انسانیت کی ضرورت

کسی بھی ملک کے استحکام و ترقی کے لئے داخلی نظام بنیادی حیثیت رکھتا ہے ،اگر اندرون میں انتشار اور بے چینی کا ماحول ہو تو باہری کوششیں بے کار ثابت ہوتی ہیں ۔اور پھر غیر ممالک داخلی نظام اور ماحول کو دیکھ کر ہی ملک میں سرمایا کاری کریں گے یا پھر اپنی سیاحت کے لئے اسے پسند کریں گے ۔اس لئے اندرونی نظام کے استحکام کیلئے ملک کی آبادی کو مطمین کرنا نہایت ضروری ہے ۔اگر ملک کا ایک طبقہ خواہ اس کی تعداد زیادہ نہ مطمئن نہیں ہے اور اپنے آپ کو دو نمبر کا شہری تصور کرتا ہو یا پھر اسے ہر وقت یہ خوف لاحق ہو کہ نہ جانے کب کیا اور کس الزامات کے تحت اسے پھنسا دیا جائے یا پھر اسے گرفتار کر لیا جائے یا پھر کب کس نام اور کس بہانے سے اس کی زندگی کو پل بھر میں بر باد کر دیا جائے تو یہ چیز پورے ملک کے لئے خطرنا ک ہی نہیں شرمناک اور بدنامی کا باعث ہے ۔اس کے علاوہ ملک کی ترقی ناممکن ہو جائے گی اور ملک میں بد آمنی پھیل جائے گی ۔ملک ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہوگا ۔مسئلہ صرف اس مختصر آبادی کا نہیں ہے ،مسئلہ پورے ملک کا ہے ،اور یہ ملک کے ہر شہری کا فرض بنتا ہے اور اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کی ترقی اور استحکام کے لئے سنجیدہ اور ٹھوں اقدام کرے ،ہر وہ قوم جو ملک کو کمزوری کی طرف لے جاتا ہو اور اس کے نظام کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہو روکنے کی ضرورت ہے ۔آج ملک میں ہر طرف جو بھی تخریبی اقدامات ہو رہے ہیں وہ عوام کی طرف سے ہی ہو رہے ہیں اور انتظامیہ اس پر لگام لگانے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے ۔کبھی کسی مندر سے اعلان کر دیا جاتا ہے اور عوام جانوروں کی طرح ٹوٹ پڑتی ہے اور پھر پورے ملک میں عدم رواداری کا ماحول گرما جاتا ہے تو کبھی کسی دلت کے گھر میں آگ لگادی جاتی ہے اور قبل اس کے انتظامیہ اس پر کارروائی کرے کسی مرکزی وزیر کا متنازی بیان جاری ہو جاتا ہے جو ماحول کو اور پراگندہ کرنے میں معاون ہوتا ہے ۔کبھی کسی یونیورسٹی میں طالب علم کے دو گروپس کی لڑائی کو انانیت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس پر سیاسی کارروائی کی جاتی ہے اور اس کا اسکالر شپ بند کر کے ہاسٹل سے نکال باہر کیا جاتا ہے ،جس کے نتیجے میں وہ صدمے سے دو چار ہو کر خودکشی کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور پھر شروع ہوتا ہے ملک میں احتجاج و مظاہرے کا دور جس کو روکنے کیلئے انتظامیہ اپنا زور لگاتی ہے لیکن یہ چنگاری کی طرح پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور پھر کسی یونیورسٹی کے داخلی پروگرام کو میڈیا کے ذریعے تشہیر کر کے دیش دروہی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور شر پسند عناصر فرضی ویڈیو کے سہارے پورے ملک کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کا کام کرتے ہیں ۔میڈیا ٹرائل کے بعد پولیس ٹرائل اور پھر شروع ہو تا ہے عدالتی ٹرائل ۔ان سب مراحل میں شر پسند عناصر اپنے مقصد کو پانے کے لئے کسی بھی حد سے گزرجانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن وہی انتظامیہ ان سب کو روکنے میں ناکام ثابت ہوتی ہے ۔جس کی وجہ سے ملک دنیا کی نگاہ میں بدنام ہو تا ہے ۔ہمارے ملک کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ جہاں مختلف قومیوں آباد ہیں،اور مختلف مذاہب کے ماننے والے سیکڑوں سال سے یہاں رہ رہے ہیں ،یہ سب اسی ملک کا حصہ ہیں ،ان کا استحکام حقیقت میں ملک کا استحکام ہے اور ان کا ٹوٹنا اور بکھرنا ملک کی سالمیت اور وقارکے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے، سب کو لے کر چلنا اور سب کو ان کے حقوق کے ساتھ عزت کی زندگی گزارنے کے اسباب فراہم کرنا ملک میں سب کی ذمہ داری ہے ،اور سب سے بڑھ کر یہ ذمہ داری اکثریت کی ہے ،اور اقتدار میں آنے والوں کی ہے ،اگر خدانخواستہ کسی کے اندر صرف اقتدار کی بھوک پیدا ہو گئی اور ملک کے مفادات کو اس نے اقتدار کے لئے داؤں پر لگا نا شروع کر دیا تو ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس کو حل کرنا ضروری ہے ۔یہ بات انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ سکون و اطمینان کے ساتھ رہنا چاہتا ہے ،کوئی بھی سلیم الفطرت انسان اس کو پسند نہیں کرتا کہ وہ اپنی زمین کھو دے اور اپنے کو نقصان پہنچائے ،لیکن اگر کوئی کسی کو نقصان پہنچاتا ہے تو یہ چیز ابال پیدا کرتی ہے اور اس سے ماحول خراب ہوتا ہے،ملک کی دستور کو اسی طرح بنایا گیا ہے کہ کوئی کسی دوسرے کے پرسنل لاء میں دخل نہ دے اور سماجی نظام زندگی میں بھی کوئی دوسرے کو نہ نقصان پہنچائے اور نہ تکلیف دے ،یہ کام حکومتوں کا ہے کہ وہ تحفظات فراہم کریں اور ملک کے شہری ہونے کے ناطے ہر شہری کو اس کا حق دیا جائے اورا س کے ساتھ کوئی ایسا برتاؤ نہ کیا جائے جس سے اس کو دوسرے نمبر کا شہری ہونے کا احساس ہو،اس طرح ہر شہری کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایک طرف انسان ہونے کے ناطے انسانیت کی قدریں اختیار کریں اور اپنے اندر انسانیت کی محبت کا جذبہ پیدا کریں ،ملک کا شہری ہونے کے ناطے ایک اچھا اور مفید شہری بننے کی کوشش کریں ،انسانیت کی بنیادوں پر جب یہ مشترک ماحول بنے گا جس میں کمزوروں کا ساتھ دیا جائے اور بیماروں کے ساتھ ہمدردی کی جائے ،غریبوں کا ساتھ دیاجائے تو دل کا سکون حاصل ہوگا ،جو بہت بڑی دولت ہے کہ یہ کام ہر طرح کی فرقہ واریت سے اوپر اٹھ کر کیا جائے ،نہ خاندان کا فرق اس میں رکاوت بنے ،نہ تہذیب اور نہ مذہب کا ،مگر یہ سب جب ہی ممکن ہے کہ سب ساتھ دیں اور اقتدار میں رہنے والوں کو بھی اس کا احساس ہو اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے فرقہ واریت کو بڑھا وا ملتا ہو اور ملک کو نقصان پہنچتا ہو ،جب انسانیت کی اس فضا میں ہر شہری سانس لے گا تو ملک کی ترقی کے راستے کھلتے جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ یہ نمونہ دنیا کے کام آئے ۔
 
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 102320 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.