والدین اولاد کے سروں کا تاج (حصہ اول)
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
حمد و ثنا تو اس مالک حقیقی کی ہے جس نے
ہمیں انسان بنایا،شکر اس رب ِ پاک کا جس نے ہمیں مسلمان و نبی آخر زماں ﷺکا
امتی بنایا اور لاکھوں کروڑں ایسے احسانات کہ جن کا شمار کرنا بھی انسانی
عقل سے بالاتر ہے ، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان کی عقل ایک خاص
دائرہ کار تک محدود ہے اور وہ اُسی چیز کا احاطہ کر سکتا ہے جس کی توفیق اس
کو اس کے پاک رب ِ کریم نے عطا کی ہوآج میں ایک ایسی ہستی کے بارے میں
لکھنے جا رہا ہوں جو کہ ہم پر رب کریم کا ایک عظیم احسان ونایاب تحفہ ہے جو
کہ باقی تحائف (انسانی رشتوں میں )سے افضل و اعلیٰ اور قابل رحم و احترام
ہے۔ میرا ایک کالم (بہو بھی کبھی بیٹی تھی )کچھ دن پہلے شائع ہوا تھا ، جس
کا مقصد بہو کو بیٹی کی طرح تسلیم کرنے کے بارے میں لکھا تھاوہ ایک عمل تو
میں نے کر دیا تاکہ سلنڈرپھٹ کر اور گیس کے دھماکے میں مرنے والی بہوؤں کی
تعداد میں کچھ کمی واقع ہو سکے ، یہ حق ادا کرنے کے بعد ایک ایسا حق جو
ابھی بھی باقی ہے اس کو ادا کرنے سے میں قاصر رہا ہوں اس ذات کے بارے میں
لکھنے کو تو میں لکھ دیتا مگر میرے پاس الفاظ کا ملاپ ہی نہیں بن پا رہا
تھا کہ کہا سے لکھنا شروع کروں اور کہاں پر ختم کروں کیونکہ اس ذات کے مجھ
پر اس قدر احسانات ہیں کہ میں گنوانے کے قابل بھی خود کو نہیں سمجھ سکتا
اور معذرت کرونگا کہ اگر مجھ سے کوئی بات بیان سے رہ جائے۔
کیونکہ لب تو آزاد ہیں مگر J.D
کس کس بات کا بیان کروں ، کس کس کو چھوڑ کر
اس پاک ہستی کا نام لبوں سے نکالو تو چھین دل کو ملتا ہے، روح و سانس دونوں
نکھر کر اس قدر خوبصورت انداز میں مہکنے لگتے ہیں کہ سار ا جہاں ہم کو
رحمتوں کے آغوش میں دیکھائی دینے لگتا ہے ، یہ وہ پاک ذات ہے جس کے بار ے
میں ذکرو آداب و احترام ہمارے پرسکون و روح پرور دین میں جگہ جگہ ملتا ہے
جس سے ہمیں اُس ہستی کی عظمت کی قدر وتوقیر کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ اُس کے
نام کی مہک اس قدر پر لطف ہے کہ اُس کے آگے سب گل و بہار ناکارہ بن جاتے
ہیں ۔ اس کا ذکر میں کیسے بیان کر سکتا ہوں کہ جس کے قدموں تلے جنت کو رکھ
کر فرما دیا گیا کہ ماں کی خدمت کرو ایک طرف تو ماں کے قدموں تلے جنت رکھ
لی گئی اور دوسری طرف بولا گیا کہ جنت قدموں تلے ہی نہیں بلکہ اس کا دروازہ
بھی تلاش کرو جو باپ کی خدمت کے بعد ہی کھلے گا۔ماں جی، امی جان، بے جی،
مماجان ، امی حضور ، آپا جی، بے بے جی یہ سب الفاظ ایک مٹھاس کی کیفیات
پیدا کرتے ہیں ماں کا لفظ میں "م" آتا ہے ، اور میم سے ہمارے پیارے نبی
کریم ﷺ کا اسم گرامی محمدﷺبھی بنتا ہے، اسی میم سے مٹھاس، من ، میٹھااور
میوہ بھی بنتے ہیں۔ قلم سے اس ہستی کے احسانات کا شمار کرنے کے لیے کتنے ہی
لکھاریوں نے انتھک محنت کی مگر حق ادا پھر بھی نہیں کیا جا سکا، اور نہ ہی
اس ہستی کا حق ادا ہو سکتا ہے۔ کیوں کے یہ ایک ایسی ہستی ہے جس کے احسانات
کا شمار ہماری کسی بھی قلم سے ادا تو نہیں ہو سکتا مگر سب اپنا اپنا فرض
نبھانے کے لیے کوششیں کرتے آرہے ہیں ،کر رہے ہیں اور کرتے ر ہیں گئے مگر اس
ہستی کے بارے میں ہر کسی کے پاس مواد کا انبھار تو موجود ہے مگر الفا ظ کا
اتنا ذخیرہ ہونے کے باوجود سب کے سب اس ہستی کے آگے نا پید اور آندھے، بہرے
اور گونگے ہیں۔ لکھ لکھ کرکتابیں بھر دی گئی مگر حق ہے کہ حق ادا نہ ہو سکا۔
میں ایک شاعر ہوں مگر میرے پاس ایسے اشعار موجو د نہیں ہیں کہ میں ان شعروں
کے اندر اس ہستی کو سمیٹنے کی کوشش کر سکوں، میں ایک لکھاری ہوں مگر میرے
پاس الفاظ کا ایسا ذخیرہ نہیں کہ جن کو اکٹھا کر کے میں ایک کوزے میں بند
کر سکوں، کوئی ایسا قلم نہیں دیکھا جو اس ہستی کے بارے میں لکھتے لکھتے فنا
نہ ہوا ہو، کوئی ایسی سیاہی نہیں دیکھی جس کی رنگت اس نام کے جذبہ محبت سے
بھی شوخ اور نمایاں ہو، کوئی ایسا زمانہ نہیں دیکھا جس میں اس ہستی کا حق
ادا کیا گیا ہو، بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا بیان زبان و قلم سے نہیں
کیا جاسکتا ۔ میں نے اس ہستی کے بارے میں بہت کچھ لکھنا ہے مگر میں بے بس
ہوں کیونکہ بہت سے ارمان ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا اظہار بھی نہیں کیا
جاسکتا مگر وہ ارمان صرف آدمی اپنے دل میں ہی رکھ سکتا ہے، ماں کی قدر اگر
جاننے کی ضرورت ہو تو ان لوگوں سے پوچھو جن کی مائیں مر گئی ہیں آج وہ خالی
گھر کے درو دیوار کو دیکھ دیکھ کر روتے ہیں ، اپنے ارمانوں اور اپنے خوابوں
کو اپنے من کے اندر چھپا کر دنیا کے سامنے مسکرانے کی ناکام کوشش تو کرتے
ہیں مگر ان کے آثار واضع بتا رہے ہوتے ہیں کہ ان کی ماں مر گئی ہے۔۔ اور
بہت سے تو شاعر مشرق علامہ اقبال رحمتہ اﷲ کا شعر بھی پڑھتے ہونگے کہ "میں
تیری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی"اور ساتھ میں ارمانوں کی ٹولی میں
آنسوؤں کی ایک ٹھنڈی لہر کے ساتھ یہ آرزو کرتے ہوں گئے کہ اے کاش۔۔۔! آج
ہماری ماں زندہ ہوتی ۔۔۔ جب میرے پاس کچھ نہیں تھا تو میری ماں نے بڑے دکھ
اور مصیبتوں میں میری حوصلہ افزائی کی۔۔۔آج میرے پاس دولت ،شہرت، عہدہ،
گاڑی ، بنگلہ ، محل، زمین و جائیداد، مال و زر کے انبار، اہل و عیال سے
بھری محفل غرضیکہ سب کچھ ہے۔۔۔نہیں ہے صرف میرے پاس میری ماں نہیں ہے۔۔۔
ایک واقع میں ادھر بیان کرتا جاؤں کہ ہمارے دادا جان(دادن خان مرحوم) اکثر
سنایا کرتے تھے کہ میں نے اپنے والد گرامی سے پوچھا تھا جب ان کی عمر ستر
سال سے زائد ہو گئی تھی کہ آ پ کا کوئی ارمان رہتا ہو جو ہم بیٹے آپ کا
پورا نہ کر سکے ہوں تو انھوں نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر جواب دیا کہ کاش میری
ماں زندہ ہوتی۔۔۔واقعی یہ ہستی عمر کے ہر حصے میں یا د آتی ہے اور اس کی
کمی کسی بھی میدان میں پوری نہیں کی جاسکتی ۔یہ رب کا وہ انمول تحفہ ہوتا
ہیکہ جس کانعم البدل موجود نہیں ۔۔مشہور و معروف گلوکارمرحوم عالم لوہار نے
اپنی ایک غزل (ماں چھا زندگی دے نکے جے دل وچ سما ہے محبتا ں دا بسیرا)میں
بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا کہ ایک لڑکا جو اپنی محبوبہ کے لیے اپنی ماں
کا دل تو نکال کر لے جاتا ہے مگر جب راستے میں اس کو ٹھوکر لگتی ہے تو اس
کے ہاتھ میں پکڑا ہوا دل بھی بیٹے کی محبت میں تڑپ کر بول اُٹھتا ہے کہ
بیٹا کہیں چوٹ تو نہیں لگی۔۔۔ اسکے بعد رہی سہی کسر انور مسعو د نے اپنی
نظم (اج بڑی دیر نال آیاں پتر بشیریاہ)میں پوری کر دی اور ماں کے جذبات و
کیفیات کو اس محبت بھرے انداز میں بیان کر دیا کہ پیار، محبت، عشق و عقیدت
کے جذبات اپنے پیمانے سے امنڈ آتے ہیں۔ (جاری حصہ دوئم) |
|