زانی کو رجم کرنے کی تحقیق (قسط دوم)

امام حاکم متوفی ٤٠٥ ھ روایت کرتے ہیں :
عکرمہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا جس شخص نے رجم کا انکار کیا اس نے قرآن کا انکار کیا، حالانکہ اس کو گمان بھی نہیں ہوگا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :” اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارے رسول آچکے ہیں اور وہ ان بہت سی باتوں کو بیان کرتے ہیں جن کو تم چھپاتے تھے، اور رجم کو بھی یہود چھپاتے تھے۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور بخاری اور مسلم نے اس کو بیان نہیں کیا۔ (المستدرک ج ٤ ص ٣٥٩، مکہ مکرمہ)
کثیر بن صلت بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن العٓس اور حضرت زید بن ثابت (رض) قرآن مجید کے نسخے لکھ رہے تھے، جب اس آیت پر پہنچے تو حضرت زید نے کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے کہ جب بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت زنا کریں تو ان کو ضرور رجم کرو۔ حضرت عمرو نے کہا یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر عرض کیا : اس آیت کو لکھ دیجئے تو آپ نے اس بات کو ناپسند کیا، اور جب غیر شادی شدہ بوڑھا زنا کرے تو اس کو صرف کوڑے لگائے جاتے ہیں اور جب شادی شدہ شخص زنا کرے تو اس کو رجم کیا جاتا ہے، اس حدیث کی سند صحیح ہے اور بخاری اور مسلم نے اس کو روایت کیا۔ (المستدرک ج ٤ ص ٣٦٠، مکہ مکرمہ)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے متعدد طریق اور اسانید سے اس حدیث کو بیان کیا ہے اور انہوں نے اس کے منسوخ التلاوت ہونے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس کے الفاط میں اختلاف ہے بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں :
………
انہوں نے جو لذت حاصل کی ہے (اس وجہ سے رجم کرو)
نیز اس آیت کے الفاظ کے عموم پر عمل نہیں ہوتا کیونکہ مطلقاً بوڑھے شخص کو رجم نہیں کیا جاتا بلکہ اس بوڑھے شخص کو رجم کیا جاتا ہے جو شادی شدہ ہو اور اگر غیر شادی شدہ ہو تو اس کو کوڑے لگائے جاتے ہیں، جیسا کہ حضرت عمرو بن العاص نے واضاحت سے بیان فرمایا ہے۔ (فتح الباری ج ١٢ ص ١٤٣، لاہور)
اس آیت کے منسوخ التلاوت ہونے پر ایک دفعہ ایک فاضل شخص نے علامہ سعیدی صاحب سے سوال کیا کہ حدیث میں ہے :
……… (مشکوٰۃ ص ٣٢)
میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا
پھر حدیث سے یہ آیت کیسی منسوخ ہوگئی ؟ میں نے اس کے جواب میں کہا کلام اللہ سے مراد قرآن مجید ہے اور قرآن مجید کے الفاظ منضبط ہیں اور وہ الفاظ تواتر سے ثابت ہیں اور اس آیت کے الفاظ غیر منضبط ہیں اور ان الفاظ کا ثبوت تواتر سے نہیں ہے اس لئے یہ الفاظ قرآن مجید نہیں ہیں۔ لہٰذا ان کے منسوخ التلاوت ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

آیت رجم کی بحث

شخ علامہ سید احمد سعید کا ظمی قدس سرہ العزیز لکھتے ہیں :
بخاری شریق میں ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا : لوگو ! میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں جس کا کہنا میرے لئے مقدر کردیا گیا ہے، میں نہیں جانتا شاید میری موت میرے سامنے ہو، جو شخص میرے بات کو سمجھ کر اسے یاد رکھے اسے چاہیے کہ جہاں تک وہ پہنچ سکتا ہو وہاں تک میری بات لوگوں کو بتا دے اور جسے خوف ہو کہ اس بات کو نہ سمجھ سکے گا تو میں اسے اپنے اوپر جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دیتا وہ بات یہ ہے کہ ” بے شک اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھیجا اور ان پر کتاب نازل فرمائی اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اس میں رجم کی آیت بھی تھی، ہم نے وہ آیت پڑھی اور اسے سمجھ اور اسے یاد رکھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا اور حضور کے بعد ہم نے بھی رجم کیا۔ مجھے خوف ہے کہ طویل زمانہ گزر جانے کے بعد کوئی کہنے والا کہہ دے کہ خدا کی قسم اللہ کی کتاب میں ہم رجم کی آیت نہیں پاتے تو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے فریضہ کو ترک کرکے گمراہ ہوجائیں۔ اللہ کی کتاب میں رجم برحق ہے ہر اس آزاد مد اور عورت پر جس نے شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کیا، بشرطیکہ شرعی گواہ قائم ہوجائیں یا (عورت کا) حمل ظاہر ہوجائے یا اقرار ہو۔
(بخاری شریق جلد ثانی ص ١٠٠٩، صحیح مسلم ج ٢ ص ٦٥، موطا امام املک میں ٦٨٥)
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن مجید کی آیت الزانیۃ والزانی میں سوکوڑوں کی سزا کا ذکر آزاد غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لے ہی ہے اور رجم کی سزا کا تعلق غیر شادی شدہ سے نہیں بلکہ وہ شادی شدہ کے لئے مخصوص ہے۔ صرف اتنی بات میں وارد ہے اور ہم بارہا بتا چکے ہیں کہ وہ احادیث جن میں رجم کی سزا مذکور ہے وہ متواتر المعنی ہونے کی وجہ سے قطعی الثبوت ہیں جس طرح قرآن کی آیات وحی الٰہی ہیں اسی طرح سنت اور حدیث نبوی بھی وحی الٰہی ہے اور اسی بناء پر اس کا دلیل شرعی ہونا ہم قرآن مجید سے ثابت کرچکے ہیں، جو چیز قرآن سے ثابت ہو، اس سے جس حکم کا ثبوت ہوجائے وہ عین قرآن کے مطابق ہے، اسے خلافِ قرآن کہنا کسی طرح درست نہیں ہے۔
دیکھئے قبلہ اولیٰ کے قبلہ ہونے کا حکم قرآن میں وارد نہیں بلکہ حدیث سے ثابت ہے، اسی طرح پانچ نمازیں، ان کی تعداد رکعات اور ادا کرنے کی ترتیب مثلاً نماز میں رکوع، سجود، قیام اور قعود اوعر ان سب ارکان کی ترتیب سب سنت نبوی سے ثابت ہے، اگر سنت اور حدیث کو نظر انداز کرکے صرف اقیمو الصلوٰ اور اتوالزکوٰۃ کو سامنے رکھ لیا جائے تو نہ اقامت صلوٰۃ کے حکم پر عمل ہوسکتا ہے نہ ہی ایتاء ذکوٰۃ کے فریضہ سے سبکدوش ہونا ممکن ہے اس لئے سنت اور حدیث کو لازی طور پر تسلیم کرنا پڑے گا تاکہ قرآن کے معنی سمجھ میں آجائیں اور مرادِ الٰہی کے مطابق احکام قرآنیہ پر عمل کرناممکن ہو۔
آیت رجم کا نزول اور اس کا منسوخ التلاوت ہونا احادیث صحیحہ کی روشنی میں واضح ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود ہم نزول الفاظ اور نسخ تلاوت کے قطعی اور متواترہ کا قول نہیں کرتے لیکن یہ ضرورکہتے ہیں کہ رجم کے معنی تواتر اور قطعیت کے ساتھ قرآبن پاک میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
………(المائدہ : ٤٣ )
اور اے رسول وہ یہودی کس طرح آپ کو اپنا حکم بناتے ہیں حالانکہ ان کے پاس تورات ہے، جس میں اللہ کا حکم پایا جاتا ہے۔ (مقالات کا ظمی ج ٣ س ٤٠٠۔ ٣٩٩، مکتبہ فریدیہ ساہیوال، ١٤٠٧ ھ)

رجم کی احادیث متواترہ
رجم کی صحیح مرفوع متصل احادیث تریپن (٥٣) صحابہ سے مرویہیں جن کو مسلم اور مستند جلیل القدر مھدثین نے اپنی تصانیف میں متعدد اسانید کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کے علاوہ ثقہ تابعین کی چودہ (١٤) مرسل روایات ہیں چودہ (١٤) آثار صحابہ اور پانچ (٥) فتاویٰ تابعین ہیں جن کو اکبار محدیثین اسانید کثیرہ کے ساتھ اپنی مصنفات میں درج کیا ہے یہ کل چھیاسی (٨٦) احادیث ہیں۔ ہم نے جن اعداد و شمار کا ذکر کیا ہے، یہ ان کتب احادیث سے حاصل کئے گئے ہیں جو ہمارے پاس موجود اور دستیاب ہیں۔ ان کے علاوہ بے شمار کتب احادیث ہیں جو ہماری دسترس سے باہر ہیں اس لئے حتمی اور قطعی طور پر انہیں کہا جاسکتا ہے کہ رجم کے سلسلہ میں کتنی احادیث مرفوعہ، مرسلہ، آثار صحابہ اور فتاویٰ تابعین موجود ہیں۔ بہرحال ہم نے جو اعداد و شمار تتبع اور تلاش سے حاصل کئے ہیں ان کی بناء پر یہ اطمیان اور یقین ہوجاتا ہے کہ رجم کا ثبوت جن احادیث سے ہے وہ معناً متواتر ہیں اور اس عد سے اس بات پر شرح صدر ہوجاتا ہے کہ یہ احادیث اس قوت میں ہیں کہ ان سے قرآن مجید کی وضاحت کی جاسکتی ہے اور ان حادیث متواترہ کی بناء پر یہ قول صحیح اور برحق ہے کہ قرآن مجید میں جس زانیہ اور زانی کو سزا سو کوڑے مارنا بیان ہے اس سے آزاد اور غیر محصن (غیر شادی شدہ) زانی اور زانیہ مراد ہیں۔ رہے آزاد اور محصن (شادی شدہ) زانیہ اور زانی تو ان کی حد رجم کرنا ہے جیسا کہ احادیث متواترہ میں اس کا بیان ہے۔
منکرین رجم یہ شبہ وارد کرتے ہیں کہ سنت سے قرآن مجید کے عموم قطعی کی تخصیص کیسے کی جاسکتی ہے ؟ اس کا جواب اولاً یہ ہے کہ الزانیۃ والزانی میں عموم قطعی نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید میں باندیوں کے زنا کی سزا کے متعلق ہے :
………(النساء : ٢٥) یعنی باندیوں کی سزا آزاد عورتوں کی سزا کا نصف ہے۔
یعنی باندیوں کی سزا پچاس کوڑے ہے، اس سے معلوم ہوا کہ آیت نور میں جو زانیوں کی سزا سو کوڑے بیان کی گئی ہے اس سے ہر زانی اور زانیہ مراد نہیں ہے بلکہ آزاد زانیہ اور زانی مراد ہے کیونکہ باندیوں کی سزا سورۃ نساء میں اس کی نصف بیان کی گئی ہے اور جب اس آیت میں خود قرآن مجید سے تخصیص ہوگئی تو اس کا عموم قطعی نہ رہا اور یہ ہر زانیہ اور زانی کو شامل نہیں ہے، اس لئے اگر سنت متواترہ سے اس میں تخصیص کی جائے اور اس بناء پر اس کو غیر شادی شدہ زانیوں کے ساتھ مختص قرار دیا جائے تو اس میں کیا استبعاد ہے !
رہے آزاد اور شادی شدہ زانی تو ان کی سزا رجم ہے جیسا کہ احادیث متواترہ میں اس کا بیان ہے۔
شرح صحیح مسلم (سعیدی صاحب ) میں رجم کی ٥٣ احادیث مرفوع ہیں، ١٤ مرسل روایات ، ١٤ آثار صحابہ اور ٥ فتاویٰ تابعین کا ذکر کیا ہے۔ (شرح صحیح مسلم ج ٤ ص ٨١٦۔ ٨٠٤)

 
syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 320460 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.