علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا مسئلہ

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار اور اس کے پانچ سینٹر پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے ہیں ۔پانچ سینٹر میں سے تین فی الحال کام کر رہے ہیں جس میں تعلیم کا سلسلہ جاری ہے ۔اے ایم یو کے وائس چانسلر کے بیانات سے واضح ہو رہا ہے کہ محترمہ وزیر انسانی وسائل اسمرتی ایرانی نے ان سینٹروں کو غیر قانونی قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔اس کے ساتھ ہی ضمیر الدین شاہ کے ساتھ بات چیت میں تلخ کلامی بھی ہوئی ہے جس میں وزیر موصوف نے جناب سے سوال کیا ہے کہ آپ کو تنخواہ کون دیتا ہے ۔یہ اور اس طرح کی باتوں سے عوام خصوصاً اقلیت میں بے چینی پائی جا رہی ہے ۔یو پی اے سرکار کے حلف نامہ سپریم کورٹ میں داخل کئے گئے تھے جو اس ادارے کے اقلیتی کردار سے متعلق تھے لیکن معلوم ہوا ہے کہ این ڈی اے سرکار نے اسے کلعدم قرار دیکر اپنا حلف نامہ داخل کیا ہے جس سے اس کے اقلیتی کردار پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

اس معاملے کو لیکر اپوزیشن پارٹیوں نے راجیہ سبھا میں زور دار ہنگامہ کیا جس کی وجہ سے وقفہ صفر میں رخنہ پڑا اور ایوان کی کارروائی دوپہر بارہ بجے تک کے لئے ملتوی کر دی گئی ۔سماج وادی پارٹی کے لیڈر جاوید علی خان نے وقفہ صفر کے دوران یہ معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ اے ایم یو کے وجود پر سوال کھڑا ہوگیا ہے ۔ترقی پسند اتحاد یو پی اے حکومت کے دور اقتدار میں اقلیتوں کی حالت جاننے کے لئے قائم کردہ سچر کمیٹی کی سفارشات کے پیش نظر اے ایم یو نے احاطے سے باہر پانچ آف کیمپس بنانے کا فیصلہ کیا تھا ۔مرکزی وزیر انسانی وسائل اسمرتی ایرانی نے ان سینٹروں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مالی امداد بند کرنے کی وارنگ دی ہے۔مسٹر جاوید علی خان نے کہا کہ یہ سینٹر یونیورسٹی ہے اور صدر جمہوریہ کی منظوری کے بغیر کوئی فیصلہ نافذ العمل نہیں ہو سکتا ۔اس کے ساتھ ہی مرکز نے عدالت میں ایک نیا حلف نامہ پیش کیا ہے جس سے اس ادارے کی خود مختاری اور اس کے اقلیتی درجے کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے ۔اس کے جواب میں مرکزی وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور مختار عباس نقوی نے کہا کہ ملک میں اے ایم یو جیسے سیکڑوں خود مختار ادارے اور سینٹرل یونیورسٹی ہیں ۔اس کے اقلیتی کردار کا معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے اور اس معاملے میں اس کا فیصلہ قابل قبول ہوگا ۔یہ جواب سننے کے بعد کانگریس کے لیڈر دگ وجئے سنگھ نے کہا کہ یو پی اے حکومت کے حلف نامے کو واپس لیکر مودی حکومت نے نیا حلف نامہ داخل کیا ہے جس سے حکومت کی منشا کا پتہ چلتا ہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ حکومت ایسے ایسے اقدامات کر رہی ہے جو عوام مخالف ہیں جس کا اعتراف اپوزیشن کو بھی ہے یعنی کسی حقیقت کو اس طرح جھٹلایا جا رہا ہے اور بار بار ایسا کیا جا رہا ہے کہ خود وہ جھوٹ سچ ثابت ہو نے لگے اور کھلی آنکھ سے سچائی کو دیکھنے کے با وجود انسان اندھے پن کا اظہار کرنے لگے ۔یہ معاملہ صرف اے ایم یو کے ساتھ نہیں ہے بلکہ بہت سارے ایسے منصوبے اور ارادے ہیں جس کو آج ہر ہندوستانی محسوس کر رہا ہے ۔عوام دوست پالیسی کے بجائے عوام مخالف پالیسی پر حکومت نا جانے کیوں عمل کر رہی ہے ۔مثلاً گیس سبسڈی کو ہی لے لیجئے پہلے تو لوگوں کو ترغیب دی گئی اور بعد حکم نافذ کر کے امیروں سے سبسڈی کو ختم کرنے کی پالیسی بنالی گئی ۔اسی طرح اے ایم یو کے بارے میں کون نہیں جانتا ہے کہ اس وقت سر سید احمد کو خاں مسلمانوں کی جہالت کو دور کرنے کیلئے انتھک کوشش کی اور انہوں نے یہ طے کر لیا کہ مسلمانوں کو سائنس اور انگریزی پڑھانے کی بہت ضرورت ہے جس کی خود مسلمانوں کی طرف سے اتنی شدید مخالفت ہوئی کہ اﷲ معاف کرے ۔کسی نے سر سید احمد خان کو کافر کہا تو کسی نے انگریزی اور سائنس کو دین اسلام کے منافی بتا کر دین سے بھٹکنے کا ذریعہ تک بتایا لیکن بندہ مومن کا دل مسلمانوں کی ترقی کے لئے دھڑک رہا تھا اس لئے انہوں انے انتھک کوششوں کے بعد محمڈن اینگلو عربک کالج کی بنیاد رکھی چندہ لینے کے لئے در در کی ٹھوکریں کھائیں کسی نے جوتے کا ہار پہنایا تو کسی نے ٹھمکے لگانے پر مجبور کیا لیکن بندہ مومن کے ارادے میں اور پختگی ہو گئی ۔انگریزوں نے یونورسٹی کا درجہ دینے کے لئے اس وقت مسلمانوں سے بیس لاکھ روپے کا مطالبہ کیا تھا جس کو مسلمانوں نے چندہ کر کے انگریز حکومت کے حوالے کیا جس کی رسید فیس بک پر گرد ش کر رہی ہے ۔ان سب کے باوجود اسے اقلیتی ادارہ ماننے سے انکار اور اسے قانونی شکل دینے کی کوشش یہ کہاں کی دانشمندی ہے ۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 102299 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.