جامعات کا فرض؟
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
جنوبی پنجاب کی یونیورسٹیوں کا
معاملہ عجیب ہے، ملتان کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ہے تو سابق وائس
چانسلر خواجہ علقمہ کو اکتوبر 15ء کو گرفتار کر لیا گیا تھا، وجہ یہ بیان
کی گئی تھی کہ موصوف نے لاہور میں زکریا یونیورسٹی کا غیر قانونی کیمپس
منظور کیا ہے، رات کے پچھلے پہر گھر میں گھس کر پولیس نے کمانڈو ایکشن کیا
اور سابق رئیس الجامعہ کو قابو کر کے ہتھکڑیاں لگا ئی گئیں اور جیل بھیج
دیا گیا۔ رجسٹرار کا نام بھی اسی کرپشن میں تھا، تاہم ان کی ضمانت
ہوگئی۔سابق وی سی تقریباً پانچ ماہ تک سرکاری مہمان رہنے کے بعد گزشتہ دنوں
رہا ہوئے، انہوں نے رہائی کے بعد میڈیا کا سامنا کرتے ہوئے کہا کہ نیب میں
واقعی اصلاحات کی ضرورت ہے، انہوں نے مقدمات کا سامنا کرنے کا اعلان بھی
کیا۔ یومِ پاکستان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یومِ پاکستان کا درس یہ ہے
کہ مسلم لیگ کو متحد ہوجانا چاہیے، اگر ان کا اتحاد نہ ہوا تو انجام بنگلہ
دیش جیسا ہوگا۔ خواجہ علقمہ نے بتایا کہ لوگ مجھے جیل میں ملنے اس لئے نہیں
آئے کہ وہ اپنی پارٹی اور نیب سے خوفزدہ تھے، اگرچہ میں مسلم لیگی ہوں، مگر
صرف یوسف رضا گیلانی جیل میں ملنے آئے، وہی شیر ہیں۔ جیل میں وہ نئے تجربات
سے روشناس ہوئے، قید کے دنوں پر مشتمل ایک کتاب لکھنے کا بھی عندیہ انہوں
نے دے دیا ہے۔
بہاؤالدین زکریا یونیوسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر طاہر امین نے بھی یومِ
پاکستان کے حوالے سے دو تقریبات سے خطاب کیا، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور
میں وہ مہمان مقرر تھے، اور اگلے ہی روز وہ خود اپنی یونیورسٹی میں میزبان۔
اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مشتاق قیصر اور دیگر انتظامیہ پر
نہ جانے کس آسیب کا سایہ پڑ گیا ہے کہ وہ اول تو یونیورسٹی میں غیر نصابی
سرگرمی کرتے نہیں، اگر کبھی موڈ بن ہی جائے تو اس میں کسی کو پروگرام کی
ہوا بھی نہیں لگنے دیتے۔ یہی حال یومِ پاکستان کی تقریب کے ساتھ بھی ہوا،
بس دو چار لوگوں کو ہی دعوت دی گئی، اور نشستوں پر ان کے ناموں کی چٹیں لگی
ہوئی تھیں، تاکہ کوئی بن بلایا مہمان نہ آنے پائے۔ ایسی تقریبات کا مقصد دو
طرح کے لوگوں کو آگاہی دینا ہوتا ہے،اول ؛ طلبہ وطالبات۔دوم؛ وہ لوگ جو بات
سنیں اور آگے پہنچائیں،مگر یہاں موخر الذکر کا تصور کم ہی ہے۔ پروگرام کو
خفیہ رکھنے کے مضمرات کی تو سمجھ نہیں آسکی، تاہم اتنا تو سب کو ہی علم ہے
کہ جامعات کا کام جہاں تحقیق کرنا ہوتا ہے، وہاں وہ اپنے معاشرے، ماحول اور
خطے کے لئے تھنک ٹینک کاکردار بھی ادا کرتی ہیں، وہ ہر شعبے کے لئے اداروں
اور لوگوں کو رہنمائی فراہم کرتی ہیں، کیونکہ کتابیں تو جامعات میں پڑھائی
جاسکتی ہیں، مگر عمل کی دنیا جامعہ کی چار دیواری سے باہر آباد ہوتی ہے،
یونیورسٹی کے جس شعبہ کو بھی دیکھ لیں، اس کا تعلق فطری طور پر باہر کی
دنیا سے ہوتا ہے، کیونکہ اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد طلبا و طالبات نے
عمل کے میدان میں نکل کر اپنے شعبوں کو ہی سنبھالنا ہوتا ہے۔ یونیورسٹی
انتظامیہ کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے شعبوں سے تعلق رکھنے والے بڑے لوگوں کو
دعوت دے، تاکہ سٹوڈنٹس بھی بڑوں کے تجربات سے استفادہ کرسکیں۔ مگر اپنے ہاں
اور ہی روایت ہے، نہ کسی کو بلایا جاتا ہے اور نہ چار دیواری سے باہر کسی
کو رہنمائی دی جاتی ہے۔ زکریا یونیورسٹی کی تقریب میں معروف اور صاحبِ طرز
کالم نگار ہارون الرشید اور کالم نگار و شاعر خالد مسعود خان بھی مدعو تھے۔
رئیس الجامعہ ڈاکٹر طاہر امین کا کہنا تھا کہ پاکستان لسانیت، اقربا پروری،
صوبائی عصبیت جیسی مصیبتوں میں گھِر چکا، گزشتہ دس برس میں ستّر ہزار
پاکستانی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے، اور ہم سب لوگ قیامِ پاکستان کا مقصد
بھول بیٹھے ہیں۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے وائس چانسلر جب سے تشریف لائے ہیں، انہوں
نے بہاول پور کے عوام کو قبول نہیں کیا، شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگ
بھی ان کے ساتھ شِیر وشکر نہیں ہوسکے، بلکہ فریقین میں ایک خلا ہے، جو کم
ہونے کا نام نہیں لے رہا، یا انتظامیہ کم کرنا نہیں چاہتی۔ اگر ملتان
یونیورسٹی میں دو معروف کالم نگار خطاب کرسکتے ہیں تو بہاول پور کے لوگوں
کا بھی اپنی یونیورسٹی پر بہت سا حق ہے، یہاں کے لکھاریوں کا بھی دل چاہتا
ہے کہ کسی دانشور کی باتیں سنیں ۔ اپنی ہی مادرِ علمی سے اجنبی بن کر رہنا
کتنا تکلیف دہ عمل ہے۔ جامعات میں ایسی تقریبات بلا مبالغہ آکسیجن کی حیثیت
رکھتی ہیں، اور اگر مسیحا ہی آکسیجن بند کرنے کا اہتمام کردے تو ’زندگی‘ کس
قدر اجیرن ہو جائے گی۔ |
|