حق اور باطل کی پہچان۔۔(2)
(Muhammad Rafique Etesame, Ahmedpureast)
یہ اس مضمون کی دوسری قسط ہے اس میں حق کو
پہچاننے کی نشانیاں اور انکی مختصر تشریح بیان کی گئی ہے۔
حق کو پہچاننے کی چند نشانیاں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ چیز حق ہے
مثلاً:۔
(۱)حق وہ ہے جو سینے میں ٹھندک پیدا کردے۔
(۲)حق بے نیاز ہے جو بے نیاز نہ ہو وہ حق نہیں ہو سکتا۔
(۳)حق کا کام چھپنا نہیں بلکہ ظاہر ہونا ہے۔
(۴)حق کا کام جھکنا نہیں بلکہ جھکا دینا ہے۔
(۵)کائنات میں سب حق ہی حق ہے باطل تو انسان کے اندر ہے۔
انکی مختصر تشریح درج ذیل ہے:۔
حق وہ ہے جو سینے میں ٹھندک پیدا کردے، اسلامی تعلیمات جو سراسر حق ہیں ان
پر عمل کرنے سے دلوں کو سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے اور سینے میں ٹھنڈک و
تازگی کا احساس پید اہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے’’جان لو! اللہ کے ذکر
سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘(القرآن)اور ذکر کی کئی صورتیں ہیں مثلاً
نماز روزہ ،زکوٰۃ ،حج،نوافل،تسبیح،تحمید، تہلیل اور تکبیر وغیرہم۔
لہٰذا جب بھی کوئی مسلمان نماز ادا کرتا ہے، روزہ رکھتا ہے، زکوٰۃ ادا کرتا
ہے یا حج کی ادائیگی کیلئے جاتا ہے تو اسے سکون و اطمینان کی وہ لازوال
دولت نصیت ہوتی ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا اس آیت کی تفسیر میں
لکھا ہے کہ اگربادشاہوں کو یہ پتہ چل جاتا کہ رات کو جاگنے اور نماز تہجد
کی ادائیگی میں کیا مٹھاس اور لذت قلبی حاصل ہوتی ہے تو وہ انھیں ذاکرین سے
چھیننے کیلئے ان سے اسی طرح لشکر کشی کرتے جیسے وہ دوسرے بادشاہوں سے کرتے
ہیں۔
گرمیوں کے رمضان المبارک میں جبکہ تپش اور لو سے طبیعت بے چین ہوتی ہے لوگ
روزے رکھتے ہیں حتی کہ شوگر کے وہ مریض جنہیں ڈاکٹر نے روزہ رکھنے سے منع
کیا ہو وہ بھی اپنی مرض کی پرواہ نہ کرتے ہوئے روزہ رکھتے ہیں، اسی طرح
مسلمان مجاہد تلواروں کے سائے تلے اور برستی گولیوں میں بھی نماز نہیں
چھوڑتے اور وہ مریض جو بستر مرگ پر پڑا ہے اگر بول نہیں سکتا تو اشارے سے
یہ کہتا ہے کہ مجھے نما ز پڑھاؤ، سوال یہ ہے کہ اسے کس نے مجبور کیاکہ وہ
اس حالت میں بھی نماز ادا کرے؟
اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ میری ہستی کی بقا اور دوام کا راز نماز کی
ادائیگی میں ہے۔
یہ تمام باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ایک مومن مسلمان کو ذکر الٰہی میں جو لذت و
سکون ملتا ہے وہ اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے اور وہ اسے چھوڑنا نہیں
چاہتا۔ اس کے بر عکس جو لوگ کفر و شرک میں مبتلا ہیں اور اللہ تعالیٰ کی
یاد سے غافل ہیں انہیں کبھی سکون نہیں ملتا اور وہ بے چین ہی رہتے ہیں اور
غم اور تفکرات کی تپش میں جلتے ہی رہتے ہیں۔
(۲)دوسر ااصول حق بے نیاز ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے’’آپ فرما دیجئے کہ اللہ ایک ہے اللہ بے نیاز ہے نہ
اسنے کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا اور نہ کوئی اسکی برابری کرنے
والا ہے‘‘(الاخلاص پ۳۰)
اس سورۃسے اللہ تبارک و تعالیٰ کی شان بے نیازی ظاہر ہوتی ہے اس حیثیت سے
کہ اسے مخلوقات کی حاجت نہیں اور نہ وہ کسی کا محتاج ہے اور اسے اپنے کام
سر انجام دینے میں کسی کی مدد یا مشورہ کی ضرورت نہیں اور وہ اپنی ذات سے
خود ہی قائم ودائم ہے اورتنہا ہر چیز پر غالب ہے۔
اگر تمام دنیا کے لوگ انتہائی نیک پاکباز اور اعلٰی کردار کے مالک بن جائیں
تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی شہنشاہیت اور عزت و جلال میں ذرہ بھر بھی زیادتی
نہیں ہو سکتی اور اسکے بر عکس اگر تمام دنیا کے لوگ اعلیٰ درجہ کے فاسق و
نافرمان بن جائیں تو اسکی شہنشاہیت اورعزت و جلال میں ذرہ بھر بھی کمی نہیں
ہو سکتی ۔ عبادت و عجز و نیاز انسان کے اپنے فائدے اور بقا کیلئے ہے ذات
باری تعالیٰ کو اس سے کوئی غرض نہیں اسکی عبادت کیلئے تو فرشتے ہی کافی
ہیں۔
اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے بعض انسانوں کو بھی اس صفت سے ممتاز کیا ہے۔
عام طور پر جو شخص رزق حلال کماتا ہے، نماز پنجگانہ ادا کرتا ہے اور اپنے
حقوق و فرائض میں کوتاہی نہیں کرتا اس میں یہ صفت ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ اور
اسکی مزید تشریح اس طرح پر ہے کہ بزرگان دین اور مشائخ نے اپنے پیرو کاروں
کو چار کام کم کرنے کا حکم دیا ہے یعنی تقلیل طعام(کم کھانا) تقلیل منام(کم
سونا) (تقلیل کلام (کم بولنا) اور تقلیل اختلاط مع الانام یعنی لوگوں سے کم
ملنا جلنا،یہاں چوتھے کام کے بارہ میں بحث کی جائے گی۔
حکیم الامّت مولانا اشرف علی تھانویؒ اپنی کتاب شریعت و طریقت میں اس بارہ
میں لکھتے ہیں’’ کسی نے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلّم! سب سے
افضل شخص کون ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ جو اپنی جان و مال سے جہاد کرنے والا
ہو سوال کیا گیا پھر کون افضل ہے فرمایا وہ شخص جو(پہاڑ) کی گھاٹیوں میں سے
کسی گھاٹی میں رہتا ہو، اللہ سے ڈرتا ہو اور خلق کو اپنے شر سے فارغ
رکھتاہو ( بخاری، مسلم، ترمذ ی ونسائی نے روایت کیا)
تشریح میں لکھتے ہیں کہ اکثر اللہ والوں کی عادت رہی ہے کہ خلق سے اختلاط
کم رکھا اور گوشہ نشین رہے اس حدیث سے اسکی اجازت اور ایک درجہ فضیلت ثابت
ہوتی ہے اور اس حدیث میں اس کے محل کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جب اختلاط میں
شر الی الخلق کا ہو اور اسی پر قیاس کیا جاوے گا وصول شر من الخلق کو اور
نیز حدیث میں مذکور ہی میںیہ اشارہ بھی ہے کہ جس شخص سے خیر و نفع عام ہو
اور زیادہ متوقع ہو اس کیلئے اختلاط (یعنی لوگوں سے ملنا جلنا) افضل ہے اور
تحقیق مسئلہ کا خلاصہ یہی ہے کہ جس شخص مسلمانوں کو نفع پہنچتا ہو اس کیلئے
جلوت بہتر ہے اور جس سے نفع متعلق نہ ہو اور جلوت میں احتمال اضرارو ضرر
پہنچانے یا تضرر (ضر پہنچنے) کا ہو اس کیلئے خلوت بہتر ہے‘‘(شریعت و طریقت
ص:۲۵۴)
ابھی آپ نے حضرت تھانویؒ کے ارشادات ملاحظہ کئے کہ اللہ والوں کیلئے حسب
حال اگرچہ خلوت و جلوت دونوں کی اجازت ہے مگر غالب رجحان جس طرف ہے اسکا
اظہار انھوں نے کر دیاہے کہ ’’ اکثر اللہ والوں کی یہ عادت رہی ہے کہ خلق
سے اختلاط کم رکھا اور گوشہ نشین رہے‘‘ ا ن میں ایسے بزرگ بھی ہیں جو اس
بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ کسی کوانکی حقیقت کا پتہ چلے کہ وہ کون ہیں؟
اور نہ ہی وہ دوسروں سے کوئی غرض یا مطلب رکھتے تھے اور زبان و دل کے سوال
سے بچتے تھے کیونکہ کسی غرض یا مطلب کو پورا کرنے کیلئے دوسروں کے آگے
جھکنا اور انکی خوشامد کرنا پڑتی ہے جو بے نیازی کی صفت کے خلاف ہے۔
(۳)تیسرا اصول’’حق کا کام چھپنا نہیں بلکہ ظاہر ہونا ہے‘‘۔مقصد یہ ہے کہ
انسان اگر کسی حقیقت کو چھپانا چاہے تو وہ چھپ نہیں سکتی بلکہ ظاہر ہو جاتی
ہے کہ........
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خو شبو آنہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر باطن میں کچھ اور ہے اور ظاہر میں کچھ اور، تو باطن میں وہ جو
چیز چھپا رہا ہے وہ ظاہر ہو کر رہتی ہے چاہے اسے چھپانے کی کتنی کوشش ہی
کیوں نہ کی جائے، اسکی حرکات و سکنات، چال ڈھال اور بولنے کا انداز باطن کی
چغلی کھاتا ہے اور دیکھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ کوئی بات ہے جو چھپائی جا
رہی ہے۔مثل مشہور ہے کہ ’تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں‘۔ اگر کسی شخص
کے کسی سے خفیہ تعلقات ہیں تو جب وہ ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں تو بات چیت
اور باہم دیکھنے کا انداز فوراً بتاتا ہے کہ ان دونوں درمیان کچھ ہے
کہ.....
عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے
اسی طرح خون کبھی چھپ نہیں سکتا قاتل کا ایک نہ ایک روز پتہ چل جاتا ہے
ایسا شاذ ہی ہوتا ہے کہ قاتل کا پتہ نہ چل سکے بقول شخصے
.....جو چپ رہے گی زبان خنجر۔۔۔ لہو پکارے گا آستیں کا
اور چہرہ بہت کچھ بتاتا ہے انسان کی اندرونی کیفیّت کو اسکے چہرہ پر ملاحظہ
کیا جاسکتا ہے کیونکہ آنکھیں روح کا دریچہ ہیں۔
بات یہاں سے چلی تھی کہ انسان کے متعلق جو جملہ حقائق ہیں وہ کبھی چھپ نہیں
سکتے اور ظاہر ہو کر رہتے ہیں سوال یہ ہے کہ جو حقیقتیں اس دنیا میں ظاہر
نہیں ہو سکیں کیا ان کے اظہار کا کوئی اور موقعہ بھی ہے؟
مثلاً اگر کسی نے کسی پر کوئی ظلم کیا،کسی کا حق دبایا یا کسی کے ساتھ
بھلائی کی یا اسکی داد رسی کی یا عبادت و ریاضت کی تو کی انکا رد عمل ظاہر
ہوگا؟
اسی طرح وہ لوگ جن پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں اور انکی فریاد سننے والا
کوئی نہیں اور انھیں انصاف نہیں ملتا، تو کیا انہیں انصاف ملے گا یا نہیں؟
تو از روئے شرع ضرور ملے گا! کیونکہ روز حساب (قیامت اسی لئے ہے جس دن بد
کاروں اور نیکو کاروں کو انکے کئے کا پورا اجر ملے گا اور رتی رتی کا حساب
ہو گا اور احکم الحاکمین کے دربار سے تمام لوگوں کو انصاف ملے گااور کسی
پرظلم نہیں کیا جائے گا۔ فرمان الٰہی ہے’’ سو جسنے کی ذرہ بھر بھلائی وہ
دیکھ لے گا اور جس نے کی ذرہ بھر برائی وہ دیکھ لے گا اسے‘‘( الزّلزال:۸)
تفسیر میں لکھا ہے کہ ہر ایک کا ذرہ ذرہ عمل بھلا ہو یا برا اس کے سامنے
ہوگا اور حق تعالیٰ جو معاملہ ہر ایک عمل کے متعلق فرمائیں گے وہ بھی
آنکھوں سے نظر آئے گا۔
لہٰذا جو لوگ اس خیال میں ہیں کہ کسی پر ظلم کرنے کے باوجود مواخذہ سے بچ
جائیں گے، یا کسی کا حق دبا لینے سے انہیں کوئی پوچھنے والا تو وہ خوش فہمی
و خوش فریبی میں مبتلا ہیں کیونکہ وقت آیا ہی چاہتا ہے جس دن وہ سب حقیقتیں
ظاہر ہو جائیں گی جنہیں دنیا میں چھپایا گیا تھا۔
(جاری ہے) |
|