رہے تھے ا، اس کا
رقص دیکھ رہے تے اور اس کے ساتھ رات گزارنے کے سودے کر رہے تھے۔ سوداگر کا
جنازہ وہاں سے گزر چکا تھا اور اب اسے قبر کی تنہائی اور تاریکی کی نذر کیا
جا رہا تھا۔
بازار میں روشنیاں ابھی باقی تھیں ، کوٹھے سے رقص و سرور کی دل ربا سریلی
آواز اور میٹھی دھنیں نوجوانوں کے دلوں کو گرما رہی تھیں۔ ان کے دل بے قرار
تھے کہ ان کو حسینہ کے ساتھ رات گزارنے کا موقع میسر آجائے۔ جبکہ حسینہ ان
سے بھی ایسے ہی پیش آرہی تھی جیسے وہ اپنے پہلے گاہکوں سے آیا کرتی تھی۔
دراصل وہ سوداگر انسان ہے جو کہ اس دنیا میں اپنے رب کی عبادت اوراتباع کے
لئے آتا ہے، جو اس کی اصل تجارت ہے۔ لیکن وہ اس دنیا کی محبت میں ایسا
پھنستا ہے جیسا وہ سوداگر اس حسینہ کی محبت کا گرفتار ہوا۔ انسان اس کی
محبت میں اپنی آخرت بھلا دیتا ہے۔ اس کے ماں ، باپ اس کی دانائی، مذہب کی
تعلیمات اور اخلاق ہیں جن کو وہ دنیا طلب کرنے میں بھلا دیا تا ہے۔ اس کی
اولاد وہ نئی نسل ہے جس کو اس نے نیکی کا رستہ دکھانا اور پالنا ہوتا ہے،
لیکن وہ خود ہی گناہوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے ۔دنیا وہ حسینہ ہے
جو ہر کسی کو اپنے طلسم میں پھنسا لیتی ہے جو اس کی طرف دیکھتا ہے ۔ جو اس
سے نظر نہ ملائے اسی کی بچت ہو تی ورنہ اس کا سحر بہت مضبوط اور طاقتور ہے۔
دنیا کی ہوس سے نکلنا اتنا آسان نہیں جتنا کہ سمجھا یا سمجھایا جاتا ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ دوسروں کو نصیحت کرنے والے خود دوسروں سے زیادہ پستی
کا شکار ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ بات بھی دانش مندی ہے کہ نصیحت کم کی جائے ا
ور عمل زیادہ کیا جائے۔
( امید ہے کہ قارئین کرام کو ہماری یہ کاوش پسند آئے گی اور وہ اپنے گراں
قدر رائے سے ضرور نوازیں گے۔ سب قارئین کا شکریہ۔)
|
|