مغربی ثقافت یا ذہنی کثافت ۔۔۔؟

مغرب کی ثقافت کا بظاہر ایک تابناک پہلو " آزادی اظہارِ رائے" ہے۔ لیکن آثار و قرائن اور زمینی حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ اس آزادی کی حدود کا تعین، عالمی انسانی سماج کے تمام طبقوں کا خیال رکھ کر طے کئے جانے کے بجائے چند مخصوص اذہان یا طبقہ جات نے اپنی مرضی سے طے کر رکھے ہیں۔

دنیا کے کسی کونے میں بھی ہو، ایک مسلمان اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی یقیناً برداشت نہیں کر سکتا۔ کیا یہ چیز بھی دنیا کے کسی انسان کو، چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے مذہب کی اعلیٰ اور مقتدر ہستی پر کی جانے والی تضحیک و استہزاء کو صرف اس لیے برداشت کرے کہ "آزادی اظہارِ رائے" فرد کا بنیادی حق ہے؟

آج کے گلوبل ولیج میں کس کا بنیادی حق کیا ہے اور کس قدر ہے اور کتنی حد میں ہے ۔۔۔۔ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ کیا اس کا فیصلہ انکل سام کریں گے؟ یا فیس بک انتظامیہ؟ یا وہ صیہونی لابی جو دنیا کے تمام مالی معاملات پر غاصبانہ قبضہ رکھتی ہے؟

بےشک ! مانا کہ آج مسلمان اس حالت میں نہیں ہیں کہ اپنا فیصلہ یا اپنے اصول و ضوابط دنیا سے قبول کرا سکیں یا کم سے کم انہیں قائل ہی کر سکیں۔ مگر کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ "بنیادی انسانی حقوق" پر صرف کسی ایک طبقہ کی اجارہ داری قائم ہو جائے؟ نسلِ انسانی کا ایک بنیادی حق جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے، وہ ہے : جیو اور جینے دو ‫!

خود جینے اور دوسروں کو جینے دینے کے لیے ایک دوسرے کے تئیں عزت و احترام لازمی امر ہے۔

اڈولف ہٹلر ۔۔۔۔ تاریخ کی وہ شخصیت ہے جس کے کردار کے کسی ایک "اچھے" پہلو کی بھی سادہ انداز میں تعریف کی جائے تو ایک "خاص طبقہ" کو گویا آگ لگ جاتی ہے اور تعریف کرنے والے فرد یا گروہ کو الزام دیا جاتا ہے کہ "جیو اور جینے دو" کے اصول کے برخلاف اس طرح کی تعریف کے ذریعے "ایک قوم" کے جذبات کو مشتعل کیا جا رہا ہے۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ ایسا الزام لگاتے وقت "اس قوم" کو اپنے ہی ایک زریں اصول "آزادی اظہارِ رائے" کی بالکل بھی یاد نہیں آتی ! اور یوں جنگ چھیڑ دی جاتی ہے کہ قومِ یہود کو پریشان کیا جا رہا ہے، ان کی توہین و ملامت کی جا رہی ہے۔

اس کی مثال دیکھنی ہو تو اس صفحہ کو وزٹ کیجئے ‫:
One Facebook, Two Faces [One is Real Ugly‪]

https://propakistani.pk/2010/05/23/one-facebook-two-faces-one-is-real-ugly

فیس بک انتظامیہ کے تضاد یا دہرے معیار کی یہ اعلیٰ مثال بلکہ ثبوت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ فیس بک کو ‫Adolf Hitler Fan Page اس لیے برداشت نہیں کہ اس سے کسی قوم / مذہب کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ مگر۔۔۔۔ فیس بک کو ‫Draw Muhammad Day Page اس لیے قبول ہے کہ یہ "آزادی اظہارِ رائے" کے زمرے میں آتا ہے (چاہے اس صفحہ کے ذریعے کسی قوم یا مذہب کے ماننے والوں کو کتنی ہی دلی تکلیف کیوں نہ پہنچتی ہو )۔

صاف بات یہ ہے کہ گلوبل ولیج پر اپنا من چاہا فیصلہ مسلط کرنے والوں کو "بنیادی انسانی حقوق" کی پاسداری سے کوئی سروکار نہیں بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ دنیا صرف ان ہی کے تخلیق کردہ خودساختہ اور متضاد اصول و ضوابط کو قبول کرے اور اس پر عمل پیرا ہو ۔۔۔ اب چاہے ان اصولوں سے کسی نسل، قوم، قبیلہ، مذہب، زبان، ثقافت، جنس، جسمانی معذوری وغیرہ کی کتنی ہی خلاف ورزی کیوں نہ ہوتی ہو۔

یہ ایک علیحدہ موضوع ہے کہ ان حالات میں فیس بک کا استعمال کیا جانا چاہئے یا نہیں؟
کیا تمام مسلمانوں کو فیس بک پر سے اپنا اکاؤنٹ مستقلاً ختم کر لینا چاہئے؟

اسلام نے سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کے ذرائع سے استفادہ اور ان کے ذریعے تبلیغِ دین کو شائد کہیں بھی منع نہیں کیا بلکہ اس کی ترغیب ہی دلائی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایسا مخصوص ذریعہ بھی استعمال کیا جانا درست ہے جس کے کسی حصہ سے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسلسل اہانت کی جاتی ہو؟ کیا "امر بالمعروف نھی عن المنکر" کی خاطر حمیتِ دین یا غیرتِ ملی سے دامن چھڑا لینا چاہئے؟

وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ اسلامی ممالک کے سربراہان اور معتبر و مقتدر علمائے کرام حفظہم اللہ اس موضوع پر اپنی مشترکہ رائے اور اپنے عملی اقدام سے دنیا کو آگاہ کریں۔

اس کا فیصلہ عوام کے جذبات پر چھوڑا جانا بہرحال درست عمل نہیں ہوگا!!
Bazooq
About the Author: Bazooq Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.