گھر سے ہمالیہ تک

میں جب بھی کوہ پیما ثمینہ بیگ کی ایک لوکل بینک کے داخلی دورازں پر آویزاں تصویر دیکھتا ہوں تو اس کے عظم اور ہمت کی داد دئیے بغیر نہیں گزر پاتا۔کہاں دھان پان سی خاتون اور کہاں ماونٹ ایورسٹ۔اپنے گھر کے آنگن میں بیٹھ کر بلند و بالا فلک بوس پہاڑوں کی برف سے ڈھکی چوٹیوں کو تکنے اورخواب بننے والی کے تمام خواب سچے ہو گئے۔یہ ایورسٹ سمیت دنیا کی آٹھ بلند چوٹیوں پر اب تک اپنے قدموں کے نشان چھوڑ چکی ہیں۔میں نے جب پہلی بار ثمینہ بیگ اور ایورسٹ کے بارے میں پڑھا تو مجھے یہ بالکل عام سی خبر محسوس ہوئی ٹھیک ویسی جیسا کہ ہم اکژ سنتے ہیں کہ پاکستان کی ٹیم بیٹنگ فلاپ ہونے کی وجہ سے پھر میچ ہار گئی۔ایک دن فرصت کے لمحات پا کر میں نے ایورسٹ اور باقی بلند چوٹیوں کی تصاویر انٹرنیٹ پر سرچ کرنا شروع کر دیں۔اس تلاش میں مجھے وادی ہنزہ گلگت فیری میڈوز دریائے سندھ راکا پوشی نانگا پربت بھی ملے۔میں خدا کی قدرت تلاش کرتا چلا گیا۔مجھ پر یہ راز کھلا کہ میں تو زندگی گزار رہا ہوں ۔اسے جی توثمینہ بیگ اور اس کی طرح کے دوسرے لوگ رہے ہیں۔ارد گرد نظر دوڑائی تو مجھے اپنے تمام یار دوست گھر کے لوگ رشتہ دار کولیگ اس فہرست میں نظر آئے کہ جن پر زندگی گزر رہی ہے۔جو کولہو کے بیل کی طرح گھوم کر زندگی کو رہٹ کھینچ رہے ہیں۔جن کی ہر منزل گھر سے گھر ہے۔یہ بور ہیں فرسٹریٹ ہیں ناراض ہیں تنگ بھی ہیں مگر بے مزہ روکھی پھیکی سی زندگی جینے پر تلے ہوئے ہیں ۔آگہی کا سفر مجھے موریس ولسن تک لے گیا۔ایورسٹ دنیا کی سب سے بلند چوٹی ہے ولسن ہی وہ شخص تھا جس نے اس بلند و بالا پہاڑ پر اپنے قدم رکھنے کی پہلی سنجیدہ کوشش کی موریس پہلی جنگ عظیم میں ایک سپاہی تھا اس کو دنیا کی آخری بلندی پر پہنچنے کا اس قدر شوق تھا کہ اس نے اپنے کامیاب خاندانی کاروبار تک کو اپنے شوق پر قربان کر دیا۔اس نے اپنا تمام سرمایہ خرچ کر کے ایک ذاتی سیکنڈ ہینڈ ہوائی جہاز خریداوہ انگلستان سے ہندوستان تک چھ ہزار میل کا سفر طے کر کے پورنیہ میں اترا۔اسے اس مقام سے آگے جہاز لے جانے کی اجازت نہ ملی تو اسنے اپنا جہاز فروخت کر دیا۔اس کے بعد اس نے تبت کے راستے ایورسٹ کی طرف سفر شروع کر دیا۔آخر میں اس کے پاس ایک چھوٹا خیمہ کچھ چاول ا یک خود کار کیمرہ اور چند دوسری چیزیں رہ گئیں۔تا ہم اس نے ہمت نہ ہاری وہ چڑھتا رہا21 اپریل1934کو اس کی 36ویں سالگرہ تھی۔اس کا منصوبہ تھا کہ وہ اپنی زندگی کے اس تاریخی دن کو ایورسٹ کی چوٹی پر کھڑا ہو گا۔19500فٹ کی بلندی وہ طے کر چکا تھا صرف تیرہ ہزار فٹ کا اور سفر باقی تھا۔اس کے بعد موسم نے کروٹ بدلی ہمالیہ کا سخت برفانی طوفان اور موسم کی شدت اس کی راہ کی رکاوٹ بن گئے۔وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گیا ۔وہ اپنے نچلے ٹھکانے پر آگیا۔لیکن اس کے بعد اس دوبارہ اوپر چڑھنا نصیب نہ ہوا۔اس کے ساتھ کیا پیش آیا کسی کو معلوم نہ ہو سکا ۔ایک سال بعد نن زنگ نارگے نامی کوہ پیما اوپر چڑھ رہا تھا کہ اس کو ایک مقام پر ولسن کی لاش اور اس کی ڈائری ملی۔ولسن کا ایورسٹ کو فتح کرنے کا خواب پورا نہ ہو سکا مگر وہ کئی اور لوگوں کو اس سفر کی راہ دکھا گیا۔میں ولسن تو نہیں بن سکتا تھا کیونکہ میں کاہل اور سست الوجود پاکستانی ہوں ۔اندیشے میری نس نس میں پلتے ہیں۔لیکن ایک کام تو کم از کم میں کر سکتا تھا وہ یہ کہ ہموار زمیں پر کھڑے ہو کر ان بلند و بالا چوٹیوں کو اپنی نگاہوں سے تسخیر کروں ۔یہ ایک قابل عمل آیےڈ یا تھا۔سو میں نے اس پر ورکنگ شروع کر دی۔یاروں دوستوں کو دعوت دی مگر سب اپنی مصروف زندگیوں میں ایسے مست ملے کہ میرا ساتھ تو کیا دیتے الٹا مجھے ہی سمجھانے لگے کہ میاں کہاں دھکے کھانے پیسے ضائع کرنے چلے ہو۔الیاس صاحب وہ بزرگ نما جوان تھے کہ جنہوں نے لبیک کہااور میرا ساتھ بھی دیا ۔ہم سات دن کے ٹور پر ایک کلب کے ساتھ پچھلے سال اگست میں روانہ ہوئے سفر جوں جوں منزل کی طرف بڑھتا جا رہا تھا ایک خواب پرت در پرت کھلتا جا رہا تھا۔زندگی کی 35 مصروف بہاریں گزارنے کے بعد میں خود کو قدرتی بیوٹی کے درمیان پا کر خوش بھی تھا اور دکھی بھی۔خوش اس بات پر کہ چلو دیر آید درست آید جوانی میں ہی مجھے اس قدرت کے اوجھل دروازے کا پتا تو چل گیا۔دکھی اس بات پر کہ میں نے صبح سے شام کے چکر میں مصروفیت کے رہٹ کو کھینچ کر زندگی کی پینتس بہاروں کا بیڑا غرق کر دیا۔سنا تھا کہ پاکستان بہت خوبصورت ہے جب دیکھا تو یہ راز فاش ہوا کہ پاکستان سنے ہوئے سے بھی لاکھ درجہ زیادہ خوبصورت ہے۔دن کم تھے سات دن میں تو خالی دریائے سندھ کے نظارے آدمی جی بھر کر نہیں دیکھ سکتا۔رہے ہنزہ فیری میڈوز دیوسائی تو ان کے حسن کو ایکسپلور کرنے کے لئے تو فرصت کے مہینوں کی ضرورت ہے۔حسین خواب بہت مختصر ہوتے ہیں سات دن ہنستے گاتے جھومتے جھامتے گذر گئے کئی نئے دوست ملے۔میں تو کہوں گا کہ زندگی کو جینے کا ایک نیا طریقہ اور سلیقہ سیکھنے کو ملا۔آپ کو شاید مبالغے کا گمان ہو یہ سن کر کہ واپس آکر دو ماہ تک روٹین کی مصنوعی اور بناوٹی زندگی میں میرا دل ہی نہیں لگ پایا۔اب موسم کھل رہا ہے تو دل پھر سے مچل رہا ہے۔آپ بھی زندگی میں فرصت نکالنے کی عادت ڈالیں۔بہت کچھ ہے جو آپ کی نظروں سے اوجھل ہے۔بہت کچھ ہے جو آپ کا منتظر ہے۔کئی آبشار اور جھرنے آپ کے لئے شور مچاتے گنگناتے بہہ رہے ہیں کہ کب آپ آئیں اور اور ان کی روانی کو دیکھیں۔دنیا دیکھنے کے خواب پالنے کی بجائے اگر ہم اپنے ملک کو ہی دل کھول کر دیکھ لیں تو سمجھیں کہ دنیا گھوم لی۔میں آپ کے اندر کے انسان کو جگانے کی کوشش کر رہا ہوں۔اگر میری تحریر بڑھ کر کوئی ایک بھی جاگ گیا اور راہ پر چل نکلا تو میرے سب لفظ اپنی قیمت ادا کر گئے۔آپ جوان ہیں مرد ہیں عورت ہیں یا بزرگ ہیں اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ دل جوان ہونا چاہئے۔ہم اس فقرے کو ہمیشہ غلط موقع پر ادا کرتے ہیں ۔سو طرح کی رکاوٹیں آپ کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کریں گی۔یہ یاد رکھیں کہ یہ رکاوٹیں کوئی ایورسٹ جتنی بلند نہیں ۔آپ کا ایک قدم دوسرے ہی لمحے آپ ان خود ساختہ رکاوٹوں کے ریتلے ٹیلوں کو عبور کر کے نانگا پربت کے سامنے کھڑے ہوں گے۔خدا کی صناعی کو دیکھنے کی ترغیب دینا بھی ایک صدقہ ہے۔ہم سب وہ لوگ ہیں جو خواب تو دیکھتے ہیں مگر خوابوں کی دنیا کی طرف سفر کبھی نہیں شروع کر پاتے۔کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو نہ صرف خواب دیکھتے ہیں بلکہ خوابوں کی دنیا کے سفر پر نکل بھی کھڑے ہوتے ہیں۔زندگی بہت غیر یقینی ہے مگر انساں اس کو کس قدر یقینی سمجھ لیتا ہے۔آخر میں یہی حسرت زدہ شعر رہ جاتا ہے۔
چار دن کی زندگی تھی
جی لیا جاتا تو کیا برا تھا۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے
The world is a book ,and those who donot travel read only a page.
Muhammad Rizwan Khan
About the Author: Muhammad Rizwan Khan Read More Articles by Muhammad Rizwan Khan: 24 Articles with 18183 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.