سارہ بہت غصہ میں تھی آج پھر مراد اس پر
چیخا تھا وہ غصہ میں ایسے ہی چیخا کرتا تھا ویسے تو وہ چپ ہو جایا کرتی تھی
اور مراد کا غصہ کچھ دیر میں ٹھنڈا ہوجاتا تھا اور وہ بھی ٹھنڈا پانی لاکر
اسے دے دیتی تھی اور مراد بھی اس سے معافی نہ بھی مانگتا تو اپنا رویہ ایسا
کرلیتا کہ جیسے اپنی غلطی پر شرمندہ ہے ۔۔۔ اور پھر معاملات زندگی نارمل
ہواجاتے ۔۔
مگر آج آج ایسا کیا ہوا تھا کہ وہ مراد سے زیادہ چیخ رہی تھی ۔۔۔
کیوں نہ چیختی کہ اس نے کتنے دنوں سے یہ سن رہی تھی کہ اب کوئی مرد عورت کو
کچھ نہیں کہہ سکتا اور اب تو عورت بہت محفوظ ہوگئی اسے عزت ملے گی اسے اب
اسکا مقام ملے گا ۔۔۔
اسے بھی تو اپنا مقام چاہیے تھا ۔۔۔
بس یہی سوچیں تھیں کہ اس نے بھی مراد کے سامنے بولنا شروع کردیا تھا اور
جھگڑا اتنا بڑھا کہ اس نے غصہ میں پولیس کو فون کیا کہ اس کے شوہر اس پر
چیخا ہے اور اس نے اس سے غلط زبان استعمال کی بس کیا تھا اتنے بڑے بنگلے
میں جب پولیس پہنچی اور مراد صاحب کو دو دن کیلیے تھانے لیجایا گیا ۔۔۔ جب
پولیس مراد صاحب کو لے جارہی تھی تب ہی ایک دم اسے خیال آیا کہ وہ تو اکیلی
رات کو رہ ہی نہیں سکتی اور مراد بھی کبھی اسے اکیلا نہیں چھوڑتے کہیں
دوسرے شہر بھی جانا ہو تو اسے ساتھ اسی لے لے کر جاتے کہ وہ رات اکیلی رہنے
سے ڈرتی مگر اب وہ دو راتیں اکیلی کیسے رہے گی ایک دم ہی اسکا دل ڈوبنے لگا
تھا مگر اب تو تیر کمان سے نکل چکا تھا جاتے جاتے مرادنے جن نظروں سے اسے
دیکھا تھا ان میں یہی سوال تھا کہ رات کیسے گزاروگی اکیلے اب بھی اسے اسی
کی فکر تھی اس نے ایک دم نظریں چرالیں مگر مراد اسکی آنکھوں کی نمی دیکھ
چکا تھا کچھ ہی دیر میں وہ اکیلی تھی اتنا بڑا بنگلہ اس نے پوری رات روتے
ور اپنی غلطی پر پچھتاتے گزاری ابھی تو اگلادن اور اگلی رات بھی مگر اس نے
سوچ لیا تھا آئندہ وہ ایسا کچھ نہیں کرے گی اور مراد کو بھی منالے گی ور
اپنی غلطی کا ازلہ کرلے گی ۔۔۔
بڑی مشکل سے یہ دو راتیں گزریں ۔۔۔ اب مراد نے آنا تھا اس نے مراد کی پسند
کا کھانا بنایا خوداس نے بھی دو دن سے کچھ نہیں کھایا تھا۔۔ ایک دم بیل
ہوئی دروازے پر دوڑ کر گئی و ہ مراد تو نہیں لگ رہاتھا وہا ں تو کوئی برسوں
کا مریض تھا وہ اندر آگئی پانی لاکر سامنے رکھ دیا ۔۔دونوں ہی خاموش تھے ۔۔
اس نے کھانا لگایا مراد نے بس پانی پیا اور کمرے میں آگیا ۔۔۔ وہ بھی کچھ
نہیں کھا سکی بس آنسوؤں کے گولے تھے حلق میں پھنس رہے تھے ۔۔ بڑی مشکل سے
کچن سمیٹا اور پھر کمرے میں آئی اب اسکی برداشت جواب دے چکی تھی وہ گئی اور
مراد کا ہاتھ پکڑ کر رونے لگی کہ مجھے معاف کردیں ۔۔
مگر یہ کیا مراد کو تو جیسے کرنٹ لگا تھا ایک دم ہاتھ چھڑوایا اور چیخا ۔۔۔
دور رہو ، دور رہو ۔۔۔اسے سمجھ نہیں آئی روتے ہوئے بولی مراد میری بات تو
سنیں میں ۔۔۔پھر سے ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی مراد نے کہا وہ پھر آجائینگے دور
رہو ۔۔۔ اس نے نہ سمجھتے ہوئے کہا مگر کیسے آجایئنگے ؟؟؟ مراد نے ہاتھ میں
پہنا کڑا دکھا یا کہ یہ تحفہ دیا ہے انہوں نے اب اگر میں تم میرے قریب بھی
آئیں تو اس کڑے میں لگی چپ کے ذریعے انکا سسٹم الارم کرنا شروع کردے گا اور
وہ پھر آجائینگے ۔۔۔
وہ پریشان سی چیخنے لگی یہ کیسا قانون ہے کیسی عزت ہے کیسا پروٹیکشن ہے اس
میں عورت کیلیے ۔۔ یہ تو عورت کو تباہ کرنے کا قانون ہے ۔۔۔ اس کو اتار کر
پھینک دیں مراد ۔۔۔ مرادنے ٹوٹے لہجے میں کہا اس کو اتارنے کا جرمانہ
لاکھوں روپے اور چھ ماہ قید ہے ۔۔۔ یہ کہہ کر مراد نے اپنا کمبل اٹھایا اور
صوفے پر جاکر دوسری جانب منہ کیا اور آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا تھا سارہ
پاگلوں کی طرح رونے لگی تھی ۔۔۔ مگر اب کیا کیا جاسکتا تھا کہ یہ کڑا اس نے
خود ہی تو پہنوایا تھا ۔ |