اپریل فول، تباہی کی نشانی
(Falah Uddin Falahi, India)
یکم اپریل مختلف ملکوں میں بیوقوف بنانے کے
دن APRIL FOOL,S DAYکے طور پر منایا جاتا ہے اس دن جھوٹ بول کر جھوٹی خبریں
لوگوں تک پہونچا کر ،جھوٹی دعوتیں دے کر لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا
ہے،ہنسی مذاق میں ایک دوسرے کو جھوٹی کہانیاں سناتے ہیں ،جو ان خبروں ،دعوتوں
،کہانی وغیرہ کو سچ مان لے تو اس کی بیوقوفی کا اعلان کر نے کے لئے اپریل
فول کہتے ہیں اور سامنے والا اپنی اس بیوقوفی پر شرمندہ ہوتا ہے کبھی کسی
حادثے کی جھوٹی اطلاع کی وجہ سے جان کے لالے پڑجاتے ہیں ،دل کا دورہ پڑجاتا
ہے ،مثلا کسی نے کسی کو اہل و عیال کے اکسڈینٹ کی خبر پہونچادی ،لڑکے ،بیوی
یا دوست کی وفات سے مطلع کر دیا ،کسی کو اس کی اہلیہ کے غیر مرد سے تعلق
ہونے کی جھوٹی خبر دیدی ،ذہن میں یکم اپریل اور اس تاریح کے حوالہ سے جھوٹی
خبروں کی اشاعت کی بات یاد نہیں رہی ،ایسے میں سننے والے کا جو حال ہوگا ،وہ
معلوم ہے۔کبھی کبھی کوئی ناخوشگوار اور بڑا حادثہ پیش آجاتا ہے ۔
اس روایات کے آغاز کے سلسلے میں جو واقعات ذکر کئے جاتے ہیں اس کی کوئی
تاریخی حیثیت مسلم نہیں ہے،لیکن اپریل فول سے ان واقعات کے تعلق کا یکسر
انار بھی ہمارے لئے ممکن نہیں،کیونکہ آثار و قرائن کو اس کے صحیح ہونے کی
نشان دہی کرتے ہیں ،مثلا اسپین میں مسلمانوں کے زوال اور حکومت کے اختتام
کے بعد جب ابو عبد اﷲ نے غرناطہ کی چابھی شہنشاہ فرنیڈو کو پیش کیا ۔قبضہ
کے بعد مسلمانوں پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے وہ تاریخ کا دردناک اور
عبرت ناک واقعہ ہے،بہت سارے مسلمان قتل کر دئے گئے ،باقی جو عیسائی بن کر
رہ رہے تھے،ان سے اسپین کو پاک کرنے کے لئے یہ چال چلی گئی کہ اعلان کرایا
گیا کہ جو مسلمان جس ملک میں پناہ لینا چاہے اسے وہاں بھیج دیا جائے
گا،چنانچہ ایک کیمپ لگایا گیا،مسلمان وہاں آکر مال و اسباب اور علمی ذخائر
کے ساتھ جمع ہونے لگے ،ان کو اپنی جان اور ایمان کے بچ جانے کی خوشی ملک
چھوٹنے کے غم پر حاوی تھی،یکم اپریل کو حکومت کے اہل کاروں اور جرنیلوں نے
بذریعہ جہاز روانہ کیا اور بیچ سمندر میں جا کر منصوبہ کے مطابق جہاز کو
غرق آب کر دیا ،عیسائیوں نے خوشیاں منائیں کہ کیسا مسلمانوں کو بے وقوف
بنایا،اس دن سے یہ تاریخ اپریل فول کے طور پر منائی جانے لگی ،اور یہ رسم
پورے یورپ میں چل پڑی اور حد یہ کہ مسلمان بھی اپنے بھائیوں کی شہادت کے اس
دن کو اپریل فول کے طور پر منانے لگے ۔
ایک دوسرے واقعہ کا بھی ذکر ہے کہ قدیم رومن تہذیب میں نئے سال کا آغاز یکم
اپریل سے ہوا کرتا تھا ،1582ء میں پوپ جارج ہشتم نے جولین کلینڈر کی جگہ
نئے جورجین کلینڈر کا اجرا کیا ،اس کلینڈر کی رو سے یکم جنوری سال کا پہلا
دن قرار پایا ،لیکن آمدو رفت کی سہولت نہیں تھی اور نہ ہی خبر رسانی کے وہ
اسباب اور طریقے موجود تھے جو آج موجود ہیں ،اس لئے اس تبدیلی کی اطلاع بر
وقت دور دراز کے علاقوں تک نہیں پہونچ سکی ،چنانچہ جہاں خبر نہیں پہونچی
تھی وہاں کے لوگوں نے حسب سابق یکم اپریل کو ہی سال کا پہلا دن قرار دیا ،جن
لوگوں نے یکم جنوری سے سال کا آغاز کر دیا تھا انہوں نے ازراہ مذاق انہیں
یکم اپریل کو سال نو کی مبارک باد ارسال کیا ،پروگرام کے انعقاد کی اطلاع
دی ،حالانکہ یہ سب جھوٹ تھا،اس طرح یہ رسم پورے یورپ میں ارپیل فول کے طور
پر پھیل گئی اور موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ کے آسان ہونے کی وجہ سے تیزی
سے پھیلتی چلی جا رہی ہے۔اپریل فول کے حوالے سے یہ دونوں واقعات بتاتے ہیں
کہ اس کی بنیاد جھوٹ ،افترا اور مذاق پر ہے،جب کہ اﷲ تعالی کی جھوٹے پر
لعنت ،قرآن کریم میں مذکور ہے ،اﷲ تعالی کا یہ بھی ارشاد ہے کہ ’’بے شک
جھوٹ وہ لوگ گڑھتے ہیں جو اﷲ کی نشانیوں پر ایمان نہیں لاتے اور وہی لوگ
جھوٹے ہیں ‘‘اﷲ کے رسول ؐ نے منافق کی جو تین علامتیں بتائی ہیں ان میں ایک
یہ ہے کہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے ،بعض لوگ اپریل فول کو مزاح کے طور پر
مناتے ہیں ،اور سمجھتے ہیں کہ ازراہ مذاق جھوٹ بولنا حرام نہیں ہے ،یہ
دراصل شیطان اور نفس کا فریب ہے،جھوٹ بولنا حقیقت میں ہو یا ازراہ مذاق بہر
صورت حرام ہے ،یہی وجہ ہے کہ نبی ؐ نے اپنے مزاح کے بارے میں وضاحت فرمائی
کہ میں ہنسی مذاق کرتا ہوں ،لیکن اس میں بھی صرف حق بات کہتا ہوں ،اس کی
تائید ان واقعات سے بھی ہوتی ہے جس میں ایک اادمی نے اونٹ کا مطالبہ کیا تو
فرمایا ’’اسے اونٹ کا بچہ دے دو ،دریافت کرنے پر ارشاد ہوا کہ اونٹ ،اونٹ
کا بچہ ہی تو ہوتا ہے،ایک بڑھیا سے فرمایا ،بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی ،بوڑھیا
رونے گلی تو فرمایا کہ بوڑھیا بوڑھا پے کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گی ،یہ
اور اس قسم کے دوسرے واقعات یہ بتاتے ہیں کہ جھوٹ بولنا کسی بھی حال میں
جائز نہیں ہے،اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس رسم بد سے پرہیز کریں ،بھلا
کوئی اپنی بربادی پر خوشی مناتا ہے ،یہ عقل و خرد سے بھی بعید تر ہے ،خود
بھی اس جھوٹی رسم سے بچئے اور دوسروں کو بچنے کی تلقین کریں ،یہی خیر امت
ہونے کی آپ کی ذمہ داری ہے ۔
|
|