حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ایک مرتبہ نبیِ
کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور میرے درمیان کچھ بات ہوگئی ، تو نبیِ کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’تم ہمارے درمیان کس کو حَکم بناؤ گی کیا
عمر(رضی اللہ عنہ) ٹھیک ہیں؟‘___فرماتی ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہ
:’’ مَیں نے کہا عمر (رضی اللہ عنہ) نہیں، کیوں کہ وہ سخت آدمی ہیں۔‘‘ تو
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کیا ابوبکر(رضی اللہ عنہ ) پر
راضی ہو کہ وہ فیصلہ کریں ؟‘‘ مَیں نے عرض کیا :’ ابوبکر(رضی اللہ عنہ)
ٹھیک ہیں۔‘‘
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا کر
فرمایا:’’ عائشہ ایسی ایسی بات کہتی ہے اور معاملہ کچھ اس طرح ہے۔‘‘ حضرت
عائشہ روایت فرماتی ہیں کہ :’’ مَیں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ
کہہ دیا کہ ’ آپ اللہ سے ڈریں اور صرف حق بات کہیں۔‘ فرماتی ہیں کہ
:’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میری ناک پر ہاتھ مارا جس سے میری ناک
لہولہان ہوگئی اور فرمایاتیرے ماں باپ نہ رہیں تو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کو کہتی ہے کہ حق بات کہیں اور اللہ سے ڈریں!___آپ ﷺجو فرمارہے ہیں
کیا وہ حق نہیں ہے؟ ‘‘___حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:’’ میری
ناک کے نتھنے ایسے ہوگئے جیسے مشکیزے کا نچلا حصہ ہوتا ہے۔ ‘‘
نبیِ کریم رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ ماجرا دیکھا تو تو
فرمایا:’’ اے ابوبکر! ہم نے تو تمہیںاس لیے نہیں بلایاتھا ۔‘‘ حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ گھر میں کھجور کی ایک سوکھی ٹہنی
پڑی ہوئی تھی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وہ اٹھائی اور مجھے ضرب لگانا
شروع کردی، مَیں بھاگ کر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر سے لپٹ گئی ۔
حتیٰ کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’قسم ہے تمہیں ابوبکر! جواَب تم نے مارا تو، ہم
نے تمہیں اس لیے تو نہیں بلایا تھا ۔‘‘ پھر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ
تشریف لے گئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے
دور جاکر کھڑی ہوگئیں ، آپ ﷺ نے فرمایامیرے قریب آجاؤ تو حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا نے انکار کردیا ۔ آپ ﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا ابھی تھوری دیر
پہلے تو بڑے زور سے میری کمر سے لپٹی تھیں؟‘‘
ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے ساتھ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو
بھی واقعات اور معمولات پیش آئے دراصل وہ امت کے لیے ایک سبق ہیں کہ ہم
اُن حکایات سے زندگی گذارنے کے صحیح طریقے اور آداب سیکھیں ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک حبشی عورت کا کھیل دیکھنا
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ ایک مرتبہ نبیِ کریم صلی
اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ہم نے اچانک ایک شور و غل سنا ، اور ہمیں
بچوں کی آوازیں سنائی دیں۔ جب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھ کر
دیکھا تو ایک حبشی عورت بچوں کو عجیب و غریب قسم کے کھیل دکھا رہی تھی اور
ساتھ میں ناچ رہی تھی۔ بچّے اور دوسرے لوگ اس کے گرد جمع تھے۔ نبیِ کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے فرمایاکہ اے
عائشہ! ادھر آؤ اور دیکھو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاحضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک
کندھے پر اپنارخسار رکھ کر اس عورت کو دیکھنے لگیں۔
تھوڑی دیر بعد آپ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے پوچھا :’’ کیا جی
بھر گیا ہے؟ کیا جی بھر گیا ہے؟ ‘‘ تو مَیں آپ ﷺ سے یہی کہتی کہ جی نہیں
مَیں دیکھنا چاہتی ہوں اور میرا یہ کہنا اس وجہ سے نہیں تھا کہ مجھے اور
دیکھنے کا شوق تھا بل کہ مَیں تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں
اپنی محبت اور اپنے مرتبے کا اندازہ لگانا چاہتی تھی کہ آپ ﷺ کے یہاں میرا
کیا درجہ ہے؟ یہاں تک کہ آپ پر تھکن کے آثار ہوئے۔
اتنے میں اچانک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہاں سے گذر ہوا تو ان کے رعب و
دبدبہ کی وجہ سے مجمع اِدھر اُدھرہوگیا تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:’’ مَیں جنوں اور انسانوں کے شیطانوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ ’’عمر
‘‘ (رضی اللہ عنہ کے رعب و ہیبت) سے ڈر کر بھاگ رہے ہیں۔ اس کے بعد حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا لوٹ آئیں۔ (ترمذی شریف)
محدثین کرام علیہم الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کا یہ فرمانا کہ جنوں اور انسانوں کے شیطانوں کو دیکھ رہا ہوں یہ گویا
اس اعتبار سے تھا کہ وہ ایک لہو و لعب کی صورت تھی اور ممکن ہے اس میں کوئی
ناپسندیدہ چیز بھی ہو لیکن اُس کھیل میں کوئی حرام کام ہرگز نہیں تھا ورنہ
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیسے اسے دیکھتے اور کیسے حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہاکو دکھاسکتے تھے؟___‘‘
نبیِ کریم ﷺ کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا دوڑ لگانا
حضرت امام احمدرحمۃ اللہ علیہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا:’’ ایک دفعہ ایک غزوہ کے موقع پرسفر میں
مَیں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی۔ میری عمر اس وقت چھوٹی تھی
اور میرا بدن ہلکا پھلکا تھا۔نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام صحابۂ
کرام رضوان اللہ علیہم کوحکم دیاکہ وہ آگے چلے جائیں، وہ سب آگے چلے گئے
پھر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا:’ آؤ آپس میں دوڑ
لگائیں، دیکھیں کون دوڑ میں آگے نکلتا ہے؟ ‘ ‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’مَیں نے نبیِ کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کے ساتھ دوڑ لگائی۔مَیں دُبلی پتلی تھی اس لیے دوڑ میں مَیں آپ
ﷺ سے آگے نکل گئی۔ لیکن اس موقع پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش
ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد پھر اسی قسم کا واقعہ پیش آیا۔میں فربہ ہوگئی اوروہ
واقعہ بھول گئی تھی۔ ایک مرتبہ سفر میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
ساتھ تھی ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
کو حکم دیا تم آگے چلے جاؤ۔ وہ سب آگے چلے گئے تو نبیِ کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:’ آؤ دوڑ لگائیں اور دیکھیں کہ کون آگے
نکلتا ہے۔‘ چناں چہ اِس مرتبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے نکل
گئے۔آپ مسکرانے لگے اور فرمایا: ’’ اے عائشہ ! یہ اس دن کا جواب اور بدلہ
ہے ۔‘‘ |