18مارچ 2013ء کواس جہان فانی سے رخصت ہونے
والے 1965کی پاک بھارت جنگ کے ہیرو اورمحافظ پاکستان ایم ایم عالم کو ہم سے
بچھڑے تین سال بیت گئے ہیں۔ہندوستان کے صوبہ بہار کے شہر کلکتہ میں6 جولائی
1935ء کو پیدا ہونے والے ایم ایم عالم نے قائداعظم محمد علی جناح کے پیش
کردہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر تقسیم ہندوستان کے وقت اپنے خاندان کے
ہمراہ پاکستان میں ہجرت کرلی اور1952 میں پاکستان ایئر فورس کو جوائن کیا۔
کسی بھی ملک کی تاریخ میں کئی دن ایسے بھی ہوتے ہیں جن پر اس ملک کے عوام
نازاں ہوتے ہیں کہ ان کے بڑوں نے فلاں کارہائے نمایاں سر انجام دے کر ملک و
ملت کو ایک ایسا تمغہ دلوایا جن پر ان کی آنے والی نسلیں فخر کر سکیں ،ایسا
ہی6ستمبر 1965 کادن ہے جب قلیل نے کثیر پر سبقت پائی اور یہ سبقت صرف اس
وجہ سے ممکن ہوئی جب پوری قوم ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر اس دشمن کے سامنے
کھڑی ہو گئی جس کو اپنے اسلحے اور اپنی تعداد پر بڑا فخر تھا۔ستمبر 1965 کی
جنگ میں ہر کوئی وطن کی خاطر مرمٹنے کو تیار تھا ہر کسی کو یہ خواہش تھی کہ
کاش اس کو بھی اگلے محاذوں پر دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے کی اجازت مل جائے
اور جن خوش نصیبوں کو یہ اجازت ملی انھوں نے جنگی تاریخ میں کارہائے نمایاں
سر انجام دیے اور لا محدد ریکارڈز قائم کیے جنھیں آنے والی نسلیں معجزہ
تصور کرتی ہیں۔6 ستمبر 1965 کی صبح جب بھارت نے رات کی تاریکی میں پاکستان
پر حملہ کیا تو جہاں پاک فضائیہ کے دیگر شاہینوں نے اپنے ابتدائی جارحانہ
حملوں میں ہی بھارت کی فضائی طاقت کو ملیا میٹ کردیا، وہیں وطن عزیزکے
بہادر سپوت ایم ایم عالم نے 7 ستمبر کو پاکستان کی فضاؤں میں آنے والے یکے
بعد دیگرے پانچ بھارتی جہازوں کو ایک ہی جنگی معرکے میں راکھ کا ڈھیر بنا
کرنہ صرف دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا بلکہ ایک ایسا عالمی ریکارڈ
قائم کردیا جسے آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔ انہوں نے ایک منٹ میں پانچ اور
مجموعی طور پر 9بھارتی طیارے اپنی ذہانت اور صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے
تباہی سے ہمکنار کیے۔اسکے بعد بھارتی فضائیہ کو پاکستان کی طرف آنے کی جرات
نہ ہوئی۔
دشمن ملک بھارت نے 1965 کی ہاری ہوئی جنگ کے کئی ہیرو زکو اعلی حکومتی
عہدوں پر فائز کرکے ان کی حب الوطنی کااعتراف کیا۔ اس کے برعکس ایم ایم
عالم بھی ان بدقسمت ہیروز میں شامل تھے جنہیں پاکستان نے اعلی حکومتی عہدوں
پر فائز کرنے کی بجائے 1982 میں ائیر کموڈور کے عہدے سے جبراً ریٹائرڈ
کردیا ۔ 1971ء میں خواہش کے باوجود انہیں فلائی نہیں کرنے دیاگیا،ایم ایم
عالم حضرت خالد بن ولید سے بے حد متاثر تھے اور میدان جنگ میں آپ کی بہادری
کی داستانوں کو دور حاضر میں عملی جامہ پہنانے کے ہر لمحہ متمنی رہے۔جب
انہیں جبراً ریٹائر ڈکیا گیا توایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ کا اس توہین
آمیز ریٹائرمنٹ پر کیا تاثر ہے تو ایم ایم عالم نے دو لفظوں میں بات ختم
کرتے ہوئے کہا کہ اگر خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ ، میدان جنگ میں
معرکہ آرائی کے دوران مسلمان افواج کے سپہ سالار حضرت خالدبن ولید کو معطل
کرکے سپہ سالار سے سپاہی بنا سکتے ہیں تو میں کس باغ کی مولی ہوں اگر حضرت
خالد بن ولید نے حضرت عمر کے فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے بطور
سپاہی جنگ میں حصہ لیا تو مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔
وہ علامہ اقبال کے اسلامی اخوت کے فلسفہ سے بہت متاثرتھے،اسلامی جمعیت طلبہ
اور جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے دینی اور معاشرتی اجتماعات سے مخاطب ہوا
کرتے تھے ،ان کی باتوں میں اسلامی اخوت کاجذبہ اورعالمِ اسلام کے دفاع کا
جوش و خروش جھلکتا تھا۔ایم ایم عالم جیسے جانباز اورعظیم لوگ قوموں
کاسرمایہ افتخار اور اعزاز ہوتے ہیں۔
یہ بات بھی تاریخ کے سنہری اوراق میں لکھنے کے قابل ہے کہ جب وزیر اعظم
بنگلہ دیش کی حیثیت سے شیخ مجیب الرحمان نے ایم ایم عالم کو بنگلہ دیش آکر
کمانڈرانچیف کا عہدہ سنبھالنے کی پیش کش کی تو ایم ایم عالم نے دوٹوک الفاظ
میں انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں بنگلہ دیش فضائیہ کے کمانڈر انچیف کی بجائے
پاکستانی فوج کے ایک سپاہی کی حیثیت پر فخر کرتا ہوں اور پاکستان کے ساتھ
جینا مرنا پسند کروں گا۔‘‘اس آفر پر انتہائی رنجیدہ ہوئے اور دکھ اور افسوس
کے ساتھ کھوئے کھوئے لہجے میں کہنے لگے:’’ پتا نہیں!دشمن نے یہ کیسے سمجھ
لیا کہ میں عہدے کے لالچ یا پیسوں کی خاطر بک جاؤں گا، ان کو ہمت کیسے ہوئی
کہ وہ ایم ایم عالم کیحب الوطنی پہ شک کریں‘‘۔
ایم ایم عالم تو پاکستانی حکمرانوں ، بے حس سرکاری حکام اور مردہ سول
سوسائٹی کے پے درپے زخموں کی تاب نہ لاکر اور پھیپھڑوں کی طویل علالت کے
ہاتھوں لاچار ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوگئے کہ زندگی میں کراچی کے ہسپتال میں
کوئی ان کو پھولوں کاایک گلدستہ دینے بھی نہیں گیا۔
ایم ایم عالم کے دیرینہ دوست سکواڈرن لیڈر زاہد یعقوب عامر اپنی کتاب ’’
ائیر کموڈور ایم ایم عالم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ایم ایم عالم نے باپ کی وفات
کے بعد تمام عمر اپنے بہن بھائیوں کو ایک باپ کا پیار دیا، بڑا بن کر پالا،
پڑھایا، لکھایا۔ جب بھی شادی کی بات ہوتی تو کہتے کہ پہلے میری بہنوں کی
شادیاں ہو جائیں تب میں شادی کروں گا اور پھر اسی پر قائم رہے۔‘‘
ایم ایم عالم حقیقت میں اقبال کا وہ شاہین ہے اگر ہم نے اقبال کے شاہین کے
کارناموں اور بہادری کی داستانوں کو نصابی کتابوں میں محفوظ نہ کیا تو ڈر
ہے کہ ہم اپنا حقیقی ورثہ کھو بیٹھیں گے اور یہ ہماری سب سے بڑی بدقسمتی
ہوگی۔ قائداعظم محمدعلی جناح ، علامہ محمداقبال کے ساتھ ساتھ ایم ایم عالم
، ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، محافظ لاہور میجر شفقت بلوچ اور نشان حیدر حاصل
کرنے والے پاک فوج کے عظیم افسروں اور جوانوں کے کارہائے نمایاں بھی شامل
کیے جائیں تاکہ پاکستانی نوجوان نسل اپنے ہیروز کو پہچان کر ان جیسا عظیم
محب وطن بننے اور کارنامے انجام دینے کی کوشش کرے۔ |