درد ہوتا ہے مگر جانے کہاں ہوتا ہے

درد کا تعین علاج کی جانب پہلا سنگ میل ہوتا ہے۔پھر معالج اس بیماری کی تشخیص کر کے اس کا تدارک کرنے لگ جاتا ہے۔ اپنے معاشرے کا بگاڑ بہت بڑھ گیا ہے۔ انسانوں کی بستیوں میں بعض ناسور اس انداز میں پروان چڑھ رہے ہیں کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ انسانی فکر عجیب و غریب کیفیت سے دوچار ہوتی جا رہی ہے۔ ہر طرف مایوسی اور پریشانی کا عالم ہے۔ ظلم و جبر کی نئی سے نئی تر داستانیں تاریخ کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ معاشرے میں ہر سطح پر نا انصافی کا بول بالا ہے۔ معاشرتی اقدار پامال نظر آتی ہیں۔ برائیاں گلی کوچوں میں روح مجسم کی طرح یوں گھومتی نظر آتی ہیں ، گویا ان کو دائمی آزادی ملی ہوئی ہے۔ جبکہ دوسری جانب عدل معاشرے کے ہاتھوں سے ریت کی مانند سرکتا جا رہا ہے۔ اخلاقیات کا جنازہ تو ہرروز بڑی دھوم دھام سے نکلتا ہے۔ نظریات اب مادہ پرستی کی دبیز سطح کے نیچے دفن ہو چکے ہیں۔

گویا اس مجروح معاشرے کے کس کس پہلو پر بحث کی جائے ، کس بیماری کا علاج کیا جائے ، کس درد سے چھٹکارا پانے کی تدبیر ہو؟ کیوں کہ درد ہوتا ہے مگر جانے کہاں ہوتا ہے……؟ معلوم ہی نہیں!

بیمار معاشرے کے درد کا ادراک نہیں ،یہ انتہا کی طرف گامزن ہے۔ بدن کے انگ انگ میں اس کا اثر ہے۔ نئے دیکھنے والے شاید اب اصل وجود کو پہچان بھی نہ سکیں۔ اس کے مختص وجود کی پہچان ممکن نہیں رہی۔ ہاں البتہ درد کی چند وجوہات کو بیان کیا جا سکتا ہے کہ یہ کیوں لاعلاج ہوتا جا رہا ہے، بیماری کیوں پھیلتی جا رہی ہے، اور اس کا ماخذ کیا ہے۔ ان وجوہات کو جاننے کے لیے ہمیں اپنے ماضی اور حال کا موازنہ کرنا پڑے گا۔ ماضی کی بجھی راکھ کریدنے سے ہاتھ میں تو کچھ آنا ممکن نہیں، البتہ اس دھندلکے ماضی سے روشنی کی ایک مدہم سی لکیر پھوٹ رہی ہے اور یہی وہ روشنی ہے، جو ہماری معاشرتی بیماریوں کی وجوہات کو سمجھنے میں مدد کرسکتی ہے۔

جی ہاں یہی وہ ماضی ہے جوہمیں اپنے اسلاف ،اپنی تہذیب و تمدن، نظم و نسق، امن و چین یاد دلاتا ہے۔ اور یہی ماضی کی تاریخ جس کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں علم ہوتا ہے کہ ہماری پہچان کیا تھی، ہماری عزت و عظمت کیا تھی؟اور ہم کیا سے کیا ہوگئے۔آج ہم ان ساری خوبیوں سے کتنے دور نکل چکے ہیں۔ آج اس دہشت زدہ دور میں ہمارے فہم تذبذب کا شکار ہیں کہ کبھی ہمارا ماضی اتنا شاندار اور پر رونق ہوا کرتا تھا، جہاں نہ ظلم ہوتا تھا اور نہ ظلم سہا جاتا تھا۔ جہاں کسی کا حق چھینا جاتا تھا نہ چھیننے دیا جاتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ ہماری تاریخ عظیم اور مقدس جدوجہد سے متماثل تھی اور شاید یہی ماضی کی چنددھندلکی لکیریں ہمارے معاشرے کی روح کو دوبارہ بیدار کر سکیں۔ دو سال پہلے اس کی چند باتیں ذہن کی اسکرین پر جلوہ گرہوکر کہتی تھیں ’’بیٹا راستہ بند تھا، ضروریات زندگی کی چیزیں ختم ہو گئی تھیں، دیار غیر میں رشتہ دار، گھر، احباب سے دور پردیس کا احساس تھا۔ شہر کی کھلی فضامیں سسکتے، آہوں اور پر نم آنکھوں کے ساتھ زندگی گزارتی تھی۔ بھوک اور پہاڑ کے سائے تھے۔ زندگی اداس کٹتی تھی، کبھی کبھی شہر میں موجود ایک دور کے رشتہ دار خیال رکھتے تھے، تُو کمسن تھی چیختی چلاتی رہتی تھی۔‘‘

امی اپنے ماضی کی یادوں کو تازہ کر رہی تھی۔ میں ان کی بات کو کاٹتے ہوئے پوچھنے لگی ’’امی میری پیدائش کس دن ہوئی تھی؟‘‘ وہ کہنے لگیں 23 مارچ۔ 23 مارچ! چونکہ تاریخ میں ایک اہم واقعہ رونما ہو تا ہے۔مجھے یاد ہے میں ذرا اس دن کے اس اہم واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگی ’’امی! اس دن تو ابو القیم مولوی فضل الحق نے اقبال پارک لاہور میں قرارداد پاکستان نہیں کیا تھا؟‘‘ امی میری بات کو کاٹتے ہوئے پھر گھریلو امور پر متوجہ کرتے ہوے کہنے لگی ٹائم ختم ہوگیا، دکانیں بند پڑی ہیں، کھانے کو کچھ بھی نہیں اب کیا کِیا جائے۔ گویا ایک سکتے کا عالم چھاگیا۔ میں سوچنے لگی اب بھی اپنے بچپن کی طرح چیخنا چلانا شروع کروں؟ یا پھر۔۔۔۔۔

دو سال پرانی! امی کی ماضی کی کہانیاں آج کیوں یاد آ رہی ہیں۔۔۔؟ کیوں کہ آج بھی 23 مارچ ہے میری برتھ ڈے ہے۔کتنا عجیب خیال ہے خیالات تو آتے ہیں کہ میں ارضِ پاک کے لیے کچھ کروں۔ اس مقدس ملک سے بے حیائی، فحاشی، بے پردگی دور کروں۔ اس ملک کو دہشت گردی،خوف،مہنگائی سے نکال دوں۔ اپنی پیدائش والے دن کو میں اپنے پیارے وطن کے لیے کچھ اچھا کروں اور کرتی رہوں۔ لیکن کیا کروں؟ یہاں تو خواہشات کے گلے دبائے جاتے ہیں۔ عزائم ٹکڑے ٹکڑے کیے جاتے ہیں۔ کس کی مجال ہے اس پاک وطن کے لیے کچھ کرے۔ اگر کرے تو ارفع کریم، عافیہ صدیقی، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور نہ جانے کتنے ایسے محب وطن ہیں جن کے راستوں کو خون آشام شاموں سے بھر دیا گیا۔ اب توخیالات کا اظہار کرنے سے بھی خوف آتا ہے ۔ اس مقدس زمین کے اوپرایسی ہزاروں تحریکیں، جماعتیں، قاتلوں کے گروہ پھرتے ہیں کہ اگر خیالات ان کے خلاف جائیں تو وارثوں کو لاش بھی ملنا مشکل ہوتی ہے۔اس وقت عوام مہنگائی، بد امنی، غربت اوربے روزگاری کے جال میں جکڑی جاچکی ہے۔مسائل کے باعث ہی یہ اضطراب کی فضاء قائم ہے۔ جب کہ یہ عوامی اضطراب اس لیے بھی ہے کہ میاں نوازشریف اور شہباز شریف نے گزشتہ انتخابات کی مہم کے دوران عوامی مسائل حل کرنے، توانائی کے بحران سے نجات دلانے اور خوشحالی و پر امن معاشرہ تشکیل دینے کے بلند بانگ دعوے کئے اور انہیں ان تمام مسائل سے نجات دلانے کا یقین دلایا تھا۔عوام چونکہ پیپلز پارٹی کے دور ِ حکومت کے پید کردہ روٹی، روزگار اور توانائی کے بحران کے سنگین مسائل بھگت رہے تھے اس لیے انہوں نے اپنے مسائل سے خلاصی کے لیے میاں نواز شریف کے وعدوں دعووں کے بنیاد پر ان کی باتوں پر اعتماد کیا اور پولنگ کے دن سابق حکمران پیپلز پارٹی کو مسترد کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ لیکن اسر رسوخ والوں کے اکاؤنٹ بھرتے جا رہے ہیں۔ملک کے کئی عہدوں پر ان کے بزنس ہیں۔ انہی کے چاہنے والے نوکریاں کرتے ہیں۔ آج ہمارے وطن میں سفارش اور رشوت کے بغیر کچھ بھی نہیں چلتا۔ یونیورسٹی، کالج میں ایڈمیشن سے لے کر روزگار کی راہوں تک۔آخران کی غلطی کیاہے جن کو رب نے ذہن تو دیا، صلاحیتیں، ہنر دیا لیکن سفارش کرنے والے نہیں عنقا ہیں۔

امیروں نے خزانوں کی تجوریاں بندکر رکھی ہیں۔ اب ان سے حساب لینے والا بھی کوئی ہے؟ حق داروں کو ان کا حق اور انصاف فراہم کرنا کن کی ذمہ داری ہے؟ کیا ان لیڈروں کی نہیں جو اپنی پارٹی کی کامیابی کی راہ ہموار کرنے کے لیے عوام کو اپنے پارٹی منشور کی بنیاد پر وعدوں ، وعیدوں کے ذریعے قائل کرنے کا استحقاق حاصل کرتے ہیں۔ان لیڈروں کوں کیا علم ان کو ووٹ دینے کے لیے کتنے ہی لوگ رشتہ داروں سے کٹ جاتے ہیں۔ ان کو کیا احساس کتنی امیدوں کے ساتھ ووٹ کے ذریعے ان کے پلڑے بھاری کیے جاتے ہیں۔ یہ لیڈر تو اپنے بنگلوں کے اندر خوشبوؤں کے قمقے جلا کر، خواب گاہوں میں سکون کی نیند سو رہے ہیں۔ انصاف کہاں سے اور کیسے ملے گا؟ ان غربت زدہ علاقوں میں رہنے والوں کو جہاں کتنے ہی بچے، بچیاں اعلیٰ تعلیم کے خواب دیکھتے دیکھتے بڑھاپے کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں جہاں لوگ روزگار کی تلاش میں چلتے چلتے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتے ہیں۔ ہاں! جہاں کتنے ہی ارض پاک سے محبت کرنے والے اس کے لیے کچھ اچھا کرنے کے بارے میں سوچتے سوچتے ہی جہان فانی کوخیرباد کہہ جاتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ یہاں کوئی رہنمائی کرنے والے نہیں۔ کوئی انگلی پکڑ کر آگے بڑھانے والے نہیں۔ اگر کسی کے اندر ہمت کی موجیں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے آگے بڑھتی ہیں تو ان کے جذبات کو کچل دیا جاتا ہے۔

23 مارچ۔ قرارداد پاکستان کے نکات ہمیں اس بات کی طرف نشان دہی کرتے ہیں کہ یہ ملک کن اصولوں پر بنا تھا۔ آئیے ہم دیکھتے ہیں قرارداد پاکستان میں کیا پاس ہوا تھا اور آج ہم کیا بھگت رہے ہیں۔ کیا ہماری موجودہ حالت کو دیکھ کر ایسا محسوس کیا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں ایک اہم قرارداد، اہم اصول اس ملک میں رہنے والوں کے لیے بنائے گئے تھے۔ آئیے پڑھتے ہیں اس قرارداد کے نکات اور موازنہ کرتے ہیں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں۔ کیا اس قرارداد کی روح بھی ہمیں آس پاس کہیں محسوس ہوتی ہے یا پھر یہ قرارداد صرف کتابوں کی چند سطروں میں نظر آتی ہے۔۔۔

1:ملک کے صرف اس آئین کو قابل عمل اور مسلمانوں کے لیے قابل قبول قرار دیتا ہے جو جغرافیائی اعتبار سے باہم تسل ریجنو کی صورت میں حد بندی کا حامل ہے اور بوقت ضرورت ان میں اس طرح ردوبدل ممکن ہو کر جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت با اعتبار تعداد میں ہو انہیں آزاد ریاستوں کی صورت میں یکجا کر دیا جائے اور ان میں شامل ہونے والی وحدتیں خودمختار اور حاکمیت کی حامل ہوں ۔
٭ تا اب مسئلہ کشمیر کیوں حل نہیں ہو رہا ہے۔
2: ان وحدتوں میں اور ہر علاقائی آئین میں اقلیتوں کا مذہبی، اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی مفادات اور حق کے تحفظ کی خاطر ایسی اقلیتوں سے مشورے کے بعد موثر تحفظات شامل ہوں اور ہندوستان کے ان تمام حصوں میں جہاں مسلمان آبادی کے اعتبار سے اکثریت میں انہیں تحفظ کا یقین دلائے (لیکن! وہاں تو مسلمان کٹتے رہتے ہیں، جل رہے ہیں، لٹ رہے ہیں۔ حیدرآباد، گجرات، پونا خود انڈیا کے شہر میں مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ہو رہے ہیں وہ دنیا سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔)
3: یہ اجلاس مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ ان اصولوں پر مبنی آئین کا لائحہ عمل مرتب کریں جس میں دونوں خطوں کے تمام اختیارات اور دیگر اہم امور کو سنبھالنے کا انتظام کیا جائے۔مگر مجلس عاملہ آج کل کے اقوام متحدہ صرف اور صرف سپر پاوروں کا فیصلہ سنتے ہیں اور یہی فیصلہ آگے پہنچاتے ہیں۔ مظلوم، محکوم اور بے گناہ قیدیوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔قائد اعظم کے فرمان ’’خیالی دنیا سے نکل آئیں اور اپنے دماغ ایسے پروگراموں کے لیے وقف کریں جن سے زندگی کے ہر شعبہ میں ہمارے لوگوں کے حالات بہتر ہو سکیں۔ صرف اس صورت میں ہم اتنے مضبوط اور طاقت ور ہو سکیں گے جو، ان مخالف اور ضرر رساں قوتوں کا مقابلہ کرسکیں جو ہمارے خلاف کام کر رہی ہے۔‘‘

قائد محترم! آج آپ زندہ ہوتے تو دیکھتے اب تو صرف جذبات ابھار کر چھوڑ دیاجاتاہے۔ جذبات کو صحیح معنوں میں استعمال نہیں کرتے لیکن غلط طریقے سے جذبات کی تسکین ہوتی رہتی ہے۔ وطن کے لیے کچھ کرنے کے جذبات کو مار دیا جاتا ہے۔ معاشرے کی خرابیوں کو دور کرکے اچھا معاشرہ بنانے کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ بے تاج بادشاہ معاشرے میں بے حیائی، بے غیرتی اور حق مارنے والوں کو تو برداشت ہوتے ہیں لیکن ان بری چیزوں کو معاشرے سے دور کرنے والوں کو ہرگز برداشت نہیں کرتے۔ پھر دماغ کو خیالی دنیا سے نکال کر کس چیز کے لیے وقف کریں؟

یہ ہے قرارداد پاکستان اور قائد اعظم کا عزم و حوصلہ اور مقام۔۔۔انہیں ہم سب مل کر اس عظیم قائد کے فرمان کولفظا بلفظاپڑھیں اور عمل کریں اور ان تاریخی واقعوں کا بغور مطالعہ کر کے کوئی راہ نکال لیں۔ کس طرح ہمارے بزرگ آباؤ اجداد حالات سے ٹکرائے تھے۔ کس طرح انہوں نے جہد ،مسلسل کے ذریعے یہ عظیم ملک پاکستان ہمیں بنا کر دیا سوچیں۔ہمارے حصے میں تو صرف ان آباؤ اجداد کے بنائے ہوئے اصولوں کی پاسداری کرنی ہے۔ ہمیں کوئی نیا ملک نہیں بنانا بلکہ اسی ملک کے اندر وہ اصول و ضوابط وضع کرنے ہیں۔ وہ انسانی اقتدار کو پروان چڑھانی ہیں جوہمارے ماضی میں ہوا کرتی تھیں۔ آئیں ہم سب مل کر اس مادر ملت کو اس کی منزل کی جانب رواں دواں کریں۔ہم سب اپنی خودی کو بدلیں۔ کیوں کہ جو اپنے آپ کو بدلتے ہیں تو ان کی دنیا خود بخود بدل جاتی ہے۔
Muneeba Sharif
About the Author: Muneeba Sharif Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.