بچوں کی حفاظت - انتہائی اہم تدابیر و احتیاط

آپ کی ذرا سی بے پروائی بچے کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے
 

درج ذیل واقعات پر ایک نظر ڈالیں- پھر بچوں کے حادثات کے سلسلے میں ہمیں کیا تدابیر کرنی چاہییں اس پر گفتگو یقیناً مفید ثابت ہوگی- یہ بات بھی ذہن میں رکھ لیں کہ امریکا جیسے ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ملک میں 25 لاکھ بچے شدید زخمی ہوتے یا بعض صورتوں میں موت کا شکار ہو جاتے ہیں- پاکستان میں بہت محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد پانچ لاکھ تک ہے- پاکستانی ایک خاتون نے کھولتا پانی ٹب میں ڈالا٬ بچہ کو پانی کے قریب چھوڑا اور کسی اشد ضرورت کے لیے مشکل سے پانچ منٹ کے لیے باہر گئیں٬ واپس آئیں تو بچہ اس کھولتے پانی میں گر کر مر چکا تھا- ماں یہ صدمہ برداشت نہ کر سکی اور وہ بھی چل بسی-

میرے ایک دوست بریگیڈیر اصغر میاں نے دل برداشتہ ہو کر بتایا کہ بچہ ڈیڑھ فٹ کی اونچائی سے اس طرح گرا کہ دماغی چوٹ کی وجہ سے اس کی بینائی جاتی رہی-

ایک بچی اپنی سہیلی کے ساتھ گھر کے لان میں گئی- باغ میں خوبصورت بتیاں لگی ہوئی تھیں- یہیں کھیلتے ہوئے ایک تار پکڑ لیا اور بجلی کے جھٹکے سے دنیا چھوڑ گئی-

خانہ دار خواتین کسی احتیاط کی قائل نہیں ہوتیں٬ انہیں گھر کی ساری ذمے داری سونپ کر اہل خانہ بالخصوص مرد حضرات بچوں سے بالکل الگ تھلگ ہو جاتے ہیں- ایسی ایک خاتون فرش پر کپڑا بچھا کر استری کر رہی تھیں کہ کسی نے آواز دی- استری چھوڑ کر اس طرف چل دیں- میری پوتی جو ابھی دو سال کی تھی٬ آئی اور اس نے استری کو پکڑنا چاہا- بس وہ استری چپک گئی اور انگلیاں جل گئیں-

کتنے ہی بچے ماں باپ کے بے انداز پیار سے یا ان بچوں کے ماموں حضرات اور چچا صاحبان کی شفقت کی وجہ سے معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں- یہ لوگ بعض اوقات اپنے پیار کا اظہار کرنے کے لیے ان کے ساتھ کھلونوں کی طرح کھیلنے لگتے ہیں- اچھال اچھال کر گود میں لینے کا تماشہ کرتے ہیں اور جب بچہ کسی وقت نہ سنبھل پائے اور فرش پر گر جائے تو اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں٬ یہ آپ خود سوچ لیں-

یہ بہت ضروری ہے کہ پنگوڑے سے پانچ سال کی عمر تک کے بچوں کو گرنے اور حادثات سے محفوظ رکھنے کی باقاعدہ کوشش کی جائے- حادثات کے علاوہ یہ ضروری ہے کہ مائیں اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام حفاظتی ٹیکے باقاعدہ شیڈول کے مطابق لگوائے جائیں- باوجود اس کے کہ اب اکثر شہری مائیں ایسا کر رہی ہیں اور ان کو اس بات کا شعور ہے٬ پھر بھی بہت سی مائیں بے پروا ہوئی ہیں- پولیو کے قطرے ایک پروگرام کے مطابق پلائے جا رہے ہیں- خواتین یا مرد گھر پر آئی ہو سہولت کو یہ کہہ کر نہ ٹال دیں کہ بچہ گھر پر موجود نہیں ہے- اس سے بچے کی آئندہ زندگی میں بڑا نقصان ہو سکتا ہے- ایسا کیوں ہو گیا کہ چھوٹے چھوٹے شہروں میں رہنے والی مائیں جن کی آمدنی بھی خاصی حد تک مناسب ہے٬ وہ بچوں کو اپنا دودھ نہیں پلاتیں- شہروں کی خواتین کے گھروں میں 80 فیصد بچے پاؤڈر کے دودھ پینے پر مجبور ہیں- سب جانتے ہیں کہ ماں کا دودھ بچوں کے لیے از بس ضروری ہے اور اس کے فائدے ہی فائدے ہیں
-
 

میں نے اس سلسلے میں کئی جگہ بات کی٬ جواب ملا کہ ورکنگ وومن کے لیے دودھ پلانا ممکن نہیں- اس کی زندگی کی ترجیحات مختلف ہیں- کچھ کا کہنا ہے کہ دودھ پلانے کے لیے وقت درکار ہے اور آج کی مصروف اور تیز رفتار دنیا میں ماں کے پاس وقت نہیں- یہ کام آسان ہے کہ نوکرانیوں کے ذریعے بچوں کو بوتل میں دودھ دے دیا جائے- اکثر کا کہنا یہ ہے کہ دودھ کم اترتا ہے- بچہ بھوکا رہ جاتا ہے٬ اب ترقی کا دور ہے آج بچہ ہسپتال میں ہے اور دوسرے دن بچے کے ساتھ ماں گھر پر اور تیسرے دن سے ماں گھریلو کام کے لیے ہمہ وقت موجود ہو- بڑی بوڑھیاں زچگی کے دس پندرہ دن تک ماں کو کام کرنے نہیں دیتی تھیں- اس کی غذا اور سہولت کا بہت خیال رکھا جاتا تھا-
 

اس طرح ماں کا وافر دودھ بچے کو ملتا رہتا تھا- اب ایسا کیوں ہو گیا ہے؟ دین میں دو سال تک بچے کو ماں کے دودھ پلانے کی تاکید ہے-

بچوں کو خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ہم متوجہ ہوں تو حادثات کے کم ہو جانے کا امکان بڑھ جاتا ہے-

* ایسی تمام کرسیوں کا استعمال ترک کر دیں٬ جن پر بچہ چڑھ کر آگے کی طرف جھکتے ہوئے گر جائے- یاد رکھیں اس کے گرنے سے سر پر یا پیشانی پر چھوٹی یا بڑی چوٹ لگ سکتی ہے-
* تمام ایسی چیزیں چاہے وہ کتنی ہی خوبصورت ہوں اور آپ ضروری خیال کرتے ہوں٬ ان کے کنارے تیز نہ ہوں- یہ چیزیں چاہے شیشے کی ہوں٬ لکڑی کی یا المونیم کی ہوں٬ ان کو استعمال نہ کریں-
* تمام استعمال کی چیزیں بچوں کی پہنچ سے دور ہوں اور انہیں الماری میں بند رکھیں- بچہ ہمیشہ ایسی جگہوں تک رسائی کے لیے خواہاں رہتا ہے٬ اس لیے اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس آس پاس کوئی اسٹول یا کرسی نہ ہو٬ جس پر چڑھ کر وہ کھولنے کی کوشش کرے-
* رات کو سوتے وقت اگر بچہ آپ کے ساتھ سوتا ہے تو اس کو علیحدہ صاف ستھرے بستر پر سلائیں- اپنے ساتھ سلانے میں یہ خطرہ موجود ہے کہ وہ آپ کے کروٹ لینے سے دبے اور اس کا دم گھٹ جائے- یہ یاد رکھیں ایسی موتیں ہو چکی ہیں-
* پانچ سال سے کم عمر بچے کی طرف سے کسی صورت میں غافل نہ ہوں- اس پر ہمہ وقت نظر رکھیں- جو باتیں وہ کرنا چاہتا ہے انہیں توجہ سے سنیں اور اس کو یہ احساس نہ ہو کہ آپ کے پاس اس کے لیے وقت نہیں ہے- نوکروں پر بچوں کو نہ چھوڑیں-
* اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی بھی نکیلی چیز بچے کی دسترس میں نہ ہو- قینچی٬ چاقو٬ چھری٬ تیز پنسل٬ کیل٬ نیل کٹر کسی قیمت پر اس کے استعمال میں نہ آئے- ان چیزوں کے ذریعے چھوٹے بڑے زخم بچوں کو لگتے رہتے ہیں-
* اکثر گھروں میں سکے بہ کثرت ادھر اُدھر پڑے ہوتے ہیں- یہ بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں- بچوں کی سرگرمیوں پر کوئی پابندی نہیں ہوتی- ایک لمحے میں بچہ سکہ نگل سکتا ہے- پیچیدگی ہو جائے تو بات آپریشن تک پہنچ جاتی ہے- ایک خاتون نے بتایا کہ وہ بازار سے گھر آئی- کچھ مہمان موجود تھے- بچی میرے ساتھ تھی- فرش پر بیٹھ کر اخبار پڑھ رہی تھی کہ فون آ گیا- سن کر آئی تو دل دھک سے رہ گیا- بچی نے وہاں رکھے دو میں سے ایک سکہ نگل لیا تھا- ایک ہفتہ بڑی پریشانی کے بعد وہ سکہ نکالا گیآ
-

خود میری نواسی نے ایک سکہ نگل لیا- بیٹی امریکا میں تھی- میں اس کے پاس موجود تھا- ایمرجنسی میں نواسی لے جائی گئی٬ کئی ایکسریز ہوئے- بات یہ طے ہوئی کہ براز پر نظر رکھیں- امید ہے کہ سکہ نکل جائے گا- یہ کوئی کھیل نہیں کہ آپ بچے کو سکے دے دیں اور وہ ان سے کھیلتا رہے- ہر ایک سے یہ کہہ رکھیں کہ بچے کو اگر سکے سے کھیلتے دیکھیں تو بہلا پھسلا کر اس سے سکہ لے لیں-

* بجلی کے تمام پوائنٹ جو بچوں کی پہنچ میں ہوں٬ ٹیپ سے بند کر کے رکھیں-
* ٹی وی کے ساتھ کھیلنے کی بچے کی براہ کرم حوصلہ افزائی نہ کریں- ایسا ٹی وی رکھیں کہ وہ فکس ہو٬ آگے پیچھے نہ کیا جا سکتا ہو- بچے اپنی خواہش کے مطابق اس آگے پیچھے کرنے کا بہت شوق رکھتے ہیں- یہ یاد رکھیں کہ ٹی وی اگر بچے پر گر جائے تو اس سے بچے کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے-
* بچوں کے سامنے دوائیں استعمال نہ کریں اور نہ کسی قیمت پر ان کو کوئی دوا باوجود ان کے ضد کرنے کے دیں- بچوں کی دوا بھی ہو تو بالکل نہ دیں- اگر آپ ایسا کریں گے تو اس سے ان کو ترغیب ملے گی اور وہ کسی وقت کوئی بھی دوا بڑی مقدار میں کھا سکتے ہیں-
* گیس ہیٹر٬ بجلی کا ہیٹر٬ کمرے کو گرم رکھنے اور سردی سے بچنے کا ایک اہم ذریعہ ہوتے ہیں- اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ ہر حال میں بچوں کی پہنچ سے دور ہوں٬ بہتر ہے کہ یہ اونچائی پر لگائے جائیں- اس بات کا خیال کر لیں کہ بچہ کسی سہارے کے ذریعے ان تک نہ پہنچ سکے- جب بھی آپ ہیٹر استعمال کریں ایک بڑی کھڑکی یا کوئی دروازہ کھلا رکھیں٬ بالکل بند کمروں میں بچے کو سانس کی تکلیف بڑے عمر کو لوگوں کی نسبت زیادہ ہو سکتی ہے- گیس ہیٹر کا استعمال ایک بڑی ذمہ داری کا کام ہے- اس کو کسی پر نہ چھوڑیں اور سوتے وقت اس کا مین سوئچ بند کر کے سوئیں- کسی قیمت پر گیس بند کیے بغیر نہ سوئیں-
*بجلی کے پنکھے کو بہت ہی احتیاط سے استعمال کریں- ہمہ وقت نظر رکھیں کہ بچہ اس سے کسی قیمت پر نہ کھیلے- بہتر یہ ہے کہ یہ پنکھے دیوار پر لگائے جائیں- ڈیزرٹ کولر جو باہر سوتے وقت لگائے جاتے ہیں٬ ان کے تاروں اور سوئچ اور خود کولر کو ذمے داری سے استعمال کریں- سیزن آنے سے پہلے ان کی تاروں وغیرہ کو چیک کریں اور یہ بھی دیکھ لیں کہ کولر میں کرنٹ تو نہیں آرہا ہے-
* باتھ روم میں سخت فرش٬ دوائیں اور پانی کی بہتات بچوں کو حادثے میں مبتلا کر سکتے ہیں-
* کبھی بھی باتھ روم میں/ٹب میں بچے کو اکیلا نہ چھوڑیں- یہ بڑی ذمے داری کا کام ہے اور آپ کی بے توجہی بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے- بچہ 2 سے 3 انچ کے پانی میں بھی زندگی سے ہاتھ دھو سکتا ہے-
* کموڈ کا ڈھکن بند رکھیں اور بچے کو اسے استعمال کرنے کی ترغیب نہ دیں-
* تمام دروازوں کے تالے بند رکھیں٬ تاکہ بچے انہیں کھول نہ سکیں-
* بچوں کی پہنچ سے پلاسٹک بیگ دور رکھیں-
* گھروں کے جس زینے پر بچہ چڑھ سکتا ہو٬ اس کو محفوظ گیٹ کے ذریعے بچوں کے لیے بند رکھیں- اس کے ساتھ اس بات کا خیال ضروری ہے کہ سیڑھیوں کے ساتھ جو گرل بنی ہو وہ اتنی تنگ ہو کہ بچہ اس سے نکل کر گر نہ سکے اور نہ کود سکے- کم اونچائی بھی اتنی نہ ہو کہ بچہ اوپر چڑھ کر نیچے گر سکے-

ان میں سے بعض ضروری احتیاطی اقدامات کا مقصد بچوں کو حادثات سے محفوظ رکھنا ہے- مناست یہ ہے کہ پورے خاندان کے افراد ان پر غور کر کے احتیاطی تدابیر اختیار کریں- حفظ ما تقدم اہم ضرورت ہے-

آخر میں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کے لیے وقت نکالیں- ان سے محبت اور توجہ سے باتیں کریں اور انہیں سنیں بھی- اس طرح بچے میں خود اعتمادی اور حوصلہ پیدا ہوگا- ہنستے کھیلتے ماحول کے بچے سوتے میں بھی مسکراتے رہتے ہیں-

بشکریہ- محمد ادریس٬ فیصل آباد

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: