سرسبز پہاڑی علاقوں میں سردیوں کی دن اپنی
اختتام کے قریب تھے۔ بارشوں کی کمی کی وجہ سے موسم وقت سے پہلے تبدیل ہوچکا
تھا۔ سورج نے آنکھ دکھا نا شروع کیا تھا۔ دھوپ میں بیٹھنا دشوار ہوچکا تھا۔
تاہم اب بھی راتوں کی سرد ہوائیں اپنی ٹھنڈک سے موسم سرماکے باقی ہونے کا
احساس دلا رہی تھیں۔ پھر اچانک موسم نے انگڑائی لی۔ سردیاں دوبارہ لوٹ
آئی۔ملک بھر میں بارشوں کا آغاز ہوگیا۔ کئی دن کے موسلا دھار بارشیں
عمارتوں اور سڑکوں کی تباہی کے علاوہ اپنے ساتھ کئی قیمتی جانیں لے گئی۔
ابھی بارش کو رکے ہوئے چند دن بھی نہ ہوئے تھے۔ موسم بڑا سہانا تھا۔ درختوں
پر نئے پتے اور پھول نکل آئے تھے۔ لہلہاتی کھیتیں دلکش نظاریں پیش کر رہے
تھیں۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔ ہر ایک اپنی دھن میں مست تھا۔ بچے سکولوں
کے سالانہ امتحانات میں مصروف تھے۔ نوجوان بدلتے ہوئے موسموں کی پلاننگ کر
رہے تھے۔ کسان اپنے گندم کی فصل کی تیاری کے انتظار میں تھے۔
یہ 16 مارچ کی رات تھی۔ معمول کے مطابق ٹھنڈی ہوائیں جسم میں سوئی جیسی
پیوست ہو رہی تھیں۔ چاند ابھی ابتدائی دنوں میں تھا۔ صبح ہونے کی قریب تھی۔
دھاتی علاقوں میں دور دور سے مرغ کی اذان سنائی دینے لگی۔ افق پر روشنی
پھیلنے لگی۔ مسجدوں سے بلاوا آنے لگا ’’آؤ نماز کی طرف‘‘،’’آؤ کامیابی کی
طرف‘‘،’’نماز نیند سے افضل ہے‘‘۔ اہل ایمان اٹھ چکے تھے۔ مرد وضو کر کے
مسجدوں کی طرف جارہے تھے۔ عورتیں نماز سے فارغ ہوکر ناشتہ بنانے میں مصروف
تھیں۔ نماز کے بعد ناشتہ کیا گیا اور سب اپنے اپنے کام کی تیاری میں مصروف
ہونے لگے ۔ بچے سکول کی تیاری میں لگے ہوئے تھے۔ ملازمین اپنے دفتروں میں
جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ کسانوں نے اپنے کھیتوں کی راہ لی ہوئی تھی۔
دکاندور اپنی دکانیں کھول چکے تھے۔اچانک بس کی ہارن کی آواز آگئی۔
درگئی سے پشاور کا فاصلہ تقریبا 90کلومیٹر بنتا ہے۔ تاہم جگہ جگہ سے
سواریاں بٹھاتے ہوئے بس یہ مسافت ڈھائی گھنٹوں میں طے کرتا تھا۔ پشاور
سیکرٹریٹ جانے والی بس درگئی میں تیار کھڑی تھی۔ پشاور جانے والے مسافر
بیٹھ چکے تھے۔ بس اپنے سفر پر روانہ ہوچکا تھا۔ ایسا سفر جس کے انجام سے
کوئی با خبر نہ تھا۔ گاڑی آگے بڑھتی گئی۔ مردان سے ہوتے ہوئے بس اپنی منزل
کی طرف رواں دواں تھی۔ کوئی خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ کوئی اپنے دفتری کام
کو ترتیب دے رہا تھا۔ کوئی واپسی پر کرنے والے شاپنگ کی فہرست بنا رہا تھا۔
بس پشاور کے حدود میں داخل ہوچکی تھی۔
صوبائی دار الحکومت میں سڑکوں پر ابھی اتنا زیادہ رش نہ تھا۔ زیادہ تر
سٹوڈنٹس اور گورنمنٹ سرونٹس کی کنوینس نظر آرہی تھی۔ بس صدر پہنچ چکی تھی۔
ابھی منزل چند منٹ کے فاصلے پر تھی۔ جونہی گاڑی پشاور کے معروف تاریخی
سنہری مسجد کے سامنے پہنچی تو اچانک ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ سناٹا چھا گیا۔
چند لمحوں بعد فضاء میں اہ و فغاں بلند ہونے لگی۔ کہیں پر کپڑوں کے چیتھڑے
تو کہیں گوشت کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔ کسی کا ہاتھ نہیں تو کسی کا پاؤں غائب
تھا۔ ہر طرف خون ہی خون پھیلا ہوا تھا۔ 17 قیمتی جانیں موقع پر ضائع ہوچکی
تھیں۔ لاشوں کو گاڑی سے نکالا جانے لگا۔ گوشت کے ٹکڑوں کو جمع کر کے جسموں
کو مکمل کیا جانے لگا۔ زخمیوں کو ہسپتال منقل کر دیا گیا۔ چند لمحے پہلے
اپنے دھن میں مست انسان اب ٹکڑوں میں بھٹے ہوئے جسم بن چکے تھے۔
چند دن پہلے چارسدہ کے علاقہ بڈہ بیر اور اس سے پہلے یونیورسٹی حملہ بھی اس
سلسلے کی کھڑی ہے ۔کوئی بتا سکتا ہے کہ ان کا کیا قصور تھا؟ ان کی مارنے کی
وجہ کیا تھی؟ کیا وہ پاکستانی نہیں تھے؟ کیا وہ مسلمان نہیں تھے؟ آخر بے
گناہ جانیں لینے کون سے مذہب میں جائز ہے؟ اسلام کو بد نام کرنے کا سازش کب
تک چلے گا؟ جو لوگ ایسی درندگی اور گھٹیا حر کت کرکے ایسے جرم عظیم کے
مرتکب ہوتے ہیں کیا وہ مسلمان تو درکنار، انسان کہلانے کے لائق ہیں؟
پختونوں کو ان کی دینی لگاؤ اور وطن دوستی کی سزاکب تک ملتی رہی گی؟
یہ وقت سیاست چمکانے کا نہیں اسلام کی دفاع اور وطن عزیز کی حفاظت کا ہے۔
مٹھی بھر شر پسندوں بیرونی اشارے پر عمل پھیرا ہوکر اپنی دنیا و آخرت برباد
کرکے دوسروں کی جانوں سے کھیلتے ہیں۔ ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ کے ٹکڑوں پر
پلنے والے داڑی، پگڑی اور مدرسہ کو بدنام کرنے کے لیے بد امنی پھیلا کر
اسلام کا لیبل چسپاں کر دیتے ہیں۔ خدا را اسلام اور وطن عزیز کے حفاظت کے
لئے اٹھ کھڑے ہو۔ پاک فوج، علماء کرام اور سیاست دان متحد ہوکر دہشت گردی
کا راستہ روکھنے اور امن قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ |