میری طلعت حسین سے ملاقات کلفٹن
کے ساحل پر واقع ایک ہوٹل میں اس وقت ہوئی تھی۔ جب وہ ایک صحافتی ورکشاپ
میں شریک تھے۔ اس ورکشاپ میں بھارت سے آنے والے کئی صحافی موجود تھے۔
خوبصورت، وجہیہ اور انگریزی اردو میں یکساں مہارت رکھنے والے طلعت حسین ان
دنوں اسلام آباد میں دی نیوز کے نیوز ایڈیٹر تھے۔ ٹیلی ویژن پر ان کا مقبول
پروگرام سویرے سویرے جاری تھا۔ بعد میں پی ٹی وی ورلڈ پر ان کا پروگرام
نیوز نائٹ بھی مقبول ہوا۔ بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ طلعت حسین نے ہیڈ
اینڈ شولڈر کے ایک اشتہار میں ماڈلنگ بھی کی ہے۔ وہ پاکستان کے مانے ہوئے
ان چند صحافیوں میں سے ہیں۔ جو نیشنل ڈیفینس کالج، ایر وار کالج، نیول وار
کالج، پاکستان فارن سروس ٹرینگ اکیڈمی اور قائد اعظم یونیورسٹی میں لیکچر
کے لئے بلائے جاتے ہیں۔ وہ سی این این، لاس اینجلس ٹائمز، گارجین، نیویارک
ٹائمز جیسے اخبارات میں لکھتے ہیں۔ یوں انہیں عالمی شہرت حاصل ہے۔ پاکستانی
میڈیا میں ان کی شہرت کے کئی حوالے ہیں۔ جن میں لائیو وتھ طلعت ان کا مقبول
ترین پروگرام تھا۔ پیر کے دن جب اسرائیل نے غزہ کے محصور اور مظلوم باشندوں
کو امدادی سامان لے جانے والے قافلے پر حملہ کیا اور دنیا کے مختلف ملکوں
سے تعلق رکھنے والے این جی او سے تعلق رکھنے والے 20 سے زائد افراد ہلاک
ہونے کی خبر آئی۔ تو پاکستان اور دنیا کی صحافتی برادری کو اس بات نے مضطرب
کردیا کہ اس امدای قافلے میں طلعت حسین بھی شامل ہیں۔ جنہیں دیگر افراد کے
ساتھ اسرائیلی فوجیوں نے گرفتار کرلیا ہے۔ یہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی
امداد کے لیے جانے والا تاریخ کا سب سے بڑا قافلہ تھا۔ جس میں دنیا بھر سے
سینکڑوں افراد شامل ہیں۔ قافلے میں ندیم احمد خان ان کی اہلیہ، آج نیوز کے
نیوز اور کرنٹ افئیر کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر طلعت حسین، پروڈیوسر رضا محمود
آغا پاکستانی مسلمانوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ ترکی کی غیر سرکاری تنظیم
آئی ایچ ایچ کے سربراہ محترم بلند یلدرم اس قافلے کی قیادت کر رہے ہیں۔
تیرہ بحری جہازوں پر مشتمل امدادی سامان بھی قافلے کے ہمراہ ہے۔ اس سامان
میں ادویات، اشیائے خورد و نوش،کپڑے اور دیگر امدادی سامان شامل ہے۔ قافلہ
اس سامان کو غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے حوالے کرنا چاہتا تھا۔ لیکن ادھر
اسرائیل کے تیور اور ارادے جو پہلے ہی سے کچھ خطرناک دکھائی دے رہے تھے۔
انہوں نے اس نہتے قافلے پر گولیوں کی بارش کردی اور قافلے میں شامل افراد
کو گرفتار کرلیا۔ یہ اسرائیل کی دہشت گردی اور غنڈہ گردی کا ایسا ثبوت ہے۔
جس کی عالمی طور پر مذمت کی جارہی ہے۔ ترکی میں اس قافلے کو تقریباً دس
لاکھ افراد نے استنبول میں جمع ہوکر الواع کہا تھا۔ اور ان کے نعروں سے صرف
استنبول ہی نہیں بلکہ اسرائیلی ایوانوں کے دروبام بھی گونج اٹھے اور
اسرائیلی حکومت حواس باختہ ہوگئی۔ اسرائیل کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے
کہ اس مہم کے پیچھے ترک حکومت ہے اور یہ امدادی سامان حماس کے لیے بھجوایا
جارہا ہے، چنانچہ اسرائیل نے اشدد نامی بندرگاہ پر اپنے جنگی جہاز جمع کئے
اور بیچ سمندر میں قافلے پر حملہ کیا۔ اس سے قبل بلند یلدرم نے کہا تھا کہ
ہمارا مقصد خطے میں موجود تمام قیدیوں اور مظلوموں کی آزادی ہے اور یہ
ہمارا اجتماعی مسئلہ ہی، ہمارا یہ قافلہ اس تحریک کا نقطہ آغاز ہے اور
ہمارا دوسرا بڑا مقصد پناہ گزین فلسطینیوں کو مکانات بنا کر دینا اور انہیں
اپنے گھروں میں دوبارہ بسانا ہے۔“ اسرائیلی فوج نے اس قافلے پر کمانڈو
فوجیوں کے ذریعے حملے کیا۔ جس میں کم از کم بیس افراد کے ہلاک ہوئے اور بہت
سے زخمی ہیں۔ حملے کے بعد ترکی کے وزیر خارجہ نے سلامتی کونسل کے ہنگامی
اجلاس کے دوران مطالبہ کیا کہ اسرائیلی حملے کی بین الاقوامی تحقیقات کرائی
جائیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اسرائیل کو فوری طور پر معافی مانگنی چاہیے اور
پکڑی گئی چھ کشتیوں کو چھوڑ کر حراست میں لیے گئے فلسطینی نواز امدادی
کارکنوں کو رہا کر دینا چاہیے اور انہیں زرِ تلافی ادا کرنا چاہیے۔’اسرائیل
کے سب سے بڑے اتحادی امریکہ نے ابھی تک اس حملے پر محتاط ردِ عمل ظاہر کیا
ہے اور اپنے بیان میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرنے پر
اکتفا کیا ہے۔ حملے کی مزید اطلاعات کے مطابق حملہ ساحل سے ساٹھ کلومیٹر
دور بین الاقوامی پانیوں میں ہوا۔ ترک ٹیلی ویژن پر دکھائی جانے والے
تصاویر میں اسرائیلی فوجی کشتیوں پر انسانی حقوق کے کارکنوں سے لڑتے ہوئے
دکھائے گئے۔ ٹیلی ویژن چینل الجزیرہ نے اسی کشتی سے حملے کی خبر نشر کرتے
ہوئے بتایا کہ اسرائیلی بحریہ نے فائرنگ کی اور کشتی پر سوار ہو گئی جبکہ
کشتی کے کپتان زخمی ہو گئے ہیں۔ الجزیرہ کی خبر اس آواز پر ختم ہوئی جس میں
ایک شخص عبرانی میں کہتا ہوا سنائی دیا ہے کہ ’سب بکواس بند کر دیں‘۔ ان
کشتیوں پر ہزاروں ٹن امدادی سامان موجود ہے جس میں سیمنٹ اور تعمیر میں کام
آنے والا دوسرا سامان بھی موجود ہے جو اسرائیل غزہ لے جانے کی اجازت نہیں
دیتا۔ اسرائیل نے غزہ میں حماس کے اقتدار میں آنے کے بعد سے علاقے کی
اقتصادی ناکہ بندی کر دی تھی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ہر ہفتے پندرہ ہزار
ٹن امداد غزہ میں لے جانے کی اجازت دیتا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ
وہاں کی ضرورت کا چوتھا حصہ بھی نہیں۔ غزہ کے عوام کے لیے انسانی ہمدردی کی
بنیاد پر امدادی سامان لے کر جانے والے بحری جہازوں کے قافلے فوٹیلا پر
اسرائیلی فوجیوں کے حملے کے بعد لاپتہ ہونے والے تمام پاکستانی شہریوں کے
بارے میں پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس حملے میں محفوظ ہیں اور وہ
اسرائیل کی تحویل میں ہیں۔ ان میں پاکستان کے نجی ٹیلی ویژن آج نیوز کے
نیوز اور کرنٹ افئیرز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر طلعت حسین اور پروڈیوسر رضا
محمود آغا کے علاوہ ایک غیر سرکاری تنظیم کے چیئرمین ندیم احمد خان ہیں۔ یہ
افراد اس قافلے میں شامل ایک جہاز پر سوار ہیں۔ ترکی کی معروف رفاہی و
فلاحی تنظیم آئی ایچ ایچ اس مہم میں پیش پیش ہے۔ غزہ کے محاصرے کا آغاز 27
دسمبر، 2008ء کو اسرائیلی فضائی حملوں سے ہوا، جس کو اسرائیل نے آپریشن
کاسٹ لیڈ (Operation Cast Lead) کا نام دیا، اس تنازع کا آغاز نومبر، 2008ء
میں غزہ میں اسرائیلی فوج کے چھاپے میں 6 فلسطینی مسلمانوں کی شہادت سے ہوا۔
اس تنازع میں اب تک 550 سے زائد فلسطینی مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ اب تک ہلاک
ہونے والے 550 فلسطینیوں میں سے 25 فیصد عورتیں اور بچے ہیں جبکہ زخمیوں
میں ان کا تناسب 45 فیصد ہے۔ حملوں کے نتیجے میں غزہ میں صورتحال مزید بگڑ
چکی ہے اور اشیائے خورد و نوش اور طبی امدادی سامان کی سخت قلت ہو چکی ہے۔
علاوہ ازیں پینے کا صاف پانی اور ایندھن بھی نایاب ہے۔ شہر کے تمام ہسپتال
زخمیوں سے بھرے پڑے ہیں اور طبی امداد نہ ملنے کے سبب زخمی دم توڑ رہے ہیں۔
علاقے کی بجلی پہلے ہی سے معطل ہے اور لاکھوں لوگ ایک بدترین انسانی المیہ
سے دوچار ہیں۔ غزہ سے ملنے والی اطلاعات بھی انتہائی محدود ہیں کیونکہ
اسرائیل نے غزہ میں صحافیوں کا داخلہ بند کر رکھا ہے اس لیے حقیقی صورتحال
کا درست اندازہ نہیں ہو پارہا۔ چار صدیوں تک فلیسطین پر عثمانیوں کی
حکمرانی رہی ہے۔ 1917ء میں برطانیہ نے اس خطے کو اپنی تحویل میں لے کر
اعلان بالفور کے ذریعہ یہودیوں کے لئے ایک قومی ریاست کے قائم کی۔ جس کے
بعد سے ارض فلسطین پر مسلمانوں کا خون بہہ رہا ہے۔ اسرئیل کی دہشت گردی کو
امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔ فوٹیلا کے امدادی قافلے پر حملے نے یہودیوں
کی دہشت گردی کو بے نقاب کردیا ہے۔ پاکستان کے صحافیوں نے اس قافلے میں
شامل ہوکر جرات اور بہادری کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔ پاکستانی عوام اپنے
ہیروز کا استقبال کرنے کو چشم براہ ہے۔ |