یو ایم ٹی پریس فورم کے زیرِاہتمام،لاہوری ناشتہ اور ادبی بیٹھک

انتظار حسین کی یادیں اور باتیں!

ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے کہا تھا کہ ہم اردو ادب میں صرف تین حسین کو مانتے ہیں۔ عبداﷲ حسین، انتظار حسین اور مستنصر حسین۔ان تین میں سے دو اردو ادب کے نامور ادیب تو اس دنیا سے کوچ کر گئے ۔عبداﷲ حسین اور انتظار حسین تیسرے سلامت ہیں، اﷲ ان کی عمر دراز کرے ۔انتظار حسین کی قلمی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے چند دن قبل یو ایم ٹی پریس فورم کے زیرِاہتمام ’’لاہوری ناشتہ اور ادبی بیٹھک‘‘میں ایک خوبصورت تقریب بعنوان ’’انتظار حسین کی یادیں اور باتیں ‘‘کا انعقاد کیا گیا۔

اس تقریب کے احوال سے قبل انتظار حسین صاحب کانام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے پھر بھی ان کا مختصر تعارف کچھ اس طرح سے ہے۔

اردو ادب کے نامور ادیب انتظار حسین7 دسمبر، 1923ء کو میرٹھ ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے ۔والدین کو چار بیٹیوں کے بعد کسی بیٹے کا انتظار تھا، لہذان کا نام انتظار حسین رکھ دیا گیا ۔ایم اے کی تکمیل کے دوران ہجرت سے قبل اپنی پہلی کتاب مکمل کرلی تھی، اس کتاب کا موضوع لسانیات تھا۔ایم اے کرنے کے ایک برس بعد پاکستان بن گیا۔انتظار حسین لاہور آئے ۔وہ ابتدا ء میں شاعر بننا چاہتے تھے ۔نظمیں لکھیں ۔پھر شاعری چھوڑ افسانہ نگاری کی طرف آئے ۔افسانہ نگاری ،کہانی نویسی کی طرف آنے کی وجہ ان کا وسیع مطالعہ بنا تھا ۔عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا۔ان کا ذریعہ معاش پوری زندگی صحافت رہا ۔جب تک زندگی نے وفا کی ان کے کالم روزنامہ ایکسپریس میں ’’زندگی نامہ‘‘کے عنوان سے تادم مرگ کالم لکھتے رہے۔

اس کے علاوہ انگریزی اخبار ڈیلی ڈان میں ہفتہ وار ایک کالم باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔ان کا شمار اردو ادب کے بہترین افسانہ نگاروں اور کہانی نویسوں میں ہوتا تھا۔وہ اپنے الگ اسلوب کے سبب سب سے منفرد نظر آتے تھے ۔انہوں نے 130سے زائد کہانیاں ۔چار بڑے ناول ۔ بہت سے ڈرامے اور تراجم کے علاوہ بے شمار کالم لکھے۔وہ ملک کے مایہ ناز ،معروف و مشہور کالم نویس، ناول نگار، افسانہ نگار اور تنقید نگار تھے ۔ انہیں بجا طور پر جدید اردوافسانہ نگاری کا بانی سمجھا جاتا ہے ۔ان کے درج ذیل ناولز ،کہانیوں ،کو عالمی شہرت ملی۔آگے سمندر ہے ۔بستی۔چاند گہن۔دن ۔ (ناولٹ)۔آخری آدمی۔خالی پنجرہ۔خیمے سے دور۔شہر افسوس۔کچھوے ۔کنکرے ۔گلی کوچے ۔چراغوں کا دھواں۔دلی تھا جس کا نام۔جل گرجے (داستان)نظرئیے سے آگے (تنقید)۔وغیرہ لیکن ان کی دو کہانیوں بستی اور آخری آدمی کو جو پذیرائی نصیب ہوئی، اس کی مثال دینا مشکل ہے، انہیں نہ صرف انتظار حسین کے بلکہ اْردو کے بھی شاہکار افسانے مانا جاتاہے ۔

انہوں نے ایک ادبی رسالہ ’’خیال ‘‘بھی شروع کیا مگر اس کے چند شمارے ہی آسکے ۔انہیں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز اور اکادمی ادبیات نے پاکستان کے سب سے بڑ ے ادبی اعزاز کمال فن ایوارڈ سے نوازا ۔وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں 2013ء میں بین الاقوامی بکرز پرائز ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا۔ حکومت فرانس نے ان کو ستمبر 2014ء میں آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز عطا کیا تھا،پاکستانی دنیائے ادب کے ہمارے دور کے آخری بڑے آدمی انتظار حسین 2 فروری 2016 ء کو 92سال کی عمر میں مختصر علالت کے بعد خالق حقیقی سے جاملے ۔

یو ایم ٹی (یونیورسٹی آف مینجمینٹ اینڈ ٹیکنالوجی) میں اِس خوبصورت تقریب میں شرکت میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں تھی ۔یو ایم ٹی پریس فورم کے زیرِاہتمام ’’لاہوری ناشتہ اور ادبی بیٹھک‘‘ جو بقول بھائی سید بدر سعید ایک فیسٹیول بنتا جا رہا ہے ۔ اس تقریب میں ادب و صحافت کی بڑی شخصیات کثیر تعداد میں شریک ہوئیں ۔دوسرے شہروں سے آنے والوں ادباء اورشرکاء کی بھی کثیر تعداد شامل تھی۔ یہ لاہور میں ہونے والا اپنی نوعیت کا واحد منفرد پروگرام ہے جو چھٹی کے روز صبح ناشتہ کی میز سے شروع ہوتا ہے ۔ یہاں پہلے ناشتہ ہوتا ہے اور پھر پروگرام شروع کیا جاتا ہے۔ سینکڑوں خواتین و حضرات ادباء ، صحافی، دانشور ،شاعر ،کالم نگار اور اینکر پرسن یہاں ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی موجود تھے۔

انتظار حسین کو خراج تحسین پیش کرنے والوں میں معروف ادیب اورڈرامہ نگار اصغر ندیم سید، ڈاکٹر عمرانہ مشتاق، مرزا محمد الیاس ، محترمہ نیلو فر ،نذیر قیصر ،مسعود عاشر ،قمر عباس اعوان ،ڈاکٹر قاسم بگھیو ، آصف فاروقی ،عاصم بٹ ، حسن پرویز مراد، فراصت بخاری سمیت بہت ساری نامورشخصیات جلوہ افروز تھیں ۔ نظامت کے فرائض آمنہ مفتی صاحبہ نے بہت ہی خوبصورتی سے سرانجام دئیے ۔تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا ،یہ سعادت شعیب مرزاصاحب کے حصے میں آئی ۔حمد ونعت پیش کی طاہر پرویز مہدی صاحب نے ۔
اظہار خیال کا سلسلہِ آغاز یو ایم ٹی پریس فورم کے نگراں مرزا محمد الیاس سے ہوا ۔انہوں نے یوایم ٹی کا تعارف اورمقاصد بتاتے ہوئے انتظار حسین سے اپنی محبت کا اظہارکیااور کہا ’’ہم اپنے دروازے اور کھڑکیوں کو بند رکھتے ہیں کہ کہیں سے کوئی تازہ ہوا نہ آئے ،لیکن انتظار حسین اپنی تحاریر میں اپنے ماضی کے سبھی در کھلے رکھتے تھے ‘‘

محترمہ نیلو فر اپنے خالو انتظار حسین کو یاد کرتے ہوئے خود بھی آبدیدہ ہوئیں اور سارے شرکا ء کو بھی رلایا ۔انہوں نے کھوئے ہوئے لہجے میں بتایا کہ’’ خالو انتظار حسین کی وفات نہ صرف اردو ادب کا بلکہ ہمارے خاندان کے لیے بھی بہت بڑا نقصان ہے ‘‘

ڈاکٹر عمرانہ مشتاق صاحبہ نے انتظار حسین کو خراج تحسین ایک خوبصورت نظم میں پیش کیا ۔
یہاں اس سا نہیں کوئی ادب کی دنیا میں وہ جدا تھا
مثال سبزہ ،مثال خوشبو،یہیں کہیں وہ تورہ رہا تھا
ادیب بھی وہ عظیم تھا اور آدمی بھی بہت بڑا تھا
یقین عمرانہ کیسے آئے، ابھی کل ہی تومجھے ملا تھا

مسعود آشر صاحب نے انتظار حسین کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے یہ باتیں بتائیں کہ ’’مرحوم پرندوں سے بہت پیار کرتے تھے ۔ان کی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز آئے جن کا ڈٹ کر انہوں نے مقابلہ کیا ۔انہوں نے جو لکھا ہے اسکی تعریف یہ ہے کہ ان کو پڑھا جائے اور محسوس کیا جائے ‘‘

اصغر ندیم سید صاحب نے انتظار حسین کے زندگی کے اہم پہلوؤں پر بہت موثر انداز میں روشنی ڈالی۔’’ تہذیبی مکالمہ انتظار حسین سے منسوب ہے ۔ان کی کہانیوں میں پاکستان کے معاشرے کی عکاسی ہے ‘‘

حسن جعفر زیدی صاحب نے اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا’’روزنامہ مشرق میں جب وہ لکھتے تھے تب سے ان کا فین تھا ‘‘ انہوں نے کہا کہ انتظار حسین پاکستان کے لئے بہت لکھا،خاص کر اردو ادب کے لئے ،ہر کہانی ایک عام سے آدمی کی کہانی اپنے قلم سے خاص بنادیا۔

شعیب مرزا صاحب نے بچوں کے لیے انتظار حسین کے لکھے ادب پر روشنی ڈالی ۔شعیب مرزا نے اہل قلم سے التماس کی کہ وہ بھی بچوں کے لئے لکھیں۔ انہوں نے کہا کہ انتظار حسین ادب کا بہت بڑانام مگر پھر بھی بچوں کے لئے خوب لکھا اور ماہنامہ پھول کے زیر اہتمام ہونے والی بچوں کی بہت سی تقریبات میں شرکت بھی کی ۔
نذیر قیصر صاحب نے بتایا کہ ان کا انتظار حسین سے رشتہ دوستی 60 کی دہائی سے تھا ۔میں نے ان کا ایک ایسا انٹرویو ریکارڈ کیا تھا جو ان کی پوری زندگی کا حاصل تھا ۔وہ ماضی میں زندہ رہنے والے آدمی تھے ۔کچھ ادیب ایسے ہوتے ہیں زندہ لفظوں کو چھوتے ہیں اور مردہ کر دیتے ہیں کچھ ادیب مردہ لفظوں کو زندہ کر دیتے ہیں، انتظار حسین ایسے ہی تھے کہ اپنی کہانیوں میں پرانے زمانے کو زندہ کر کے امر کر دیتے تھے ‘‘

الطاف حسن قریشی صاحب نے خوبصورت بات کہی کہ انتظار حسین کا نام ،کردار زندہ ہے آج بھی اور کل بھی رہے گا انشا اﷲ ۔

اس خوبصورت تقریب میں سید بدر سعید (سب ایڈیٹر فیملی نوائے وقت گروپ ) حسیب اعجاز عاشر(ادیب ، شاعر ، ویب ایڈیٹر ) شعیب مرزا (ایڈیٹر ماہنامہ پھول )حافظ مظفر محسن( ڈائریکٹر سوشل سکیورٹی ، کالم نگار ) وسیم عباس( شاعر ) شہزاد اسلم راجہ (کالم نگار ) احمد سہیل نصراﷲ ( منتظم پروگرام ) اسدنقوی ( کالم نگار )غلام غوث چودھری،رائے مصطفی کھرل اور حاجی قیصر علی جیسے ادب دوست افراد سے میری ملاقات ہوئی ۔جو میرے لیے ایک اثاثہ سے کم نہیں ہے ۔
Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
About the Author: Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal Read More Articles by Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal: 496 Articles with 578654 views Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
Press Reporter at Columnist at Kassowal
Attended Government High School Kassowal
Lives in Kassowal, Punja
.. View More