خلیفہ ٔ بلا فصل،مزاج شناس نبوت،یار غار حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ

حضرت ابوبکر صدیقؓ کی ولادت عام الفیل کے اڑھائی برس بعد ہوئی آپ ؓ نبی اکرم ﷺ سے کم وبیش تین برس چھوٹے تھے اس لحاظ سے آپ ؓ کا سن ولادت 573 عیسوی ہے آپؓ کا شجرہ نسب عبداﷲ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعدبن تیم بن کعب بن لوی القرشی ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیقیؓ قبل از اسلام ایک مالدار تاجر کی حیثیت رکھتے تھے ۔آپؓ اہل مکہ میں نہایت معزز سمجھے جاتے تھے نبی اکرم ؐ کے ساتھ بچپن ہی سے خاص تعلق تھا سفر حجر میں ساتھ رہے ۔آپ ؓ کا ایک لقب صدیق تھایہ آپؓ لقب شب معراج کی تصدیق کرنے پر ملادوسرا لقب عتیق تھا ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے آپ ؓ کو دیکھا تو فرمایا تم اﷲ کی طرف سے دوزخ سے آزاد ہو،اسی وجہ سے آپ ؓ عتیق کے لقب سے مشہور ہوئے۔حضرت ابوبکر صدیقؓ مکہ کی ایک نہایت معزز،بااثر شخصیت تھے آپ ؓ نے آزاد مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔قبول اسلام سے قبل آپ ؓ اہل مکہ کے چیف جسٹس تھے اور دیت کے فیصلے فرماتے ،زمانہ جاہلیت میں بھی کبھی آپؓنے شراب ،زنا،گناہ ،کبیرہ کا ارتکاب نہ کیا آپ ؓ کو فطرتاً ایسے گناہوں اور بتوں کی پوجا سے سخت نفرت و بیزاری تھی -

آپ ؓ کے اسلام لانے کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ آپ ؓ تجارت کرنے شہر سے باہر گئے ہوئے تھے تجارت سے جب واپس آئے تو شہر میں داخل ہونے پر شہریان مکہ اس دور کے رواج کے مطابق انگلیاں اُٹھا اُٹھا کر کسی عجیب غریب نئے واقعے کی خبر دے رہے تھے دریافت کرنے پر پتا چلا کہ آپ کے جگری یار حضرت محمد ﷺ نے نبی و رسول ہونے کا اعلان کر دیا ہے آپ ؓ سیدھا اپنے جگری یار حضرت محمدﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر نہایت ادب سے دریافت کرتے ہیں کہ اے میرے پیارے دوست محمدﷺ کیا آپ نے اعلان نبوت کیا ہے؟ تو حضرت محمد ﷺ فرماتے ہیں کہ جی ہاں۔ اس پر آپؓ بغیر کسی حیل و حجت حضرت محمد ﷺ کی نبوت و رسالت ﷺ کی گواہی دے کر جانثاران محمد میں شامل ہو گئے ۔جب آپؓ نے اسلام قبول کر لیا تو حضورﷺ سے دریافت فرمایا آقا ﷺمیرا اب کیا کام ہے؟ تو حضور ﷺ نے فرمایا جو میرا کام وہ تیرا کام یعنی تبلیغ و اشاعت دین۔۔۔۔۔۔اس فرمان کے بعد سیدنا صدیق اکبرؓ نے اسلام کی تبلیغ شروع کر دی چنانچہ آپؓ کی دعوت پر حضرت عثمان غنی ؓ ،حضرت زبیر بن العوامؓ،حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ،حضرت سعد بن ابی وقاصؓ،حضرت طلحہ بن عبداﷲؓ،حضرت عثمان بن مظعونؓ،حضرت ابو عبیدہ ، ؓ حضرت ابو سلمہ ؓ،حضرت خالد بن سعیدبن العاص ؓجیسے جید صحابہ کرامؓ نے اسلام قبول کیا۔یوں تو بیشتر آیات وہ ہیں جن میں بالعموم تمام صحابہ کرامؓ کی شان وفضلیت کو بیان کیا گیا ہے ۔ان کا مصداق سیدنا ابوبکر صدیقؓ کاہونا بھی یقینی ہے اور بعض دو آیات جو خاص آپؓ کی شان میں اتری ،سورۃ التوبہ آیت نمبر40 ترجمہ :اگر تم اس رسول کی مدد نہ کرو تو اﷲ نے ان کی مدد کی ہے جبکہ وہ دو آدمیوں میں سے ایک تھے جبکہ وہ دونوں غار میں تھے جبکہ وہ اپنے ساتھی سے فرماء رہے تھے کہ غم نہ کر و ۔بلاشبہ اﷲ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ساری زندگی اسلام کی سر بلندی میں صرف کئے رکھی مال و دولت اسلام اور آقائے دو جہاں ﷺ پر ہمیشہ نچھاور کرتے رہے غزوہ اُحد کے موقعہ پر جب حضرت صدیق اکبرؓ راہ خدا میں گھر کا سارا مال خدمت رسولﷺ میں لے آئے تو اس قابل رشک و منظر پر اﷲ تعالیٰ اور فرشتے بھی خراج تحسین پیش کرنے سے نہ رہ سکے حضورﷺ نے اس قدر سخاوت دیکھ کر ابوبکر صدیقؓ کو جنتی ہونے کی بشارت دی گئی علاوہ ازیں متعددموقعوں پر حضور ﷺ نے ابوبکر صدیق کو جنتی ہونے کی بشارتیں دیں ایک موقعہ پر تو حضورﷺ نے فرمایا کہ جس نے مجھ پر جو احسانات کئے میں نے سب کے احسانات کا بدلہ اداکر دیا صدیق اکبرؓ ہی ہیں جن کے احسانات کا بدلہ میں محمدﷺ نہیں دے سکاجس کا قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ سے عرض کروں گا کہاس کے احسانا ت کا بدلہ عطا فرمائیں رسول اﷲﷺکا فرمان عالی شان ہے کہ قیامت کے دن جب سارے انبیاء کرامؑ میرے پاس حاضر ہو کر گزارش کرینگے کہ اﷲ تعالیٰ سے حساب و کتاب کے لئے کہیے تو میں (محمدﷺ)اﷲ کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے اے محمد ﷺ اپنا سر مبارک اٹھا ئیے اور کہیے کیا کہنا چاہتے ہیں ؟تو اس پر میں اﷲ تعالیٰ سے گذارش کروں گا کہ اے اﷲ نسل آدم پریشان ہے حساب و کتاب کا آغاز فرمائیں تو اﷲ تعالیٰ جلال میں ارشاد فرمائیں گے کہ کوئی ہے جو میرے سوالات کے جوابات دے سکے تو حضورﷺ فرماتے ہیں میں ابوبکر صدیقؓ کا ہاتھ پکڑ کر اﷲ تعالیٰ کے سامنے پیش کردوں گا کہ اے اﷲ ابوبکر سے سوال کریں یہ آپ کے ہر سوال کا جواب دے گا حضورﷺ فرماتے ہیں جب اﷲ تعالیٰ ابوبکر کا چہرہ دیکھیں گے تو اﷲ تعالیٰ کا جلال جمال میں بدل جائے گا اور حساب و کتاب کا آغاز ہو جائے گا سبحان اﷲ کیا شان ہے صدیق اکبرؓ کی۔

حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ رسول اﷲ ﷺ کی حفاظت کا خاص خیال رکھتے تھے ،خطرہ پڑ کر خود سینہ سپر ہوجاتے تھے مثلاً ایک روز رسول اﷲ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ اس حالت عقبہ بن معیط نے اپنی چادر سے آپ ﷺ کے گلے مبارک میں پھندا ڈال دیا اسی وقت ابوبکر ؓ پہنچ گئے اور اس کو پکڑ کر رسول اﷲ ﷺ سے جدا کردیا اور کہا تما ایست شخص کو قتل کرو گے جو تمہارے پاس اﷲ تعالیٰ کی نشانیاں لایا اور کہتا ہے کہ میرا رب اﷲ ہے ۔
ہجرت میں ایک حضور ﷺ سے ساتھ رفیق سفر تھے اس کے ساتھ آپ ؓ کا سارا خاندان خدمت پیغمبر میں مصروف تھا ۔

سن نو ہجری میں رسول اﷲ ﷺ نے اعلان نبوت کے بعد پہلی دفعہ مسلمانوں کی جماعت کو حج کے لئے روانہ فرمایا تو سیدنا ابو بکر صدیق ؓکو امارت حج کے منصب پر مامور فرمایا اور ہدایت کی کہ منٰی کے عظیم الشان اجتماع میں اعلان کردیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ شخص طواف کرے۔

دین اسلام میں سیدنا صدیق اکبرؓ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے انبیاء کرام ؑکے بعد اگر کار خانہ کائنات میں کسی کا مقام و مرتبہ ہے تو وہ صرف اور صرف حضرت ابوبکر صدیقؓ ہی ہیں باقی تمام ہستیوں کامقام و مرتبہ ابوبکر صدیقؓ کے بعد ہے حضرت ابوبکر صدیق ؓکا آقائے دو جہاں ﷺ سے عشق کا یہ عالم تھا کہ ہر وقت حضورﷺ کی خدمت میں رہتے آقائے دوجہاں ﷺ کو پریشان دیکھتے تو مضطرب ہوجاتے۔ شام و سحر،ہجرت ،مدینہ،جنگ وجدل،امن و آشتی میں ابوبکر صدیقؓ سائیہ دامن مصطفی ﷺمیں ہی رہے غزوہ بدر میں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ پیش پیش رہے ۔ غزوہ احد کے کڑے وقت میں جب حضور ﷺپر کفار نے یک دم حملہ کر دیا تو یہ جانثار مصطفیﷺ سینہ سپر ہو گئے اور کفار کے حملے روکتے رہے یہاں تک کہ حضورﷺ دشمن کے حملوں سے محفوظ ہو گئے،غزوہ بنی مصطلق ،خیبر پر لشکر کشی کے وقت بھی آپ ؓ رسول کریم ﷺ کے ہمراہ رہے ۔

وفات النبیﷺ کے بعد خلیفہ بلا فضل ،خلیفتہ الرسول ﷺ ،جانشین پیغمبرکی حیثیت سے جب آپ ؓ کو خلیفہ بنایا گیا تو آپؓ نے دو سال تین ماہ دس دن تک استحکام دین کے لئے تاریخ ساز اقدام کئے منکرینِ زکوٰۃ، جھوٹے مدعیان نبوت( طلحہ، سجاح، اسود عنسی،مسیلمہ کذاب) ،منکرین ختم نبوت ،فتنہ ارتداد کیخلاف عملی لشکر کشی کر کے دین اسلام کی اساس کو محفوظ کیا اور آنیوالے مسلمانوں کو پیغام دیا کہ اے محمد عربی ﷺکے ماننے والو! اسلام کو اپنی شکل میں قائم و دائم رکھنا اس نظام اسلام میں تغیرو تبدل نہ کرنا ،اسی صورت میں تم غالب رہ سکتے ہواگر بغور جائزہ لیاجائے توعلم میں آئے گاکہ دور حاضر میں مسلمان آج بھی انہی مسائل سے دو چار ہیں جو غلبہ اسلام سے قبل تھے لیکن مسلمان انھیں حل کرنے میں مکمل طور پر قاصر ،بے بس اورناکام نظر آرہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ صدیق اکبرؓ جیسا نظام حکومت " نظام خلافت "اسوقت روئے زمین پر قائم نہیں اگر یہ مقدس نظام ہوتا تو منکرین زکوٰۃ اور منکرین ختم نبوت جیسے غیرمسلم طبقات کا وجود تک نہ ہوتا اور مسلمان یوں ظلم وستم کا شکار نہ ہوتے کیونکہ خلافت اسلامیہ ایسے گروہوں کے خاتمے اور مسائل امت کے حل کو اپنا اولین حدف سمجھتی ہے۔ لیکن افسوس صدافسوس ہم ابوبکر صدیقؓ سے محبت کے نعرے تو لگاتے ہیں لیکن آج ہم ابوبکر صدیقؓ کے نظام کو قائم کرنے سے راہ فرار اختیار کر چکے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس نظام کے بغیر مسلمان عظمت رفتہ حاصل نہیں کر سکتے۔

حضرت ابو بکر صدیقؓ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کیں جن بیویوں سے اولاد ہوئی ان کے نام یہ ہیں۔ قتیلہ سے حضرت عبداﷲ ؓ اور اسما۔ ام رومان سے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ،حضرت عبدالرحمانؓ۔اسماء سے آپ ؓ کی سب سے چھوٹی بیٹی ام کلثوم ؓ پیدا ہوئیں

حضرت ابوبکر صدیقؓ 22جمادی الثانی13ہجری کو تریسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی حضرت عمر فاروقؓ نے آپ ؓ کی نماز جنازہ پڑھائی ۔حضرت عثمان غنی ؓ،حضرت طلحہ ؓ،حضرت عبدالرحمان بن ابی بکرؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے آپ ؓ کو قبر میں اتارا ۔اور روضہ رسولﷺ میں نبی مکرمﷺ کے پہلو میں آپ ؓ کو دفن کر دیا گیاآپ ؓ قیامت تک روضۂ رسولﷺ کی جنت میں بہاریں لوٹتے رہیں گے اور قیامت کے دن حضور ﷺ کے ہمراہ ہی رو ضۂ رسول سے اٹھیں گے ۔ (ختم شد)٭٭
 
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245873 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.