تعلیم مقدس پیشہ یا روز گار کا زریعہ۔۔؟
(Dr M Abdullah Tabasum, )
کسی بھی ملک اور معاشرے کی ترقی میں
تعلیم اہم کردار ادا کرتی ہے یقینا میعار تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے
اسکولوں میں اساتذہ کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے ترقی یافتہ قوموں نے صرف
اور صرف تعلیم کو اپنا کر زندگی کے ہر میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام
دیں ہیں مسلمان کاماننا ہے کہ اے اﷲ میرے علم میں اضافہ فرما ِ، علم حاصل
کرنا ہر مسلمان عورت مرد پر فرض ہے ، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اور ان
کی اپنی دعا بھی یہی کہ میرے علم میں اضافہ فرما مگر گورنمنٹ کے ساتھ ساتھ
نجی سیکٹر کا کردار بڑا اہم ہے ،مگر بڑے بڑے نجی سکولز نے اس کو باقاعدہ
کاروبار بنالیا ہے کئی بڑے گروپس کی صورت میں تعلیم کو زریعہ معاش بنا لیا
ہے کئی اسکولز اور کالجز کی فیسوں کو ڈالرز مین پے کیا جاتا ہے ،گورنمنٹ
سکیٹر میں اسکولز کی حالت انتہائی خراب ہے دور افتادہ میں تو اسکولز چار
دیورای کے بغیر اور بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی اور ٹیچرز کی غیر حاضری
نے نئی نسل کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیاہے۔۔۔؟ بڑے بڑے اسکولز گروپس
میں بیکن ہاؤس ،لاہور گرائمر،درارقم ،بلوفیلڈ،کڈز کیمپس،ریسوریس
اکیڈمی،لکاس سکولز،سٹی سکول،کمز سکول،ریوسورسس اسکولز،لاہور اسکول سسٹم
،ایفا اسکولز،امریکن اسکولز،سلامت اسکولز،الائیڈ اسکولز،اور دیگر ادارے
شامل ہیں جن کی بھاری کم فیسز،یونیفارمز،بکس،ٹیوشن ،غیر نصابی سرگرمیاں اور
دیگر واجبا ت وصول کئے جاتے ہیں اور ہر سال بھاری بھر کم فیس اور دیگر
واجبات میں اضافہ کیا جاتا ہے ،والدین جو صبح سے شام تک اپنے بچوں کا پیٹ
بھرنے کے لئے کوہلو کے بیل بنے رہتے ہیں گزشتہ روز پیارے بھائی راؤ احمد
سجاد کی دعوت پر درارقم سکولز کی دیپالپور کیمپس کے افتتاح کی تقریب میں
شمولیت کی تو ان سے سیر حاصل بات چیت ہوئی ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دنیاوی
تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم اور اچھے طالب علم کے لئے بہترین انتظامات
کئے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ پرائیوٹ اسکولز نے والدین اور بچوں کے
مستقبل کو داؤ پر لگا دیا ہے والدین کے بھر پور احتجاج پر حکومت پنجاب نے
ایجوکشن اتھارٹی قانون پاس کیا کہ ہر سال صرف 5فیصد سے زیادہ فیس نہیں
بڑھائی جا سکے گئی اور بکس ،یونیفارم اور دیگر لوامات پر اسکولز کی
انتظامیہ بچے کو اسکولز سے نہیں نکال سکیں گئے،جس پر نجی اسکولز کی
انتظامیہ اور آل پاکستان سکولز فیڈریشن ،اسکولز کونسل ،آل پاکستان پرائیوٹ
اسکولز ایسوی ایشن نے ہڑتال کا اعلان کر دیا کہ پنجاب حکومت قانون کو واپس
لے اس نے قانون سازی میں تنظیموں کو اعتماد میں نہیں لیا ،منگل اور بدھ کو
دو روزہ ہڑتال کے بعد گزشتہ ہفتے اسکولز اوپن تو ہو گئے ہیں مگر والدین اور
طلبہ تذبذب کا شکار ہیں کہ کیا ہو گا طلبہ و طالبات کے سالانہ امتحانات ہو
رہے ہیں جن سے ان کا قیمتی سال ضائع ہو رہا ہے ،اسکولز میں کئی دھڑوں نے
اسکولز کھولنے کا اعلان کردیا ہے تاہم فیسوں میں اضافے سے متعلق ہڑتال کے
معاملے پر نجی سکول مالکان کی تنظیموں میں دھڑے بندی برقرار ہے ،ایک گروپ
نے فیسوں کے معاملے پر کبھی بھی اسکولز بند نہ کرنے اور دوسرے دھڑے نے
ہڑتال کے معاملے کو ایک ہفتے کے لئے موخر کر دیا ہے جبکہ حکومت پنجاب نے
سکول مالکان تنظیم کے عہدیداران سے مذاکرات کرنے کے لئے دعوت دے دی ہے ویسے
بھی سال کے ان دونوں میں اسکولز بند ہوتے ہیں ،آل اسکولز مینجمنٹ کے صدر
ادیب جاودانی کا کہنا ہے کہ نجی اسکولز کا کہنا ہے کہ بچوں کے امتحانات کی
وجہ سے اسکولز کھلنے کا فیصلہ کیا ہے اگر حکومت نے مطالبات تسلیم نہ کئے تو
امتحانات کے فوری بعد سکولز کو بند کر دیا جائے گا وزیراعلی پنجاب کے سوا
کسی بھی شخصیت سے مذاکرات نہیں ہوں گئے وزیر تعلیم نے ماضی میں بہت سے
اجلاس کئے اور سفارشات بھی لیں لیکن سب کچھ ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا گیا
،پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے متعلق قانوں غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اب
میٹھی گولی سے کام نہیں چلے گا اگر حکومت سکول خود چلانا چاہتی ہے تو یہ
بھی کر کے دیکھ لے مذاکرات ہوں گے تو سرف اور سرف وزیراعلی سے ہوں گئے
،حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پنجاب کے 97فیصد اسکولز کھلے ہوئے ہیں
صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اﷲ کا کہنا ہے کہ پرائیوٹ سکولز ایسوسی ایشن
کے عہدیدار عہدیدار صوبائی حکومت کے ساتھ بیٹھ کر مسئلہ حل کریں اگر قانون
میں تبدیلی کرنی ہے تو وہ اتفاق رائے سے مسئلہ حل کریں ، پنجاب بھر کے
ستانوے ہزار پرائیوٹ اسکولز بند ہونا صریحا بلیک میلنگ ہے جس کا فوری نوٹس
لیا جانا چائیے ،تعلیم کو کاروبار بنانے والے لوگ پہلے ہی عوام کی کھال
کھینچ رہے ہیں جس کا فوری نوٹس لیا جانا چائیے اسی لئے وہ اب طلبہ کے
مستقبل سے کھیلنے تک آ گئے ہیں ،یہ طرز عمل قعطی ناقابل برداشت ہے حکومت کو
چائیے کہ وہ عوام کو باور کرائے کہ اس نے یہ اقدام عوامی بہبود اور اسکول
مالکان کی لوٹ مار کا سدباب کرنے کے لئے ہی کیا ہے جس کی عوامی سطح پر
پذیرائی کی جانی چائیے،تعلیم کے نام پر ایک سو ایک این جی اوز مال کھا رہی
ہے الف بے کے نام پر بھی ڈالر کھائے گئے ہیں کسی نے الف لکھنا پڑھنا سکھانے
کی زحمت نہیں کی ،اب تک کیسے پہنچے بلھے شاہ نی بھی کہا تھا کہ ’’کو ایف
درکار‘‘ تعلیم الف سے شروع ہوتی ہے ختم نہیں ہوتی مگر اشہتاروں میں الف بے
کی تکرار سے مال کمایا جا سکتا ہے ذرا پورے ملک پر نظر دوڑا لیں اس اشتہاری
مہم نے کتنے نئے اسکولز کھولے کوئی ایک بھی نہیں ،انہوں نے کہا کہ ہم تعلیم
کا شعور بیدار کرتے ہیں شاہد ہو گیا ہو ،شعور کسی کی پیمائش کے لئے کوئی
تھرمامیٹر ایجاد نہیں ہوا اس لئے ان مقدس این جی اوز کے دعوے کو چیلنج کرنے
کی پوزیشن میں نہیں ، پنجاب میں تعلیم کا بجٹ میں تعلیم ،مع اساتذہ اور
ستاف کی تنخوائیں شامل ہیں اور یہ بجٹ بذات پورے صوبے کے تعلیمی نظام کو
چلانے کے لئے قطعا ناکافی ہے بے شمار اسکولز بنیادی ضروریات سے محروم ہیں
ان گنت سکولوں کی بلند ی تو چھوڑیں دیواریں سرے سے موجود نہیں ، سوات میں
بچوں کے اسکولز کو بم سے اڑایا جارہا تھا تو ہم نے سوچا کہ علاقہ تو ہم سے
دور ہے شاہد کوہ قا ف کے پار اور دہشت گردوں کی گرد بھی ہم تک نہیں پہنچ
سکتی ،ہم نے بلاول ہاؤس بنائے ،جاتی امراء کے محلات کھڑے کر لئے مگر دہشت
گرد آرمی پبلک اسکول میں گھس گئے اب چارسدہ یونیورسٹی کو جا نشانہ بنایا
،دہشت گرودں کی دھمکی آمیز چھٹیاں پنجاب کے اسکولوں کو موصول ہوئیں ، اگر
حکومتی احکامات اور گائیڈ لائن کو دیکھیں تو عجیب صورتحال نظر آتی ہے ایک
واک تھرو گیٹ کی قیمت ایک لاکھ پنتالیس ہزار سے لیکر دولاکھ روپے تک ہیں
اگر پنجاب کے تمام تعلیمی اداروں میں سرکاری واک تھرو گیٹ لگائے جائیں تو
اس کی لاگت تقریبا آٹھ ارب روپے بنتی ہے اور اگر موجودہ دیواریں اونچی کی
جائیں تو اس کی لاگت چار ارب روپے بنتی ہے خار دار تاریں کا خرچہ دو سے
ارھائی ارب روپے کے لگ بھگ ہے اور یہ صرف موٹا خرچہ ہے ،واک تھرو گیٹ کے
علاوہ میٹل ڈی ٹیکٹروں کا خرچہ بھی تیس کروڑ روپے بنتا ہے جبکہ واک تھرو
گیٹ اور میٹل ڈٹیکٹر کے لئے الگ سٹاف رکھا جائے گا ان سارے معاملات کو
سالانہ Running Costکا بہت بڑا خرچہ ہے جو کہ محکمہ تعلیم کے بجٹ سے خرچ
کیا گیا ہے پہلے ہی محکمہ تعلیم کا حال دگرگوں ہیں مکمل تباہی کی طرف گامزن
ہو رہے ہیں ،ماہر تعلیم ریٹائرڈ صوبیدار میجر نور احمد چوہدری کا کہنا تھا
کہ حکومت کو گورنمنٹ اسکولز اور نجی اسکولز کے نصاب میں زمین آسمان کا فرق
ہے پاکستان میں کیمبرج یونیورسٹی یونیورسٹی برطانیہ سے اولیول کرنے والے
اسٹوڈنٹس کو اسلامیات کی جو کتاب پڑھائی جاتی ہے اس کا نام Islamiat For
Students ,O ,Levelsہے اس کتاب میں انتہائی قابل احترام صحابہ اکرام رضی
تعالی عنہ اور ازواج مطہرات رضی تعالی عنہ کے مبارک ناموں کے ساتھ رضی اﷲ
عنہا /عنہ تک درج نہیں ہے ،ایف اے کی کتابوں میں تاریخ اسلام میں کم از کم
تین مقامات پر دودو صفحات بعمہ میٹریل غائب ہیں اور یہ صفحات سیرت النبی ﷺ
والے حصے سے متعلق ہیں یوں یہ حصہ پڑھا نہیں جا سکتا ،ایک کے باب ’’ عشرہ
مبشرہ‘‘ کے صفحہ نمبر تیرہ پر لکھا ہوا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ
کا اصل نام ’’اﷲ‘‘ تھا (نعوذ باﷲ)اس سے بڑا زوال اور کیا ہو سکتا ہے کہ
اسلام کے موضوع پر لکھی جانے والی بہت کم کتب ایسی ہیں جو اغلاط سے پاک ہیں
ان کتب کی پروف ریڈنگ نہیں کرتے بلکہ ان کی ساری توجہ صرف اور صرف رائلٹی
پر مرکوز ہوتی ہے ،حکومت کو اس پر بھی نوٹس لینا چائیے اور ایجوکیشن
اتھارٹی قانون میں یہ لازمی ترمیم کی جائے کہ پورے ملک میں یکساں نصاب
ہو،اور صوبائی حکومتوں کی بجائے وفاقی حکومت ایک ایسا قانون لائے جو پورے
ملک میں یکساں تعلیم اور یکسان نصاب رائج ہونہ کہ ملک میں تین قسم کا نظام
تعلیم رائج ہے مدرسہ ،گورنمنٹ اسکولزاور نجی اسکولز زریعہ تعلیم شامل ہے ،
راقم کی اس سلسلے میں ماہر تعلیم راؤ سلمان سربراہ پروفیشنل گروپ آف کالجز
سے ہوئی ان کا کہنا تھا کہ نجی سیکٹر کی بدولت ملک میں تعلیمی میدان میں
کارہائے نمایاں خدمات ہیں گورنمنٹ کو چائیے کہ نجی سیکٹر کو ساتھ ملا کر
فیصلے کئے جائیں جس سے بہتر نتائج حاصل ہوں گئے وزیراعظم پاکستان کو یہ قدم
اٹھانا ہو گا تاکہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے ساتھ ساتھ ذہنی شعور کو
اجاگر کرنے میں مدد ملے گی ، تاکہ نیشنل ایکشن پلان کے آپریشن میں تعلیم
پہلا قدم ہونا چائیے تاکہ لوگوں کے ذہین میں شعور پیدا کیا جا سکے اور
انتہاپسندی،مذہبی انتہاپسندی،اور دہشتگردوں کے خلاف لڑائی کے لئے تعلیم کو
عام کرنا وقت کی ضرورت ہے۔۔۔تاکہ عوام کو شعور دیا جا سکے اور وہ اچھے اور
بر’ے میں فرق کر سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
|