علاقہ ِگلیات ۔۔۔ مسائل کی آماجگاہ
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
ہمارا ملک پاکستان دنیا کے تمام مما لک میں
اپنی پہچان ایک الگ انداز میں اس طرح کرتا ہے کہ ساری دنیا اس کی طرف نظر
کیے ہوئے ہیں ۔۔۔کبھی کبھی تو میں سوچتا ہوں کہ انگریز نے پاکستان کے بارے
میں ہی یہ بولا ہو گا کہ یہ سونے کی چڑیا ہے ، کیونکہ اس ملک کو ہمارے رب
عزوجل نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد ﷺ کے صدقہ پاک سے زندگی کی تمام تر
نعمتوں سے نوازا ہوا ہے، اس ملک میں جدھر اور نعمتیں ہیں ان میں سے آج میں
ایک نعمت کا ذکر بڑے افسوس اور دکھ کے ساتھ کر نے لگا ہوں ۔ قدرت کے نظاروں
میں سے ہمارا علاقہ گلیات جس میں میلاچ، جھانسہ ، کالا باغ(ائیر بیس بھی
موجود ہے) بیرن گلی، نتھیا گلی، شانگلہ گلی، ڈھونگا گلی،چھانگا گلی، نگری
بالا، زیارت معصوم ، مشک پوری ، ٹھنڈیانی، میرا جانی کے علاوہ دیگر اور
علاقہ جات آتے ہیں جن سب کا نام لکھنا ایک لمبی فہرست مرتب کرنے کے برابر
ہے یہ سب علاقے اپنی مثال آپ ہیں اور یہ جنت کی نظیر ہیں مگر افسوس کہ ہم
نے قدرت کی عطا کردہ اس بے مثال جنت کو مسائل و مشکلات کی آماجگاہ اس قدر
بنا دیا ہیکہ جس میں مقامی افراد کی زندگی اجیرن بن کر رہ گئی ہے کہ میں تو
کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ یہ لوگ ان علاقہ جات میں رہتے کیسے ہیں۔۔۔؟؟؟ کیسے
ان لوگوں کی زندگی بسر ہو رہی ہے۔۔۔؟؟؟ کیسے یہ ان مسائل سے بھرے علاقے میں
زندگی بسر کر رہے ہیں۔۔۔؟؟؟ کیونکہ ۔۔۔نہ ادھر سہولیاتِ زندگی ہیں اور نہ
ہی زندگی سے متعلق کسی بھی قسم کی کوئی امید۔۔۔مجھے یہ سمجھ آتی کہ میں
کہاں سے ابتداء کروں اور کہاں پر اختتام کیونکہ اگر ایک دو سہولتیں نہ ہوں
تو زندگانی آسان ہو سکتی ہے مگر ادھر ماسوائے قدرتی حسن کے مقامی افراد کے
کچھ بھی سہولت یا آسائش ِ زندگی موجو د نہیں ہے۔ ان علاقہ جات کو آنے والی
سڑک جو کہ انتہائی خطرناک اور تنگ تو ہے ہی مگر آئے روز ہونے والی لائینڈ
سلائنڈنگ ان سڑکو ں کو مزید کمزور بنا رہی ہیں، یہ ہی نہیں برف باری کے
دنوں میں تو یہ سٹرکیں اکثر بند رہتی ہے، اور اگر کھل بھی جائیں سیاحت کے
لیے آنے والے لوگوں کی بند گاڑیاں مشکلات میں مزید اضافہ بنا دیتی ہیں۔ اس
سڑک کی بندش کی وجہ سے اکثر بیمار ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی اپنے خالق حقیقی
سے جاملتے ہیں۔اس کے بعد بجلی کا مسلۂ ہے جو کہ سردیوں میں تو برف کی وجہ
سے نہیں ہوتی اور گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے، پانی پینے کے لیے میسر
ہو تو نعمت سمجھا جائے مگر دیگر ضروریات کے لیے بھی پانی نہیں ملتا ہاں آپ
کو پانی ضرور ملے گامگر جہاں پر سیاسی رہنماؤ ں کے بنگلے بنے ہوئے ہیں اس
کے علاوہ پوری بستی میں آپ کو پانی کی مناسب منصوبہ بندی نظر نہیں آئی گئی۔
گیس کی بات کرنا تو مذاق کرنے کے برابر ہے، سردیوں کے دنوں میں ادھر خشک
لکڑی تک دستیاب نہیں ہو تی تو گیس کہاں سے کیونکر اور کیسے۔۔۔؟؟؟آپ اس بات
پر یقین کری گئے کہ اس علاقہ میں آپ کو پیٹرول پمپ نہیں ملیں گئے۔۔۔ گاڑی
میں سے ایندھن ختم ہو گیا تو بس آپ کو پھر ایبٹ آباد ہی آنا ہوگا تب آپ کو
پیٹرول وغیر ل ملے گا ، سیاحت کسی بھی علاقہ میں آئیں تو وہ اس علاقہ کی
خوش قسمتی تصور کی جاتی ہے اور ساتھ میں اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس
علاقہ میں کاروبار کے مواقع وافر مقدار میں میسر آئیں گئے مگر یہاں تو حساب
ہی الٹ ہو جاتا ہے جب سیاح اس علاقے کا رخ کرتے ہیں تو ان لوگوں کی
پریشانیوں میں زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے، اشیاء خورد و نوش کی قیمتیں 100% سے
بھی تجاوز کر جاتی ہیں بات یہ بھی ہو تو تب ہی مگر یہ سیاح افراد ان لوگوں
کی املاک کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں،اس علاقہ میں جو ان لوگوں کا ذریعہ معاش
ہے وہ زیادہ تر کاروبار وغیرہ ہے اور وہ بھی جو ادھر موجود دکانوں میں کرتے
ہیں اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ جی ادھر تو چیزیں بڑی مہنگی ہیں بڑی آمدن ہوتی
ہونگی ان لوگوں کی ۔۔۔مگر۔۔۔ایسا بھی ہو تو پھر ہی کیا۔۔۔ادھر دکانوں کے
مالکان جو کہ ادھر موجود بھی نہیں انھوں نے دکانیں سستے داموں میں لیز پر
لی تھیں اور اب ان سے زائد ہی نہیں بلکہ زائد سے بھی زائد کرایہ کی شکل میں
وہ وصول کر رہے ہیں۔ اب وہ لوگ چیزیں مہنگی نہ کریں گئے تو کیا کریں گئے۔۔۔؟؟؟
جتنے بھی ہوٹلز ہیں تقریباََ سب ہی باہر کے افراد ہیں مقامی لوگوں کے پاس
اتنے وسائل ہونا صرف خواب ہی ہیں۔۔۔اچھا ادھر ایک مزے کی بات کہ اس علاقہ
میں کبھی آپ زمینوں کے ریٹس کے بارے میں نہ پوچھ لینا ورنہ آپ خش کھا کر گر
جاؤ گئے اور پھر ہسپتال آپ کو کون لے کر آئے گا۔۔۔؟؟؟ہمارے اکابرین و بااثر
افراد کو چاہیے کہ وہ اس علاقے کو سیاحت کے لیے جدید سے جدید انداز میں
بنانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ ادھر کے مقامی افراد خاص کر ان علاقہ جات میں
جو گاؤں کے رہنے والے لوگ ہیں ان کے مسائل اور زندگی کی دیگر پریشانیوں کے
حل کے لیے اسباب پیدا کر کے اس علاقہ کو ترقی کی راہوں پر کامزن کرتے ہوئے
واقعی میں اس علاقے کی خوبصورتی کو چار چاند بھی لگائے جا سکتے ہیں بلکہ اس
طرح ملکی ہی نہیں بلکہ گیر ملکی سیاحوں کی آمد کو بھی یقینی بنایا جا سکتا
ہے جو کہ ہمارے لیے ایک بہترین سرمایہ کاری کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ |
|