شرک کے اسباب کا سدباب

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

شرک کے اسباب کا سدباب

شرک اکبر کی مختلف اقسام کو نصبتا تفصیلی انداز میں سمجھنے کے بعد اور شرک اکبر کی چند اسباب کو سمجھ لینے کے بعد اب ہم ان اسباب کے سدباب یعنی ان اسباب کو کس طرح دور کیا جاۓ، اس عنصر پر بھی کچھ نظر دوڑا لیتے ہیں اور چند باتیں عرض کرتے ہیں جو ان شاء اللہ سودمند ہوں گی .تاکہ ہم اپنے معاشرے میں عام طور پر اور اپنے اھل و عیال میں خصوصا ان اسباب کا خاتمہ بھی کرسکیں

1. کتاب و سنت کی جانب فہم السلف صالحین کی روشنی میں رجوع کرنا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ترجمہ و مفہوم: میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، جن کے بعد تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے.1.کتاب اللہ،2.اور میری سنت،یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر لوٹا دۓ جائیں گے
(حاکم و بیہقی و دارقطنی صحیح الجامع: 2937)

اس روایت کی اسنادی حیثیت کے بارے میں معلوم نہیں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
افْتَرَقَتِ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى أَوْ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً وَتَفَرَّقَتِ النَّصَارَى عَلَى إِحْدَى أَوْ ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلاَثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ‏"‏

ترجمہ ومفہوم: یہودی اکتہر یا بہتر فرقوں میں تقسیم ہوۓ اور عیسائ بھی اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹے اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو گی
(سنن ابوداود،رقم الحدیث: 4596)

یہ روایت ترمذی میں رقم: 2640 اور ابن ماجہ، رقم: 3991 میں بھی ہے. امام ترمذی نے حسن صحیح کہا، امام حاکم نے شرط مسلم پر صحیح کہا، حافظ ذہبی نے موافقت کی، شیخ البانی نے حسن صحیح، حافظ زبیر نے صحیح کہا

دوسری روایت میں پچھلی قوموں کے بہتر اور اس قوم کا تہتر فرقوں میں بٹ جانے کا ذکر کرنے کے بعد، بہتر فرقوں کا جہنم میں جانے کا ذکر کیا گیا اور ایک جنت میں. اور اسکو کہا گیا: هي الجماعة
یعنی،
مفہوم:
یہی جماعۃ ہے
سنن ابی داؤد رقم: 4597، مسند آحمد جلد: 4 صفحہ: 102 و سندہ حسن)

اسی روایت کا اگلا جز:
زَادَ ابْنُ يَحْيَى وَعَمْرٌو فِي حَدِيثَيْهِمَا ‏"‏ وَإِنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ أُمَّتِي أَقْوَامٌ تَجَارَى بِهِمْ تِلْكَ الأَهْوَاءُ كَمَا يَتَجَارَى الْكَلْبُ لِصَاحِبِهِ ‏"‏ ‏.‏ وَقَالَ عَمْرٌو ‏"‏ الْكَلْبُ بِصَاحِبِهِ لاَ يَبْقَى مِنْهُ عِرْقٌ وَلاَ مَفْصِلٌ إِلاَّ دَخَلَهُ ‏"‏ ‏.‏

مفہوم: بلاشباہ میری امت میں سے کچھ قومیں نکلیں گی ان میں یہ اھواء (من پسند نظریات اور اعمال کو دین میں داخل کرنا) ایسے سرایت کر جائیں گی جیسے کہ باؤلے پن کی بیماری اپنے بیمار میں سرایت کر جاتی ہے. عمرو نے کہا: باؤلے پن کے بیمار کی کوئ رگ اور کوئ جوڑ باقی نہیں رہتا جس میں اس بیماری کا اثر نہ ہو.
(سنن ابی داؤد، رقم: 4597 وسندہ حسن)

اس روایت سے جو مسئلے سمجھ آۓ، وہ کچھ اسطرح ہیں:

ان روایت سے بہت اہم مسائل پتا چلتے ہیں. سب سے پہلے تو یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےبتایا کہ پچھلی قوموں میں فرقہ بنے اور اس قوم میں بھی بنیں گے اور اسمیں سب گمراہ ہوں گے مگر ایک کے جس کو الجماعۃ، اھل السنۃ والجماعۃ، فرقہ ناجیہ وغیرہ سے منسوب کیا گیا ہے، انکی صفت یہ ہے کہ وہ رسول اللہ کی سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء کی صحیح یا حسن سند سے ثابت سنتوں پر سختی سے عمل کرتے ہیں

اس روایت کا آخری جز قابل غور ہے. یعنی ایسے لوگوں کا ظاھر ہو جانا جن میں اھواء پرستی کا جراثیم آجاۓ گا کہ وہ اپنی خواہشات کے مطابق اپنا دین موڑ لیں گے اور یہ چیز انکے رگ رگ میں رچ بس جاۓ گا اور اسی لیے فرقے در فرقے بن جائیں گے

اس روایت میں تیسری اہم بات جو سمجھ آتی ہے وہ ہے کہ اپنے عقیدے اور منہج و فروع تمام کو قرآن والسنۃ اور صحیح وحسن روایات سے لینا ہے. اور یہ واضع عمل صرف اہل السنۃ والجماعت کا ہے اور اسی لیے وہ ہی حق پر ہوں گے کیوں کہ وہ اپنا عمل ایسا ہی رکھیں گے. ایک شخص اگر کہے کہ میں مسلکا حنفی دیوبندی ہوں اور طریقت میں نقشبندی ہوں یا کہے کہ میرا عقیدہ بریلوی اور طریقت میں سوفی ہوں یا کہے کہ میرا منہج اخوانی وقطبی ہے اور فروع میں شافعی ہوں یہ فہم صحیح نہیں ہے

اسی طرح کوئ کہے کہ میں عقیدے میں قرآنی ہوں اور منہجا اہل بیت کا پیروکار یا شیعی ہوں یا عقیدے میں عشری و ماتریدی اور فقہا حنفی ہوں. اسی طرح کوی کہے کہ میرا عقیدہ اہل حدیث کا ہے اور منہج یعنی وہ راستہ جس پر میں دین کو لے کر چلتا ہوں وہ جہادی ہے یا اس طرح کے بیسیوں فہم صحیح نہیں ہیں.

صحیح فہم یہ ہے کہ قرآن والسنۃ کو جمہور محدثین کی راۓ کے مطابق صحیح یا حسن روایات کی روشنی میں سمجھا جاۓ گا اور عمل کیا جاۓ. اور یہ دیکھا جاۓ کہ صحابہ و تابعین کا کیا فہم تھا اور وہ فہم صحیح و حسن روایات سے ثابت بھی ہو. اس عنصر کو عقیدہ، منہج اور فروعات، فقہ سب میں دیکھا جاۓ گا. جب اس پر عمل کیا جاۓ گا تو باطل خود بہ خود ختم ہوجاۓ گا اور فرقہ پرستی کا بھی خاتمہ ہو جاۓ گا،ان شاء اللہ

2. مختلف تعلیمی مرحلوں میں صحیح اسلامی عقیدہ کی تعلیم کا اہتمام کرنا:

یعنی سلف الصالحین سے صحیح اور حسن اسناد سے ثابت شدہ عقیدہ کا اہتمام کیا جاۓ اور نصاب یعنی سکول، کالجز اور یونیورسٹز لیول کے سیلیبس میں اس سے منسلک کلاسز اور پیریڈ و مضامین رکھے جائیں، اور ان مضامین کے پرچے لیے جائیں اور اسکے پرچوں اور مضامین کے امتحان کو باریک بینی سے لیا جاۓ.

3. نصاب میں خالص منہج کی کتب مقرر کر کے گمراہ فرقوں کی کتب سے اجتناب:

مثلا خوارج، رافضہ، صوفیہ جہمیہ، معتزلہ، اشاعرہ، اور کلابیہ ماتریدیہ، قدریہ، جبریہ اور دیگر تمام اہل بدعت. ہاں مگر صلاحیت رکھنے والے لوگ صرف اس غرض سے انکی کتابوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں تاکہ اس میں جو باطل ہے اسکا رد کیا جا سکے اور اس سے خبردار کیا جا سکے.

4. ایسے مصلحین داعیان کو کھڑا کیا جاۓ جو اہل حق کی کتب کی ترویج کریں، انکو لوگوں میں عام کریں اور صحیح عقیدہ و منہج کی تبلیغ اور اہل بدعت کا رد کر سکیں:

مثلا امام طہاوی کی عقیدہ طہاویہ، حافظ ابن تیمیہ کی عقیدہ واسطیہ، اسی طرح اصول الثلاثہ، القوائد الاربعۃ، کئ سلف سے مرتب کتاب التوحید، حافظ ابن کثیر کی تفسیر ابن کثیر، حافظ ابن حجر کی فتح الباری، امام نووی کی اربعین نووی، اسی طرح حدیث کی چھ کتابیں وغیرہ، اسی طرح امام نووی ہی کی ریاض الصالحین وغیرہ.

جب عام لوگوں میں ایسے داعیان پیدا ہو جاۓ گے کہ وہ ان کتابوں اور سلف کی اصل کتابوں سے محبت کریں گے تو یہ اصل دین اللہ کی توحید کو پھیلانے اور شرک کی پہچان اور اس سے برآءت کا سبب بن جاۓ گا، ان شاء اللہ. اور جب عام لوگ علم والے ہوں گے تو علماء پر دباؤ بڑھے گا اور زیادہ محققین پیدا ہوں گے اور اس سے معاشرے میں گمراہی اور ضلالت کا سدباب بھی ہو گا.

اللہ ہمیں قرآن والسنۃ پر صحیح و حسن اسناد سے ثابت شدہ روایات کی روشنی میں صحابہ کے منہج و فہم پر مجتمع فرماۓ، آمین.
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 449126 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.