اسلام اور خانقاہی نظام(قسط نمبر9)
(عمران شہزاد تارڑ, منڈی بہاوالدین)
اگر کوئی شخص مزاروں'خانقاہوں کا سفر کرتا ہے تو وہ ہمارے بیان کردہ واقعات کے ایک ایک حرف کو سچ پائے گا۔ |
|
مکلی- سندھ کے دیگر ولیوں کی حیران کن
باتیں قارئین کرام ! ان درباروں کی پوجا ناممکن ہے جب تک کہ مافوق الفطرت ‘
مافوق الادراک اور دیو مالائی کہانیاں ان صاحبان دربار کے ساتھ وابستہ نہ
کردی جائیں -چنانچہ یہ کام کرامت کے نام پر خوب کیا گیا ہے -اب ان کرامتوں
پر ایک سرسری نظر ڈالئے جو ”تحفتہ الزائرین “ کے نام سے محکمہ اوقاف کے
مولوی محمد طفیل صاحب نے لکھی ہیں اور لوگوں میں مشہور ہیں- اشرفیوں کی
بارش بابا اصحابی کے بڑے فرزندحضرت سید حسن سے ملاقات کے لئے جب کابل کا
امیر آیا تو پیر صاحب نے امیر کابل کے دل کا حال معلوم کرلیا اور پھر
فرمایا:اے امیر تو ہمارے امتحان کےلئے آیا ہے -اور اس کے ساتھ ہی آسمان سے
اشرفیوں کی بارش ہونے لگی اور صحن بھر گیا- انہی پیر صاحب نے جب دریا پار
کیا ‘ آپ کی کتاب جو خادم کے ہاتھ میں تھی‘ وہ دریا میں گر گئی - شاہ صاحب
نے مرید کو دریائے اٹک پر واپس بھیجا اور کہا: دریا کے پاس جاو اور کہو-اے
دریا! سید حسن اپنی کتاب مانگ رہے ہیں-ادھر یہ الفاظ نکلے ادھر کتاب سطح آب
پر نمودار ہوگئی -خادم نے فورا کتاب اٹھالی- تعجب کا مقام یہ تھا کتاب جوں
کی توں خشک تھی !
بارہ برس دریا میں : ایک دوسرے بزرگ جناب یحییٰ نقش بندی المعروف حضرت جی
تھے- یہ سانس روکنے میں درجہ تام رکھتے تھے- اتنی ریاضت تھی کہ پوری رات
میں صرف ایک یا دو مرتبہ سانس لیتے تھے ....ریاضت میں آپ کی نظیر نہیں ملتی
-دریا میں بارہ برس تک نفی اثبات کا ذکر کیا‘ جب پانی سے باہر نکلے تو صرف
ہڈیاں ہی ہڈیاں تھیں‘ گوشت کو پانی کھا گیا تھا -
کوہ مکلی میں حضرت کانٹے والے پیر بھی ہیں -کہ جس کے پیر میں کانٹا لگ جائے
وہ اس پیر کے دربار کا تیل لگائے تو کانٹا نکل جاتا ہے -
سوا لاکھ ولیوں کے مسکن مکلی میں حضرت جمن جتی کا بھی مزار ہے جو بابا
اصحابی کے دربار کے شمالی جانب ہے‘ ان کی کرامت بارش برسانا ہے - یہاں ایک
بزرگ شاہ دھنو بھی ہیں‘ جو دن کو روزہ رکھتے تھے اور رات بھر جاگتے رہتے
تھے-
* چلّہ گاہ کے اوپر سے گزرنے والے پرندے جل جاتے ہیں :حضرت شاہ کمال ”غوث
الآ فاق “ یعنی آسمانی کناروں پر لوگوں کی فریادیں سننے والے پیر صاحب کے
جلال کا دوران ریاضت یہ عالم ہوتا تھا کہ آپ کی ریاض گاہ کے اوپر سے اڑتے
ہوئے پرندے جلنے لگتے اور زمین پر گرتے ہی راکھ ہو جاتے -حضرت شاہ فضیل نے
اپنے مریدوں کو متنبہ کرایا تھا کہ دیکھو! آپ کی عبادت گاہ سے چالیس چالیس
قدم دور رہنا ورنہ ان کے عشق کی آگ کی تپش کوئی برداشت نہیں کرسکے گا -
(غرض آپ کا جلال اس قدر زبردست تھا )کہ آپکے خاندان کے افراد بھی آپ کے
جلال سے نہیں بچ سکے -آپ کے تین صاحبزادے مجاہدات وریاضات اور قوت کشفیہ
میں بے حد تیز اور لاثانی تھے -ایک دن آپ کے بڑے صاحبزادے عماد الدین حجامت
بنوا رہے تھے کہ انہیں کشف سے معلوم ہوا کہ کوئی جہاز بھنور میں پھنسا ہوا
ہے اور اس کے مسافر مدد کے لئے ”شاہ کمال ....شاہ کمال“ پکار رہے ہیں -آپ
نے وہیں سے زمین پر ہاتھ مارا جہاز فورا بھنور سے نکل گیا -اسی لمحہ شاہ
کمال اپنے حجرہ سے باہر آئے اور پوچھا کہ” عماد! یہ تم نے کیا غضب کیا -“آپ
نے عرض کیا -”ابا جان! جہاز والے آپکو پکار رہے تھے -میں نے شرم محسوس کی
کہ آپ کو پکاریں -کیونکہ اتنے میں تو وہ ڈوب جائیں گے-“آپ نے سینہ پر ہاتھ
پھیر کر فرمایا:”تم نے میرے پکارنے والے کی آوازیں تو سن لیں مگر لوح محفوظ
پر نظر نہ ڈال سکے کہ وہاں کاتب تقدیر نے کیا لکھا ہے -“ یہ فرماتے ہی عماد
الدین کی تمام صلاحیتیں سلب ہوگئیں -جاری ہے... |
|