حد ہو گئی!

سورہ ھود میں رب العالمین کا ارشاد ہے:
’’نوح پر وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے، بس وہ لا چکے۔ اب کوئی ماننے والا نہیں ہے۔ ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑو اور ہماری نگرانی میں ایک کشتی بنانا شروع کردو اور دیکھو۔ جن لوگوں نے ظلم کیا ہے اُن کے حق میں مجھ سے سفارش نہ کرنا۔ یہ سارے کے سارے اب ڈوبنے والے ہیں۔ نوح کشتی بنا رہا تھا اور اس کی قوم کے سرداروں میں سے جو کوئی اس کے پاس سے گزرتاوہ اُس کا مذاق اڑاتا تھا۔ اس نے کہا: ’اگر تم ہم پر ہنستے ہو تو ہم بھی تم پر ہنس رہے ہیں، عنقریب تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کسی پر وہ عذاب آتا ہے جو اُسے رُسوا کر دے گا اور اور کسی پر وہ بَلا ٹوٹ پڑتی ہے جو ٹالے نہ ٹلے گی۔‘
یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنور اُبل پڑا تو ہم نے کہا: ’ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو، اپنے گھر والوں کو بھی، سوائے اُن اشخاص کے جن کی نشاندہی پہلے کی جا چکی ہے۔ اس میں سوار کرا دو اور ان لوگوں کو بھی بٹھا لو جو ایمان لائے ہیں۔‘ اور تھوڑے ہی لوگ تھے جو نوح کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ نوح نے کہا: ’سوار ہو جاؤ اس میں، اﷲ ہی کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی اور اس کا ٹھہرنا بھی۔ میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے۔‘

کشتی اُن لوگوں کو لئے چلی جا رہی تھی اور ایک ایک موج پہاڑ کی طرف اُٹھ رہی تھی۔ نوح کا بیٹا دور فاصلے پر تھا۔ نوح نے پکار کر کہا: ’بیٹا ہمارے ساتھ سوار ہو جا، کافروں کے ساتھ نہ رہ۔‘ اُس نے پلٹ کر جواب دیا: ’میں ابھی پہاڑ پر چڑھا جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچا لے گا۔‘۔ نوح نے کہا: ’آج کوئی چیز اﷲ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے، سوائے اس کے کہ اﷲ ہی کسی پر رحم فرمائے۔‘ اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہو گئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا۔ حکم ہوا ’اے زمین اپنا سارا پانی نگل جا اور اے آسمان رُک جا‘۔ چنانچہ پانی زمین میں بیٹھ گیا۔ فیصلہ چکا دیا گیا۔ کشتی جودی (پہاڑ) پر ٹک گئی اور کہا دیا گیا کہ دور ہوئی ظالموں کی قوم۔

نوح نے اپنے رب کو پکارا کہا: ’اے رب! میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے اور تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب حاکموں سے بڑا اور بہتر حاکم ہے۔‘ جواب میں ارشاد ہوا: ’اے نوح! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے۔ وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے، لہذا تو اِس بات کی مجھ سے درخواست نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے آپ کو جاہلوں کی طرح نہ بنا لے۔‘

جب حضرت نوح نے رب العزت سے اپنے بیٹے کی سفارش کی تو اﷲ نے اُسے ایک بگڑا ہوا کام قرار دیا۔ مولانا مودودی تفہیم القرآن میں کہتے ہیں کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کا کوئی عُضو سڑ گیا ہو اور ڈاکٹر نے اُسے کاٹ پھینکنے کا فیصلہ کیا ہو۔ اب وہ مریض ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ یہ تو میرے جسم کا حصہ ہے اسے کیوں کاٹتے ہو اور ڈاکٹر اس کے جواب میں کہتا ہے کہ یہ تمہارے جسم کا حصہ نہیں ہے کیونکہ یہ سڑ چکا ہے۔ اس جواب کا مطلب یہ نہیں کہ فی الواقع وہ سڑا ہوا عُضوجسم سے کوئی تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس کا مطلب دراصل یہ ہوگا کہ تمہارے جسم کے لئے جو اعضا مطلوب ہیں وہ تندرست اور کار آمد اعضا ہیں، نہ کہ سڑے ہوئے اعضا جو خود بھی کسی کام کے نہیں اور باقی جسم کو بھی خراب کر دینے والے ہیں۔ لہذا جو عُضو بگڑ چکا ہے وہ اس مقصد کے لحاظ سے تمہارے جسم کا ایک حصہ نہیں رہا جس کے لئے اعضا کا جسم سے تعلق مطلوب ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک صالح باپ کو یہ کہنا کہ یہ بیٹا تمہارے گھر والوں میں سے نہیں ہے کیونکہ اخلاق اور عمل کے لحاظ سے بگڑ چکا ہے یہ معنیٰ نہیں رکھتا کہ اس کے بیان ہونے کی نفی کی جا رہی ہے، بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ یہ بگڑا ہوا انسان تمہارے صالح خاندان کا فرد نہیں ہے۔ وہ تمہارے نسبی خاندان کا ایک رُکن ہو تو ہوا کرے، مگر تمہارے اخلاقی خاندان سے اس کا کوئی رشتہ نہیں اور آج جو فیصلہ کیا جا رہا ہے وہ نسلی نزاع کا نہیں کہ ایک نسل والے بچائے جائیں اور دوسری نسل والوں کو غارت کر دیا جائے بلکہ یہ کُفر اور ایمان کی نزاع کا فیصلہ ہے جس میں صالح لوگ بچائے جائیں گے اور فاسد مٹا دئیے جائیں گے۔

اس واقع کے حوالے سے قرآن حکیم میں رب العزت نے انسانوں کے لئے ایک اُصول طے کر دیا ہے کہ وہ لوگ جو گمراہ ہو جاتے ہیں اُن کی اصلاح کی کوششوں کی ایک حد ہوتی ہے، اُس کے بعد اُن کے لئے معافی کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ پتہ نہیں کیوں ہم اس اصول پر عمل نہیں کرتے۔ لاہور میں 6 7 افراد ہلاک ہوئے اور 300 سے زیادہ زخمی ہوئے، اب تو حد ہو چکی۔ کوئی مسلمان اتنا سفاک نہیں ہو سکتا اورجو کوئی اس قدر سفاک ہے ، مسلمان نہیں ہو سکتا۔ اسلام میں تو ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی فوج کے سپہ سالاروں کو رُخصت کرتے وقت نصیحت کی تھی کہ عبادت گزار لوگوں کو تکلیف نہ دینا، چاہے اُن کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، کسی بھی مذہب کی عبادت گاہوں کو نقصان نہ پہنچانا۔ بوڑھوں، بچوں، عورتوں اور عام شہریوں کو ہلاک نہیں کرنا۔ پھل دار درختوں کو نہیں کاٹنا، شہری آبادیوں کو برباد نہیں کرنا۔ مگر یہ کیسے لوگ ہیں، عبادت گاہوں پر حملے کرتے ہیں، معصوم شہریوں کو بے وجہ ہلاک کر دیتے ہیں، بچوں اور عورتوں کو ہلاک کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔

یہ ملک ہمارا ہے، ہمارے بچوں کا ہے، ہم اپنے بچوں کو کب تک مرتا دیکھتے رہیں گے؟ حکمرانوں نے اگر ان واقعات کے اثرات دیکھنے ہیں تو ان مرنے والوں کے ماں باپ اور قریبی عزیزوں کو جا کر دیکھیں ماؤں کے بچوں کو مار دینا اُس پورے خاندان کو مارنے کے مترادف ہے، جن کا بچہ مرتا ہے وہ لوگ تو روز جیتے اور روز مرتے ہیں۔ خدارا مزید لوگوں کو مرنے سے بچاؤ، اس ملک کو رہنے کے قابل بناؤ۔ آخر کب تک ہم سب کا مستقبل اسی طرح غیر محفوظ رہے گا، حد ہو گئی۔ اب بھی اگر ذمہ دار قوتوں نے سخت رد عمل نہ دکھایا تو لوگ مرتے رہیں گے۔ کب تک ،آخر کب تک! ضروری ہے کہ اب کوئی رحم یا مصالحت کی نظر جرم قرار دے دی جائے۔ کوئی شخص جو ان لوگوں کا مددگار یا ہمدرد بھی ہے، اس سے بھی سختی سے نپٹا جائے۔ آج دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی، مگر ہم ہیں کہ ابھی تک جہالت کو فروغ دے رہے ہیں۔ جہالت کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔جہلا کوجو ہماری جان کے درپے ہیں پیار اور محبت کے پیغام دے رہے ہیں۔

یہ ملک اسلام کے نام سے حاصل کیا گیا تھا، اس کی حفاظت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور اس کی حفاظت کے لئے، اس کی سالمیت کے لئے امن ضروری ہے۔ تخریب کار اپنی کاروائیوں کے ذریعے اس کی اساس کو بہت نقصان پہنچا چکے اس ملک کا امن تباہ کر چکے، اب اس ملک کی بقا کے لئے ، امن کو واپس لانے کے لئے کسی تخریب کار یا اُس کے حامی کوچاہے وہ کوئی بڑا مذہبی یا سیاسی لیڈر ہی کیوں نہ ہو، قطعاً معاف نہیں کرنا ہوگا۔ انہیں ان کے انجام تک پہنچانا ہوگا تا کہ ہماری موجودہ اور آئندہ نسلیں امن اور سکون سے زندگی گزار سکیں۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444596 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More