اسلام اور خانقاہی نظام (گزشتہ سے منسلک قسط نمبر3)
(عمران شہزاد تارڑ, mandi bahauddin)
.اگر کوئی شخص مزاروں'خانقاہوں کا سفر کرتا ہے تو وہ ہمارے بیان کردہ واقعات کے ایک ایک حرف کو سچ پائے گا۔ |
|
قارئین کرام ! میں اس خانقاہی دین کے چشم
دید حالات و واقعات آپکی نذر کر رہا ہوں-؟بیشتر احباب کے اصرار پر آج پھر
میں” منگا پیر“کے دربار پہ ہوں-میں کراچی شہر سے باہر بلوچستان کو جانے
والے اس راستے پہ کھڑا ہوں کہ جہاں سے محمد بن قاسم رحمہ اللہ کی عرب فوج
گزری تھی-ہاں تو یہی ہے وہ رمضان کا مہینہ-مگر اب اس رمضان کے مہینے میں
مکران کا علاقہ جو کہ باب الاسلام ہونے میں سندھ سے بھی سبقت رکھتا ہے‘اس
کے ڈویژنل صدر مقام پر ”تربت“ شہر کے دامن میں-میں نے وہ جگہ دیکھی کہ جہاں
”ذکری فرقہ“ کوہ مراد ( پہاڑ) پر رمضان کے مہینے میں حج کرتا ہے-اس سے آگے
لسبیلہ کے علاقے میں میں نے ایک ایسا دربار بھی دیکھا ہے کہ جو” لامکان “کے
نام سے معروف ہے - صوفیوں نے کتاب وسنت کے عقیدہ کے برعکس اللہ کو لامکان
کہہ کر یہ بھی مشہور کیا کہ اللہ ہر جگہ خود موجود ہے‘حالانکہ قرآن میں صاف
طور پر اللہ نے فرمایا ہے: اَلرَّحمٰنُ عَلٰی العَرشِ استَوٰی ترجمہ :رحمن
عرش پر جلوہ افروز ہے -(طٰہٰ 20 :5) باقی وہ اپنی صفات کے اعتبار سے علیم
بھی ہے خبیر بھی ہے اور علام الغیوب بھی ہے جبکہ اللہ کو لامکان اور ہر جگہ
حاضر کہنا تو کتاب وسنت کے عقیدہ کے منافی ہے-مگر ان صوفیوں نے اپنا یہ غلط
نظریہ جو انہوں نے اللہ تعالی کے بارے میں اپنا رکھا ہے‘اسے ایک صاحب قبر
بزرگ پر بھی چسپاں کردیا ہے اور اسے لامکان اور 'نورانی نور ہے ہر بلا دور
ہے'کہہ کر اپنا رب بنا لیا ہے-(نعوذ باللہ من ذالک) لسبیلہ کے بعد دیبل کی
طرف آئیں کراچی کی طرف سفر اختیار کریں تو راستے میں منگا پیر کا دربار آئے
گا-منگا پیر کے بارے میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ یہ ایک ڈاکو تھا-اس نے
کراچی شہر سے دور اپنا ڈیرہ لگایا تھا اور پھر اس کے مرنے کے بعد اس کا
مزار بنا دیا گیا-اب شیدی قوم اس کی مرید ہے- بلوچستان سے بے شمار لوگ یہاں
آتے ہیں-واللہ اعلم.
مگر مچھوں کی دنیا:اس دربار میں جو خاص شئے دیکھنے والی ہے‘وہ یہاں تالاب
میں موجود مگر مچھ ہیں-مرید کہتے ہیں!یہ بابا پیر کی جوئیں ہیں اور اب یہ
بڑی ہوگئی ہیں-ان لوگوں نے اللہ کی مخلوق مگر مچھ کو بابا منگو کے نام
منسوب کردیا ہے-میلے کے موقع پر شیدی لوگ بکرے کی قربانی کرتے ہیں اور پھر
اس کا گوشت مگر مچھوں کے سردار مگر مچھ کے منہ میں ڈالتے ہیں-پھر اسے
پھولوں کے ہار پہناتے ہیں اور جب ان میں سے کوئی مگر مچھ مرجاتا ہے تو اسے
باقاعدہ غسل دیا جاتا ہے-خوشبوئیں لگائی جاتی ہیں اور غسل دے کر منگھو پیر
کی قبرکی چادر کا کفن پہنایا جاتا ہے ‘اور پھر تالاب کے خشک حصے میں اس کی
تدفین کردی جاتی ہے-
چٹا گانگ میں” کچھوا “ کی پرستش کے مناظر ہندو‘مسلمان اور بدھ مت ایک ہی
دربار پر!جس طرح پاکستان کی سب سے بڑی بندر گاہ کراچی شہر ہے‘اسی طرح بنگلا
دیش کا سب سے بڑا ساحلی شہر اور بندر گاہ چٹاگانگ شہر ہے-جب راقم بنگلہ دیش
کے دورے پر گیا تو اسی طرح چٹا گانگ میں احباب مجھے ایک درگاہ پر لے گئے-اس
درگاہ میں مدفون بزرگ کا نام”بابا یزید سبطامی ہے-یہ چٹاگانگ شہر کی ایک
بڑی درگاہ ہے-ہم جب اس میں داخل ہوے تو اس کے بڑے صحن میں لوگ قطار میں
بیٹھے تھے-میں نے سوچا کہ یہ سب وضو کرنے کے لئے یہاں بیٹھے ہیں مگر جب
قریب ہوا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بڑے بڑے کچھوے جن کو ہمارے ہاں بعض
لوگ ” پلیتر “بھی کہتے ہیں ‘وہ تالاب کے کنارے پر تیر رہے تھے اور لوگ
انہیں طرح طرح کے کھانے کھلا رہے تھے-
جاری ہے....
آپ ہمارا یہ سلسلہ واٹس اپ پر بھی پڑھ سکتے ہیں
یہ خصوصی ہماری ویب ڈات کم کیلئے ترتیب دیا گیا ہے
٠٠٩٦١٧٦٣٩٠٦٧٠ |
|