تحفظ ناموسِ رسالت آرڈیننس کا دفاع وقت کی اہم ضرورت
(Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi, Narowal)
اﷲ تعالیٰ نے محسن انسانیت ،رحمت عالم ،شاہکار
قدرت حضور سرور کونین ﷺ کو وہ بلند و برتر ،عظیم ورفیع مقام عطا فرمایا جس
کانہ عقل ادراک کر سکتی ہے اور نہ زبان اسے بیان کر سکتی ہے ۔آپ ﷺ کی عظمت
و رفعت کے آفتاب و ماہتاب توریت ،زبور ،انجیل ، قرآن کریم اور انکے علاوہ
تمام صحائف سماویہ و کتب الہٰیہ میں چمک د مک رہے ہیں ۔
جملہ کمالات جو تمام انبیائے کرام و رسل عظام علیہم السلام میں الگ الگ تھے
اﷲ تعالیٰ نے ان سب کو اپنے حبیب حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ میں جمع فرما دیا اور
اس کے علاوہ ان کمالات اور خوبیوں سے نواز ا جس میں کوئی آپ کا شریک و
برابر نہیں ۔بقول اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں محدث بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ
’’تجھے یک نے یک بنایا‘‘
ان تمام کمالات و خصائص میں سے ایک خصوصیت و کمال آپ کا رحمۃ اللعالمین
ہونا ہے ،یوں تو رحمۃ اللعالمین کا لفظ مختصر ہے مگر اپنے دامن میں پوری
کائنات لئے ہوئے ہے ،اس وصف میں آپ ﷺ کی عظمتوں ،رفعتوں کا جو اظہار ہے وہ
پوشیدہ نہیں ،اس میں نہ زمان کی قید ،نہ مکان کی اورنہ ہی یہ کسی وصف سے
مقید ہے ،جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تمام مخلوقات ہر زمان و ہر مکان میں ہر
طرح سے آپکی رحمت کی محتاج ہیں اور کوئی آپکی رحمت سے مستغنیٰ نہیں ہو سکتا
اور یہ حقیقت ہے کہ پوری کائنات آپکی رحمت کے گھنے سائے میں بڑے اطمینان و
سکون کیساتھ اپنی زندگی کے ایام گزار رہی ہے ۔
آپکے رحم و کرم و فضل و احسان کی بارش سب پر ہوئی خوب ہوئی اور ہو رہی ہے ۔کوئی
بھی اس سے محروم نہیں ،بنی نوع انسانی بھی اس سے محروم نہیں بلکہ اس پر تور
سول اﷲ ﷺکے اتنے کثیر احسانات ہیں جن کو ہم شمار نہیں کر سکتے ۔ذیل میں اس
مخلوق پر آپ ﷺ کے کچھ احسانات بطور نمونہ ملاحظہ کریں ۔
رسول اﷲ ﷺ کی بعثت سے پہلے انسانیت بالکل ذلیل تھی ۔حقیر تھی ۔رذیل تھی ۔خود
انسان کی نظر میں انسانیت کی کوئی قدر و منزلت نہ تھی ،اس کی پستی و خواری
کا یہ حال تھا کہ بہت سے حقیر و ذلیل حیوان اسکے مقابلے میں عزیز و محترم
تھے انکی حفاظت و نگہداشت کا تو اہتمام تھا مگراس اشرف المخلوقات کا احترام
و وقار نہیں ۔
اس کا خون تو ہر شئی سے ارزاں تھا ،معمولی باتوں پر ہزاروں کاکون بہہ جانا
کوئی معنی نہیں رکھتا تھا ۔کبھی اسے کسی دیوتایا حیوان کی بھینٹ چڑھایا
جاتا تو کبھی رقص و سرور کی محفل میں اسکا خون بہا دیا جاتا ،جبکہ کبھی کسی
ظالم و جابر کے نظام ظلم کو قائم کرنے کے لئے اسے زینہ بنایا جاتا ۔
بہر حال انسانیت ذلت رسوائی ،پستی و خواری کی اس انتہاء پر تھی کہ رسول اﷲ
ﷺ کی بعثت ہو جاتی ہے اور انسانیت آپ ﷺ کے طفیل پستی و خواری کے اس قہر
مذلت سے نکل کر عزت و عظمت ،شرافت و کرامت کے اوج پر پہنچ جاتی ہے بالفظ و
دیگر ثریٰ سے ثریا پر پہنچ جاتی ہے ۔
کل تک انسانیت ذلیل تھی ۔حقیر تھی اور آج رسول اﷲ ﷺ کے طفیل اشرف المخلوقات
کا خطاب پاتی ہے :’’اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور ان کو خشکی و
تری میں وارد کیا اور ان کو ستھری چیزیں روزی دیں اور ان کو اپنی بہت مخلوق
سے افضل کیا ۔‘‘کی ندائے ربانی سنتی ہے کہ جس سے خلق کثیر پر اسکی فضیلت
اور بر تری ثابت ہو رہی ہے ۔
کل تک انسانیت کا نہ کوئی مقام تھا اور نہ کوئی حیثیت ۔یہ انسان بہت سے
حقیر و ذلیل جانوروں کے مقابلے میں بھی ذلیل و حقیر تھا ۔مگر آج رسول اﷲ ﷺ
کے طفیل اعلان ربانی ہوتا ہے : وھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا۔’’وہی
ہے جس نے تمہارے لئے بنایا جو کچھ زمین میں ہے ۔‘‘
پھر تو اسے اس بات کا احساس و ادراک ہو جاتا ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی سب سے
عزیز ترین مخلوق ہے اور کرۂ ارض کی ہر شئی یہ عالم نباتات و جمادات و
حیوانات سب کے سب اسی کی خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ۔کل تک انسان کا خون
ہر شئے سے ارزاں تھا اور آج ہر شئے سے گراں اور قیمتی ہو گیا یہاں تک کہ
ایک شخص کو ناحق اور فسادفی الارض کے بغیر قتل کرنا پوری انسانیت کے قتل
کرنے کا اور ایک شخص کو جلا دینا پوری انسانیت کو جلادینے کے مترادف ہو گیا
۔شریعت مطہرہ کا مطالعہ کریں آپ پر واضح ہو جائے گا کہ خون تو خون شریعت
مصطفوی ﷺ نے انسان کے ایک ایک عضو کو محترم و مکرم قرار دے دیا ہے اب اسکے
چہرے کا مثلہ بنانا اور اس کی شبیہ بگاڑنا تو بڑی بات دور کی ہے۔اسکے چہرے
پر مارنا جرم قرار پا گیا ۔اسکے جسم کے کسی حصے کی بیع یا اس سے کسی طرح کا
فائدہ اٹھانا حرام کر دیا گیا ۔ذراآپ شریعت کی زبان میں اس کی دلیل تو
دیکھیں ۔
آپ ذرا ! اس حدیث شریف کو پڑھیں کہ :’’اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے
ابن آدم ! میں بیمار ہو تا تو نے میری عیادت نہیں کی ابن آدم کہے گا کہ اے
میرے رب ! میں تیری عیادت کیسے کرتا جب کہ تو رب العالمین ہے اﷲ تعالیٰ
فرمائے گا کیا تجھے نہیں معلوم کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو تونے اس کی
عیادت نہیں کی ،کیاتجھے نہیں معلوم کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے
اسکے پاس ضرور پاتا ،اے ابن آدم ! تجھ سے میں نے کھانا مانگا تو تونے مجھے
کھانا نہیں کھلایا ،ابن آدم کہے گا: کہ اے میرے رب ! میں تجھے کھانا کیسے
کھلاتا جب کہ تو رب العالمین ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کیا تجھے معلوم نہیں
میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تو تونے اسے کھانا نہیں دیا ۔کیا
تجھے نہیں معلوم کہ اگر تو اسے کھانا دیتا تو اسے تو میرے پاس ضرور پاتا ،اے
ابن آدم !تجھ سے میں نے پانی مانگا تو تو نے مجھے پانی نہیں دیا ۔ابن آدم
کہے گا! اے میرے رب ! میں تجھے پانی کیسے دیتا جب کہ تو رب العالمین ہے ،اﷲ
تعالیٰ فرمائے گا کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تو تونے ا سے
پانی نہیں دیا ،کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسکو پانی دیتا تو اسے تو
میرے پاس ضرور پاتا ۔‘‘(رواہ مسلم)
اس حدیث شریف میں رسول اﷲ ﷺ نے واضح فرمادیا کہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک انسانیت
کا کیا مقام و منزلت ہے ۔یقینا رسول اﷲ ﷺ ہی انسانیت کے وہ عظیم محسن ہیں
جنہوں نے انسانیت کو ثریٰ سے ثریا پر پہنچایا اور اسکو اسکا حقیقی مقام و
منزلت واپس دلایا اسکا خون ہی نہیں بلکہ اس کے ایک ایک عضو کو مکرم و محترم
بنادیا ۔احترام انسانیت و تکریم آدمیت کا عظیم تصور دیا اور یہ واضح کر دیا
کہ انسانیت سے بڑ ھ کر اس کا ئنات ہست و بود کی کوئی شئی نہیں جو اﷲ کے
نزدیک اس سے محترم و مکرم ہو ،یہ انسانیت پر رسول اﷲ ﷺ کا احسان عظیم ہے ،کہ
جس کو انسانیت کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔ آج ہی نہیں بلکہ ہمیشہ اجتماعی
زندگی میں بنی نوع انسان کے درمیان اختلاف اور ٹکراؤ کی صورت پیش آتی رہتی
ہے ۔ جو بسا اوقات سنگین صورت اختیار کر لیتی ہے ۔رسول اﷲ ﷺ نے اس اہم
انسانی مسئلے کو ہر ایک کے حقوق متعین فرما کر حل فرمایا ۔آپ ﷺ کی بعثت سے
پہلے دین و دنیا دو مختلف چیزیں تھیں ۔دونوں کے درمیان سخت ٹکراؤ بڑی کشمکش
اور شدید اختلاف تھا دونوں کبھی یکجا نہیں ہو سکتے تھے ۔یہی حال علم اور
دین کا تھا جہاں علم وہاں دین کا گز ر نہیں اور جہاں دین وہاں علم کا تصور
نہیں ۔آپ ﷺ ہی نے دین و دنیا کی کشمکش دین و علم کا اختلاف محو فرمادیا ۔اب
دین و دنیا کا نہ کوئی ٹکراؤ اور نہ علم و دین میں کوئی تعارض ۔اس چیز نے
انسانیت کے سامنے ترقی کے دروازے کھول دیئے ۔
آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے عورتوں کا کیا حال تھا تاریخ اسلام اور سیرت طیبہ کا
مطالعہ کرنیوالوں سے کوئی بات مخفی نہیں ۔آپ ﷺ نے عورتوں کو ان کا کھویا ہو
امقام و حیثیت واپس دلائی اور انہیں ایساحیاکا کپڑا پہنایا جو انکے قد سے
نہ چھوٹاہے اور نہ ہی بڑا ۔بالکل انکے برابر جس سے انکا حسن اور دوبالا ہو
گیا ۔لہٰذا آپ ﷺ ہی نے انسانوں کے درمیان تفریق و تمیز کی ساری دیواریں
منہدم فرمادیں ،وحدت بنی آدم اور انسانی مساوات کا درس دیا اور واضح الفاظ
میں ارشاد فرمایا:’’اے لوگو ! بیشک تمارا رب ایک تمہارا باپ ایک تم سب آدم
سے ہو اور آدم مٹی سے ۔بیشک تم میں اﷲ کے نزدیک عزیز ترین وہ شخص ہے جو
زیادہ پر ہیز گار ہو ،کسی عربی کو عجمی پر تقویٰ کے علاوہ کسی اور بنا پر
کوئی فضیلت نہیں ۔‘‘
اب رنگ و نسل وغیرہ معیار شرف و کرامت نہیں ،تقویٰ ہی شرافت و کرامت کا
واحد معیار ہے ۔آپ ﷺ ہی انسانیت کو تاریکی سے نور کی طرف اور ہر طرح کی
بندگی اور غلامی سے وحدۂ لاشریک کی بندگی کی طرف تنگ و تاریک قفس جس میں
انسانیت کا دم گٹھتا تھا کھلی فضا کی طرف تمام ادیان اور خود ساختہ نظاموں
کے ظلم سے عدل اسلام کی طرف لائے۔آپ ﷺ ہی نے انسانیت سے وہ طوق سلاسل ہٹائے
جن کو اس نے اپنے اوپر ڈال رکھا تھے ۔اور ان پاکیزہ نعمتوں کو اس کے لئے
حلال کیا جن سے اس نے اپنے آپ کو محروم کر رکھا تھا ۔اس کے لئے گندی چیزوں
کو حرام قرار دیا ۔آپ ﷺ ہی نے اس کے ہر پہلو اور ہر گوشے پر مکمل توجہ دی
اور روح انسان کی تشنگی دور فرمائی ۔اس کے جسم کے فطر ی تقاضوں سے اعراض
نہیں فرمایا۔آپ ﷺ نے انسان کے مقصد حیات کو معدہ و مادہ سے بہت بلند فرمایا
آپ ہی کی تعلیمات کے صدقے اب اسکی تگ و دو ،سعی و کوشش اور جدو جہد ایک
معمولی مقصد یعنی کھانا اور پینا جو صرف حیوانی مقصد ہے ،کیلئے نہیں رہے گی
بلکہ ایک اعلیٰ ترین مقصد و غایت کے لئے ہو گی جو کہ رضائے خدا و رسول ہے ۔آپ
ﷺ نے انسانیت کے سامنے توبہ و انا بت الی اﷲ عزوجل کا دروازہ کھولا جس سے
انسانیت کو روحانی سکون و اطمینان حاصل ہو ،ورنہ تو وہ اس سوچ سے گھٹ گھٹ
کر مرجاتی کہ اس کی بخشش نہیں ۔
آپ ﷺ ہمیشہ انسان کے اس طبقے کا خاص خیال فرماتے ہیں جس کا کوئی خیال نہیں
کرتا ،جس کا کوئی غم گسار و غم خوار نہیں ہوتا ،جس کے حال زار پر کوئی نہیں
روتا ،جس کے غم میں کوئی شریک نہیں ہوتا، جس سے کوئی محبت نہیں کرتا ،جس کو
کوئی اپنے قریب نہیں کرتا ،میری مراد غریبوں اور غلاموں کا طبقہ ہے ۔غریبوں
اور مفلسوں پر اس طرح نظر کرم فرمائی کہ امیروں کے مال میں سے ان کے لئے
حصے مقرر فرمادئیے ،کہ یہ زکوٰۃ ،عشریہ فطرہ یہ سب کس کے لئے ہیں؟ یہ سب
رسول اﷲ ﷺ نے غلاموں وغریبوں کا خاص خیال فرماتے ہوئے امیروں پر لازم
فرمائے ہیں اور غلاموں پر تو اس طرح کرم فرماتے ہیں کہ :’’یہ تمہارے غلام
تمہارے بھائی ہیں جن کو خدا نے تمہارے ما تحت کر دیا ہے تو جس کا بھائی
اسکے ما تحت ہو وہ اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہو اور اسے اسی قسم کا لباس
پہنائے جو خود پہنتا ہو ۔اور مزید فرماتے ہیں کہ ان سے کسی ایسے کام کی
فرمائش نہ کرو ۔جو ان کی طاقت سے باہر ہو اور اگر تم ایسے مشکل کاموں کی
فرمائش کرو تو خود بھی انکی مدد میں لگ جاؤ اور ہاتھ بٹاؤ ۔اور غلام کی
آزادی کا خاص خیال فرمایا ۔کتاب و سنت کا مطالعہ کرنیوالوں سے یہ امر
پوشیدہ نہیں ۔ آپ ﷺ نے انسانیت کو ایسی تعلیمات سے نوازا ،جو اسے ترقی و
خوشحالی و فلاح و کامرانی ،روحانی سکون و اطمینان اور دارین کی سعادتوں سے
بہرہ مند کرتی ہیں ۔
وہ کونسی نعمت ہے اور وہ کون سی نیکی اور بھلائی ہے ۔جو انسانیت کو رسول اﷲ
ﷺ کے درِ پاک سے نہیں ملی ۔یہ اعلیٰ اخلاقی اقدار ،تواضع و انکساری ،حلم و
بردباری ،صدق و صفا ، امانت و قناعت ،صلح و سلامتی ،امن و امان ،خلوص و ﷲیت
،زہد و تقویٰ ،خدا طلبی کا ذوق ،خدا شناسی و خو شناسی کا جوہر ،عالی ہمتی
،بلند حوصلگی ،ضمیر کی بیداری ،عقل انسانی کی آزادی ،حدود الہٰیہ کا احترام
کرتے ہوئے آزادیٔ رائے کا تصور ،عدل و انصاف کی بالا دستی یہ سب کچھ
انسانیت کو آپ ہی کے در سے ملے ۔
یہ قلم و قرطاس ،یہ علمی جستجو و تحقیقات ،یہ علم کے میدان میں دنیاکی تیز
گامی ،یہ اسناد روایت ،یہ صرف و نحو،یہ علم نعت و اشتقاق وغیرہ ۔ یہ سب تو
آپ کی بعثت ہی کی برکتیں ہیں ۔عالم انسانیت پر ابر رحمت کے یہ چند قطرات
تھے جنہیں آپ نے ملاحظہ کیا ۔
یہاں یہ خیال رہے کہ سرور بطحا ﷺ کے رحمت و کرم کا ابر صرف علم انسانیت پر
نہیں برستا ہے بلکہ جس طرح آپ سب کے لئے رحمت ہیں اسی طرح آپ کی رحمت بھی
سب کے لئے عا م و تام ہے اور آپ کا ابر رحمت و کرم سب پر جھوم جھوم کر
برستا ہے ۔ان احادیث کریمہ کو ملاحظہ فرمائیں جس میں رحمت و رافت ، شفقت و
محبت کے جام چھلکتے ہیں ۔جو کسی طبقے قبیلے ملک کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ان
تعلیمات کا ابر کرم سب پر یکساں برستا ہے ۔پوری مخلوق ان سے خوب فیضیاب ہو
رہی ہے ۔سرکار مدینہ ﷺ فرماتے ہیں :’’رحم کرنیوالوں پر رحمن رحم فرماتا ہے
زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔‘‘(ابو داؤد
،الترمذی )
مزید فرماتے ہیں :الخلق عیال اللّٰہ فاحب خلق اللّٰہ من احسن الی عیالہ
۔’’پوری مخلوق اﷲ کا ایک کنبہ ہے اﷲ تعالیٰ کو وہی سب سے پیارا ہو گا جو
اسکے کنبے کیساتھ بھلائی کرے۔‘‘(رواہ البہیقی)
آپ دیکھیں کہ ان تعلیمات میں آپ کا وصف رحمۃ اللعالمین کس قدر درخشندہ و
تابندہ ہے ۔حضور سرور ِ کونین مدنی تاجدار محسن انسانیت رحمت عالم ﷺ کے
انسانیت پر عظیم احسانات کی ایک نہایت ہلکی جھلک دکھانے کے بعد اگر ہم ان
لوگوں سے جن کا ضمیر زندہ ،جن میں رمق انسانیت باقی ،جو اپنے محسن کے حق
میں انتہائی حساس اور غیور واقع ہوئے ہیں ۔یہ پوچھیں کہ ابلیسی نظام کے اس
کارکن کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپنی شقاوت قلبی کی بنا پر اس محسن
انسانیت اور رحمۃ اللعالمین ﷺ کی شان رفیع میں توہین کرتا ہے ۔آپ ﷺ کی خردہ
گیری کرتا ہے آپ ﷺ کی ذات پر رکیک حملے کرتا ہے اور یہ کہ اسکے ردِ عمل میں
کیا ہونا چاہئے ،جب کہ آپ انسانیت پر رسول اﷲ ﷺ کے احسانات دیکھ چکے ہیں
اور آپ یہ دیکھ چکے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ ہی نے احترام آدمیت اور تکریم انسانیت
کا عظیم تصوردیا ہے کہ جسے انسانیت کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی۔
آپ ہی نے انسانیت کو اس قدر بلند فرمایا کہ اس کے اوپر ہم کسی بلندی کا
تصوربھی نہیں کر سکتے ۔
اب تو انسان سے بڑھ کر کوئی مخلوق اﷲ کے نزدیک نہ مکرم ہے نہ محترم ۔اور آپ
ﷺ نے ہی دین و دنیا ،علم و دین کی کشمکش دور فرمائی ،جس سے انسانیت کو بڑ ی
بھلائی ملی اور عظیم فائدوں سے بہرہ ور ہوئی اور آپ ﷺ ہی نے وحدت بنی آدم
،عالمگیر انسانی اُخوت و مساوات کا تصور دیا ہے ۔آپ ﷺ ہی انسانوں کو
تاریکیوں سے نور کی طرف بندوں کی بندگی و غلامی سے خدائے وحدہٗ لاشریک کی
بندگی کی طرف ،دنیا کے تنگ و تاریک قفس سے کھلی فضا کی طرف اور تمام ادیان
و خود ساختہ نظاموں کے و ظلم سے عدل اسلام کی طرف لائے ،آپ ﷺ ہی نے غلاموں
،عورتوں ،غریبوں ،مسکینوں کو انکا حق دلایا اور معاشرے میں انکا مقام بلند
فرمایا ۔آپ ﷺ نے دنیا سے نظام ظلم و استبداد کو مٹایا ۔آپ ﷺ ہی نے انسانیت
کے ان اعضاء کو کاٹ پھینک دینے کی تعلیم دی جو اسکے جسم کے لئے ناسور بن
چکے ہیں ۔جس سے پوری انسانیت محفوظ ہو گئی ۔
آپ ﷺ ہی نے انسانیت کو ہر بھلائی ہر اچھائی ہر بہتری اور ہر خیر سے ہمکنار
کیا ۔آپ ﷺ نے جان بلب انسانیت میں زندگی کی نئی روح پھونک دی ۔کشت زار حیات
کو سر سبز و شاداب فرمایا ۔آپ ﷺ ہی کے صدقے انسانیت پر فصل بہار آئی ۔آپ ﷺ
ہی نے انسانیت کو نئی فکر ، نئی روشنی ،نیا علم ، نیا یقین ،نئی قوت ، نئی
حرارت بخشی ،تو میرا خیال یہ ہے کہ اسکا یہی جواب دیگا جو اسکے ضمیر قلب ،
عقل اور فطرت کی آواز اور انکا فیصلہ ہو گا کہ وہ زبان کھینچ لی جائے جس سے
وہ توہین محسن کائنات ﷺ کر رہا ہے اور وہ ہاتھ توڑ دیئے جائیں جن سے وہ اس
جرم عظیم کا ارتکاب کر رہا ہے ۔نہیں بلکہ اس جرم عظیم و جسیم کی پاداش میں
اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے چیل ،کوے اور گدھو ں کے سامنے ڈال دئیے جائیں
۔اسکے خلاف ہر انسان کی رگ حمیت بھڑکے ،اس کے بحر میں طوفان آئے ،بپھرے بھڑ
کے ،اور اسکے خلاف سراپا احتجاج ہو اور چین نہ لے ،جب تک کہ اسے کیفر کردار
تک پہنچانہ لے ۔اس لئے کہ یہ مسلمانوں کے محسن کی بات نہیں بلکہ کائنات ہست
و بود کے عظیم ترین محسن کی بات ہے ۔
اس زاویئے اور اس لحاظ سے جو کچھ بھی ڈنمارک (Denmark)اور دیگر مغربی ممالک
میں ہوا ۔اور ہو رہا ہے اب تو اُن کی تقلید میں وطنِ عزیز پاکستان میں بھی
ایسے ناقابل برداشت واقعات رونما ہو نا شروع ہو گئے ہیں جن پر احتجاج و
غیرت ایمانی کے اظہار کے بغیر چارہ نہیں ۔جو انتہائی بد ترین گھناؤنا جرم
اور لاتعداد بار مذمت کے قابل ہے ۔جس نے ہر صاحب ضمیر احسان شناس با غیرت
انسان کے دل و دماغ کو ہلا کر رکھ دیا ،اسکے خلاف انسان کے ہر ہر فرد کا
فرض ہی نہیں بلکہ فرض اہم ہے کہ سراپا احتجاج ہو پوری سختی سے اس پر نوٹس
لے ،زبر دست مظاہرے کرے ۔انتہائی سخت انداز میں اسکے خلاف تحریک چلائی جائے
اور حکومتِ گستاخانِ رسالت کو جو اس جرم عظیم وجسیم میں ملوث تھے ایسی سخت
سزا دینے کا مطالبہ کرے کہ تاریخ انسانی اسکی نظیر نہ پیش کر سکے تاکہ پھر
کوئی شیطان انسانیت نہیں بلکہ پوری کائنات کے عظیم ترین محسن کے خلاف
معمولی گستاخی کی جرأت نہ کر سکے کیونکہ دنیا کا صاحب ضمیر ،احسان شناس
،حساس با شعور اور غیور انسان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے مگر کبھی اپنے عظیم
محسن کی ادنیٰ توہین بھی برداشت نہیں کر سکتا۔
موجودہ حکومت کا فرض تھا کہ وہ توہین رسالت آرڈیننس کو اپنے ملک کے ساتھ
ساتھ عالمی برادری میں مؤثر بناتی مگر افسوس صد افسوس کے آج حکومت کے اعلیٰ
عہدیدار اور وزاء و گورنر تحفظ ناموسِ رسالت آرڈیننس کے خاتمے کی باتیں کر
رہے ہیں ۔یہ قانون ختم نہیں کیا جا سکتا ۔کیونکہ اس قانون میں صرف ذات حضرت
محمد مصطفےٰ ﷺ کی ناموس کے دفاع کی بات نہیں ہے بلکہ تمام انبیاء کرام کی
توہین کو ناقابلِ معافی جرم قرار دیا گیا ہے ۔حکومت امریکی خوشنودی کے لئے
رضائے خدا و رسول ﷺ کو داؤ پر نہ لگائے بلکہ تحفظ ناموسِ رسالت آرڈیننس کو
اقوام متحدہ سے پاس کروا کر پوری دنیا میں نافذ العمل بنائے ۔ |
|