تابش بھائی ! تابش بھائی! اٹھو نا! حسب
روزایک معصوم سی آواز میری سماعتوں کی نظر ہوئی۔
گیارہ بجے آنا چھٹکے ! گیارہ بجے!ابھی لیپ ٹاپ چارج نہیں ہے اور کارٹون بھی
گیارہ بجے لگتے ہیں۔ حسب معمول میں نے کروٹ لی اور سر تکیے کے نیچے دیتے
ہوئے دھیمے انداز سے چھٹکے کو گولی دی۔
ارے نہیں تابی بھائی، امی نے کہا ھے تابی کو بلا کر لاؤ۔ یہ کہہ کر اس نے
کمبل کھینچ دیا
شفی خالہ نے ! اوہ تری۔ ارے نالائق تابی بارہ دن ھو گئے تجھے گھر آئے ھوے
لیکن ابھی تک خالہ کے گوش گذار نہیں ہو سکا ۔میرے دماغ نے میرے کان میں
سرگوشی کی ۔
چلو چُھٹکے میں آیا ۔(شفی خالہ تقریباََ پچاس سال کی خاتون ہیں اور میرے
دوست کی والدہ تھی۔ محلے میں ہی رہتی تھی۔میرا دوست تو قبل از وقت خالقِ
حقیقی کے حکم کے حضور سر تسلیم خم کر چکاتھا۔مگر شفی خالہ مجھ میں ھمیشہ
اپنے فرزند کو دیکھتی تھی اور اُسی کی طرح پیار برساتی تھی ۔شاید یہی وجہ
ہے کہ وہ مجھ سے بہت زیادہ بے تکلفی بر تتی تھی )
اپنے رخِ ماہتاب کو میں نے دو چُلو آب حیات سے سراب کیا اور خالہ کی طرف چل
نکلا ۔
تیاریا ں پورے زور و شور سے انجام کی طرف رواں دوا ں تھیں۔شادی کا سماں
پوری آن بان کے ساتھ ظہور پذیر تھا ۔ شُفی خالہ نہایت خوش دکھائی دے رہی
تھی۔ اور اسکی خوشی کی مقدار کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا تھا
کہ ہر آنے والے مہمان کو تواضع کے ساتھ شفی خالہ کے بیان کردہ لڑکے والوں
کے معیار اور اقدار کی قدوقامت کو بھی چپ چاپ ہضم کرنا پڑ رہا تھا۔
ابھی میں سجی دھجی دیواروں کا جائزہ لے رہا تھاکہ ایک کڑک مگر انتہائی شفیق
آواز میرے کان کے پردے سے ٹکرائی۔
اوئے تابی نالائق! آ گیا تو، آ گئی میری یاد۔اگلے ہی لمحے، میں خالہ کی
بانہوں کے حصار میں تھا۔بڑے پیار سے میرے ماتھے پہ بوسہ دیا اور اس سے پہلے
کہ میں کچھ بولتا شُفی خالہ بغیر رکے بولتی جا رہی تھی۔
پتہ ہے کتنے کام ہیں۔ تیرے کان میں بعد میں کھینچوں گی۔پہلے میری بات سن لے۔
’ سکی‘ کی شادی ہے تجھے پتہ ہے نا۔پانچ دن رہ گئے ہیں اور لڑکے والوں نے
کہا ہے کہ کل وہ آئیں گے کچھ ضروری بات کرنے کے لیے۔میرا تو دل بیٹھا جا
رہا ہے۔تمہیں تو پتہ ہے ھمارے حالات کا۔
ایک ماں کے چہرے پر بیٹی کے لیے پریشانی سے پڑنے والی شکنیں واضح دکھائی دے
رہی تھیں۔
خالہ ھماری سکی ماشااﷲ کسی سے کم ہے کیا۔لوگ تو چاند کا ٹکرا ہوتے
ہیں۔ہماری سکی تو خود پورے چاند جیسی ہے۔تم اطمینان رکھو سب ٹھیک ھوگا اﷲ
کے فضل سے۔
خدا جانے کیا بات کرنی ہے۔ تمہیں نہیں پتہ کتنی مشکل سے رشتے کی بات طے
پائی۔بس اﷲ خیر کرے۔خالہ کے الفاظ کے پیچھے چھپی ھوئی بے چینی کا بخوبی
اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔
وہ میں کہہ رہی تھی کہ کل جب وہ لو گ آئیں تو تم بھی ساتھ بیٹھنا ھمارے۔تم
پاس بیٹھو گے تو مجھے اطمینان رھے گا۔
مگر خالہ۔۔۔مری آواز ابھی حلق کا بارڈر عبور کرنے ہی والی تھی کہ خالہ بول
اٹھی۔
کل دو بجے کا ٹائم ہے۔تم پہنچ جانا۔ مجھے چھُٹکے کو نہ بھیجنا پڑے۔اور ہاں
یہ اگر مگر تم پاس ہی رکھو تو اچھا ہے میں سب بہانے جانتی ہوں تمہارے۔میں
نے کہا ناکہ تم آ رہے ہو تو مطلب آ رہے ہو۔
خالہ کا لہجہ اپنائیت اور اخلاص کا واضح عکاس تھا۔میرے پاس ہاں کہنے کے
علاوہ کوئی اور آپشن موجود نہیں تھا۔
اگلے روز حسبِ وقت محفل شروع ہوئی۔میں بھی وہاں ایک کرسی پہ براجمان تھا۔
خاطر تواضع کے بعد لڑکے کے والد گرامی جن کا حلیہ نفاست اور شرافت کی عکاسی
کر رہا تھاحا ضرین محفل میں سے لڑکی کے والد سے مخاطب ہو ئے۔
دیکھیں جی ہم بیٹے اور نئی بہو کے لیے نیا کمرہ تعمیر کروا رہے ہیں۔چونکہ
اس میں آپکی بیٹی نے رھنا ہے چنانچہ ھم چاہتے ہیں کہ اسکے اخراجات میں آپ
بھی ھمارے ساتھ شراکت کریں۔
میں چونکا۔۔!میرے ذہن میں فوراََخیال آیا کہ کچھ بولوں۔مگر یہ سوچ کر چپ رہ
گیامیں نے اپنی سوچ کا گلہ دبا دیا کہ شاید مرا بولنا مناسب نہیں تھا۔
لڑکی کا باپ ابھی سوچ رہا تھا کہ جواب میں کیا بولوں خالہ نے بڑی بے رنگ
اور روکھی مسکراہٹ سے ہاں میں سر ہلا دیا۔اسکے بعد لڑکے کی ماں نے بات
بڑھائی۔
فرنیچر تو ھمیں ڈیکو پینٹ والا چاہیے۔آجکل وہی فیشن میں ہے اور ڈائینگ ٹیبل
جیسا مرضی ہو ھمیں اعتراض نہیں، ویسے خالص شیشے کا ہی اچھا لگتا ہے۔اور
ٹرنک تو جستی چادر کے بھی چل جاتے ہیں مگر سٹین لیس سٹیل کے خراب نہیں
ھوتے۔آپکی بیٹی نے ہی استعمال کرنے ہیں ورنہ اﷲ کا دیا سب کچھ ہے ہمیں تو
ضرورت نہیں ان چیزوں کی۔میں تو بس اتنا کہہ رہی تھی کہ برادری کا خیال کرنا
پرٹا ہے اب دیکھو نا میری جیٹھانی نے پچھلے مہینے اپنے بیٹے کی شادی کی تو
اس کے سسرال والوں نے گھر کے سب افراد کو سونے کی انگوٹھی پہنائی اور تو
اور لڑکی والوں نے ایک کار اور تین مرلہ کا گھر بھی تحفہ میں دیا۔لیکن ہم
تو ان چیزوں کے مخالف ہیں۔توبہ کرنی چاہیے۔
بات کاٹتے ہوئے لڑکے کی بہن بولی۔بھابھی کی فریج بھی تو لینی ہے۔میں تو
کہتی ہوں کہ ڈاولینس کا نیا ماڈل آیا ھے۔انسیکٹ کِلر ہے ، یوپی ایس پہ بھی
چل جاتی ہے۔اور ہاں پرانے ٹی وی تو اب ختم ہی ہو گئے ہیں۔اب تو ایل سی ڈی
ہی چلتی ہے۔
یہ باتیں جیسے جیسے مرے کانوں میں سرایت کر رہی تھیں ویسے ویسے میرے جسم
میں برقی لہریں ایک طوفانِ بدتمیزی پیدا کر رہی تھیں۔مجھے شاید یہ باتیں
اسلیئے ہضم نہیں ھو رہی تھیں کیوں کہ بھیک مانگنے کا یہ انداز میں پہلی بار
دیکھ رہا تھا۔
خالہ اور خالو کے مسکراتے چہروں کے پیچھے چھپی ھوئی بے بسی اور چمکتی
آنکھوں کے اندر برستی ھوئی آنکھیں مجھ سے دیکھی نہیں جا رہی تھیں۔ لیکن
ہماری ظالم سوسائٹی کی افسوس ناک تربیت کا نتیجہ یہ تھا کہ وھاں کرسیوں پہ
براجمان کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں تھا جو یہ کہہ سکے کہ خالہ تمہیں اپنے
جگر کا ٹکڑا تو دے رہی ہے اس سے زیادہ تمہیں اور کیا دے۔ کیوں کے میں گھر
کے حالات اچھی طرح جانتا تھا۔ مگر خالہ اور خالو مسکرا کے سب باتوں کے جواب
میں صرف ہاں میں سر ہلا رھے تھے۔
اچھا بھائی صاحب! وہ بارات میں دو سو لوگ آئیں گے۔ میں تو اس بات کے ویسے
ہی مخالف ہوں۔اسی لیے میں نے پہلے ہی کم رشتہ داروں کو دعوت دی ہے۔باقی
لڑکے کے دوست ہوں گے۔ اب ان کو تو منع نہیں کیا جا سکتا تھا۔ورنہ بعد میں
منہ دکھانے کے قابل نہیں رھتا بندا۔آپ سمجھ رھے ہیں نا۔۔!
ایک سو لوگوں کا انتظام ھم کریں گے۔باقی لوگوں کو کیسے سنبھالنا ہے وہ آپ
بہتر سمجھتے ہیں۔میں نے چھبتے انداز مگر میٹھی آواز میں آخر چپ کا روزہ توڑ
دیا۔سب میری طرف ایسے حیرت سے دیکھنے لگے جیسے انکے موم جیسے جذبات پہ آتشِ
نمرود وارِد کر دی ھو۔
آپ کے سب مشوروں کا خیال رکھا جائے گا اور اگر آپ ذرا مہربانی فرمائیں تو
ھم سو لوگوں کا بہتر انتظام کر سکیں گے تا کہ آ پکے ساتھ بارات میں آنے
والے لوگوں کی خدمت بہتر طریقے سی انجام دی جا سکے۔امید ہے کہ آپ میری بات
سے اتفاق کریں گے۔میں نے اپنی بات کو دہرایا۔
اممم۔!چلو ٹھیک ہے۔لڑکے کا باپ بولا۔
مگر لڑکے کی ماں اور بہن کو شاید یہ بات ناگوار گذری اور وہ ایسے کھچی ھوئی
نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی جیسے کہہ رہی ھوں کہ ذرا گھر پہنچیں پھر خبر
لیتیں ہیں آپکی۔
شفی خالہ نے میری طرف تھکی نگاہوں سے دیکھا انکی خاموش آنکھوں سے نکلتے
ھوئے بے بسی کے الفاظ مجھے صاف صاف سنائی دے رہے تھے۔ خیر میں وہاں سے نکلا
اور سیڑھیوں پہ بیٹھ کر بہت دیر تک اس کرب میں مبتلا رھا کہ بھکاری پن
ھمارے معاشرے میں اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ ھم اپنی عزت نفس مجروح کر رہے
ہوتے ہیں اور ھمارا ضمیر ہمیں ذرا برابر بھی جھنجھوڑتا نہیں۔
خیر باقی سونے ، چاندی اور باقی معاملات طے پائے اور اﷲ اﷲ کر کے بارات کا
دن آ پہنچا۔
نکاح خواں نے نکاح پڑھایا۔ رجسٹرار نے نکاح نامہ لکھتے وقت پوچھا کہ حق مہر
کتنا لکھوں؟
لڑکے کا چچا پاس کھڑا تھا اس نے بولا لڑکے کا بڑا بھائی بتائے گا۔ بڑے
بھائی صاحب بولے کہ موصوف کی والدہ گرامی بتائیں گی۔ اور محترمہ نیک اختر
نے پھیکی سی مسکراھٹ سے کہا کہ اس بارے میں ان کے شوہرِ محترم حکم صادر
فرمائیں گے۔
چنانچہ حق مہرمقدار کی درخواست حضرتِ موصوف کے گوش گزار کی گئی تو انہوں نے
بہت نفاست و تفاخر سے کہا۔۔!
او جی الحمدلِلّہ ہم مسلمان ہیں۔ آپ لکھ لیں جو بھی بنتا ہے ـ’’ شریعت کے
مطابق ‘‘
اورموصوف کا یہ زریں قول سن کر مری آنکھیں پھٹی رہ گئیں اور میرا دماغ حیرت
کے سمندر میں ڈوب گیا۔ |