’’ آج ماسی نہیں آ ئی ؟‘‘ شاکرہ فصیح
نے بہو سے پو چھا ’’ نہیں ‘‘ صبا نے مختصر سا جواب دیا
’’ ہاں ! کل ہی اس کی طبیعت خراب لگ رہی تھی ․․․․․․․‘‘ ’’ جی ‘‘
’’ موسم بھی تو بدل رہا ہے ․․․․․‘‘‘ ’’ ہو ں ‘‘
’’ عدیل آج کس وقت آ ئے گا ؟ ․․․‘‘ ’’ پتہ نہیں ‘‘
’’ آج بچے نا شتے پر تھکے ہوئے لگ رہے تھے ! ‘‘ ’’ شا ید ‘‘ یہ کہتی ہوئی
صبا اپنے کمرے کی طرف مڑ گئی
نہ صبا کم گو تھی اورنہ شاکرہ فصیح بد اخلاق اور ڈکٹیٹر! مگر نہ جا نے کیو
ں ان دونو ں کے درمیا ن دن بھر مکالمہ کی کیفیت ایسی ہی رہتی تھی حا لا نکہ
آ پس میں سگی پھو پھی بھتیجی ہو نے کے با عث ان کے در میان بہت کچھ مشترک
تھا ۔ لیکن اگر وہ اس سے اسکے میکے یعنی اپنے بھا ئی کے گھر کی بھی کوئی
بات یا خیریت پو چھتیں تو اتنا ہی مختصر جواب ملتا ۔ مبہم سا!
شا کرہ فصیح نے چند لمحے دروازے کو گھورنے کے بعد ٹی وی ریمورٹ اٹھالیا
۔اگرچہ وہ دن بھر میں رات کو ایک گھنٹہ سے زیا دہ ٹی وی کی قائل نہ تھیں
مگر اس وقت خالی الذہن انہو ں نے کھول لیا ۔ نظریں اسکرین پر مگر دما غ
کہیں اور تھا ! ’’کیا ہو گیا ہے صبا کو؟ پہلے تو چہکتی بلبل تھی ․․․․․․․․․‘
انہو ں نے تشویش سے سوچا ۔ اپنی یاد داشت پر بہت زور ڈالنے کے با وجود ان
کو اس کا یہ روپ یا د نہ آرہا تھا ۔ اپنے ماں باپ ، بہن بھا ئیوں ، بھابیو
ں اور ان سب کے بچو ں کے ساتھ تو بے حد باتونی، ہنس مکھ تھی․․․․․․․․․․․․ٹی
وی پر مارننگ شو چل رہا تھا ۔ ’’ہو ں !
ڈا کٹر کو تو صحیح عمر اور کوا ئف بتا تی نہیں اور یہاں سب کھول رہی ہیں ۔
کوئی پرا ئیویسی نہیں․․․․اپنے گھروں کے جھگڑے چورا ہے پر․․․․․․‘‘ وہ چونک
پڑیں ۔ٹی وی پر ایک دم آواز گو نجی ’’میں صبا عدیل بول رہی ہو ں کرا چی سے
․․․․‘‘ وہی کھنک دار چہکتی ہوئی آ واز ! انہوں نے کان جھٹک کر اپنی سما عت
چیک کی ۔سو فی صد وہی اور اس کا نا م بھی تو اسکرین پر چمک رہا تھا
’میرا مسئلہ میری ساس ہیں !!!ان کی وجہ سے میں بہت دبا ؤ میں رہتی ہو ں ۔
ان کے اصول ،زندگی گزارنے کے طریقے میرے صبر کا امتحان ہیں ․․․․․․․․․․․پلیز
مجھے مشورہ دیں ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․‘‘
یہ ٹھیک ہے کہ بچو ں کی بے قاعدگی،بد تمیزی اوربیٹے بہو کی فضول خرچی اور
وقت کے ضیاع پر وہ بہت الجھتی تھیں ۔ ٹو کنے پر تلخی اور بر داشت کر نے پر
آزردگی کا سامنا کر تی تھیں مگر وہ صباکے لیے اتنی بیزار کن ہیں کہ وہ ان
سے چھٹکارا حا صل کرنے کے مشورے آن ا یئر پو چھے گی ؟؟
’’ آہ․․․․‘‘ وہ صوفے پر لڑھک گئیں ۔ صبا فورا کمرے میں پلٹی تو ٹی وی پر
نظر پڑ تے ہی صورت حال کا اندازہ کر کے خوف زدہ ہو گئی اورعدیل کا نمبر
ملانے لگی۔
دس منٹ بعدوہ قریبی ہسپتال میں ایمر جنسی میں دا خل تھیں ۔ انجا ئناکا معمو
لی سا اٹیک تھا ۔ ان کی طبیعت کی خرا بی کی اطلا ع پر لوگو ں کا تا نتا
بندھ گیا ۔ سابقہ کولیگز ، احباب اور رشتہ دار سب حیرت زدہ تھے کہ مضبو ط
اعصاب اور دلکش شخصیت کی مالکہ شاکرہ فصیح کا دل کیو ں اور کیسے اتنا کمزور
ہو گیا ؟ وہ تو ظا ہری صحت کے اصو لو ں پر بھی سختی سے کا ر بند تھیں ۔
ابھی دو سال قبل ہی تووہ اعلٰی تعلیمی ادارے کی پر نسپل شپ سے ریٹائر ہو ئی
تھیں جبکہ چھہ سال قبل انہیں بیوگی کی چادر اوڑھنی پڑی جب فصیح احمد دل کے
دورے میں اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے تھے۔
لرزتی پلکو ں کے نیچے نہ جانے کتنے آنسو بے تاب ہو رہے تھے ۔یہ سوچ کر کہ
ان کی لاڈلی بہو اور بھتیجی ان کے با رے میں کیا خیا لا ت رکھتی ہے؟ روشن
خیال اور کھلے دل کی شاکرہ فصیح تو ایسی روشنی تھیں جن سے حاصل کر دہ ایک
کرن بھی لوگو ں کی زندگی بدل دیتی تھی اور وہ اس پرفخر سمجھتے تھے اور صبا
؟؟ بظا ہر ان کی آ نکھیں بند تھیں مگر گز ری زندگی ایک کتاب کی مانند سامنے
تھی۔
والدین کی آنکھوں کا چمکتا ستارہ، تین بھا ئیو ں کی اکلوتی ،ذہین اور زندگی
سے بھر پور بہن ! وقت کے ہر لمحے کو مثبت استعمال نے شا کرہ کو ایک انفرا
دیت عطا کی ہو ئی تھی۔ بی اے اور بی ایڈ دونوں میں پو زیشن لی تھی۔ ہر فن
میں طاق، ہنس مکھ !دوسال تک اسکول ٹیچنگ کرنے کے بعد شادی کا مر حلہ آیا ۔
شوہر بھی قدر دان اور معاون و مدد گار تھے۔ زندگی سبک روی سے گزری۔ چاروں
بچے پروفیشنل ڈ گری کے مالک! ماں
باپ کا سر فخر سے بلند کر نے والے! تین بچے شکیل،ربیعہ اور نا جیہ امریکہ
اور کینیڈا میں سیٹل تھے جبکہ عدیل بے بی آف د ی فیملی نے پاکستان میں قیام
کو تر جیح دی تھی۔ وہ روا یتی ماؤ ں سے قطعی مختلف تھیں لہذا بچو ں کی شا
دیو ں میں ان کے مزاج اور پسند کو بھی مد نظر ر کھا تھا ۔عدیل نے اپنی دلہن
کا چناؤ امی کے ہاتھ میں دیا تو انہو ں نے اپنے بڑے بھائی کی سب سے چھو ٹی
بیٹی صبا پسندکی اور اپنے اس فیصلے پر وہ بہت مطمئن تھیں ۔ صبانے شوہر، گھر
اور بچو ں کو اچھی طرح رکھا ہوا تھا ۔ محلے اور خاندان والے اس کا دم بھر
تے تھے مگر اس کا انتخاب کر نے وا لی ہی اس کے گلے کا کا نٹا تھی؟یہ انکشاف
ان کو اسپتا ل کے بستر پر لے آ یا ۔
’’․ارے پھپھو! آپ اور انجا ئنا؟ ‘‘ پیار بھری آواز پر انہو ں نے آ نکھیں
کھو ل دیں ۔ یہ ڈا کٹر سعدیہ تھی ۔ شا کرہ فصیح کے منجھلے بھا ئی کی بیٹی !
میرا انتخاب صبا کے بجا ئے یہ کیو ں نہ ہو ئی ؟؟ وہ اس کو بغور دیکھنے لگیں
’’ کیا دیکھ رہی ہیں ؟اب آپ میری patientہیں ۔ جو میں کہو ں وہ کریں گی
؟․․․․․․․․․․․‘‘ انہیں اس پر ٹو ٹ کر پیار آ یا !وہ انہیں پانچ سالہ معصوم
گڑ یا لگی اورایک لمحے کو وہ یہ بھو ل ہی گئیں کہ یہ 36 سالہ ذمہ دار ڈاکٹر
اور تین بچو ں کی ما ں ہے ۔ اب انہیں یا د آ یا کہ سعدیہ پر صباکو تر جیح
دینے کی وجہ عدیل کے خیالات تھے ۔ وہ اپنی ما ں ، بہنو ں اور بھا بھی کے بر
عکس گھریلو لڑ کی چا ہتا تھا ۔ وہ دل مسوس کر رہ گئیں ۔ لیکن اس با ت کی
کیا گا رنٹی ہے کہ بہو بن جانے کے بعد یہ بھی ایسی نہ ہو جاتی ؟ آ گہی نے
ان کے اندر تلخی سی بھر دی تھی ! مگر نہیں ! یہ ایسی نہ ہو تی ! کیو ں ؟
حقیقت پسند ہو نے کی وجہ سے وہ بات کی تہہ تک پہنچ گئیں ’’․․․کیو نکہ اس کی
ماں کارویہ بھی میرے ساتھ مختلف تھا!
شہنا زبھا بھی جب بیاہ کر آ ئیں تو گھر میں شا کرہ کا طو طی بو لتا تھا ۔اب
بجا ئے اس کے کہ وہ بھی اس کی مہا رتو ں اور مزاج سے فا ئدہ اٹھا تیں اس کے
خلا ف کینہ پال کر بیٹھ گئیں ۔ پا نچ سال بعد سیما دوسرے بھائی کی بیوی بن
کرگھر میں دا خل ہو ئیں ۔ ان کے بر خلاف وہ شاکرہ کی بہت اچھی دوست اور
ممدو ح بن گئیں۔سعدیہ ان ہی کی بیٹی تھی۔
وہ آنکھیں مو ندے تجزیہ کر نے میں مصروف تھیں ’’ ․․․․اپنے سے بہتر کسی کو
پا کر انسان اگر حسد کا شکا ر ہو جا ئے تو اکیلا اور اگرا اپنا بنا لے توبے
انتہاطاقتور!کا ش انسان یہ راز پالے! تو اپنے سے بہتر کو گرانے کے بجا ئے
اس کادامن تھام کر تقویت پا ئے․․․․․․․․․․․․ظا ہر ہے صبانے پھپھو سے چڑ ورا
ثت میں ہی پا ئی تھی ۔ انہیں اپنے آپ پر غصہ آ رہا تھا کہ انہوں نے اس بات
کو پہلے کیو ں نہ محسو س کیا ؟ حا لا نکہ عدیل کا رشتہ دیتے وقت وہ بھا بھی
کے پچھلے رویہ کے با عث خا ئف تھیں کہ کہیں انکار نہ کر دیں مگر شاید اتنا
اچھامیچ انہیں ملنا ممکن نہ تھا یا پھر شوہر کا دبا ؤکہ چو بیس گھنٹے سے
بھی پہلے او کے ہو گیاتھا۔ اس وقت تو شاکرہ نے اسے پچھلے تما م سلو ک کی
تلافی سمجھا تھا مگر آ ج احساس ہو رہا تھا انہو ں نے اس رشتے کے ذریعے بھی
ان کو شکست دینے کی حکمت عملی بر قرار رکھی تھی کیو نکہ آ ہستہ آ ہستہ صبا
ماں ہی کے رنگ میں ڈھل رہی تھی۔
لیکن صباکی ذہنیت بنانے میں ماں کی گود کے علاوہ انڈین چینلز پر ساس کو
چڑیل سمجھنے کا پرو پیگنڈہ اور دوستوں اور بہنو ں کی سا سوں کی ظلم کی
داستا نیں تھیں جس نے اس کو سرا پا شفقت پھپھو کو سمجھنے ہی نہ دیا ۔ اب اس
وقت بھی وہ اس کے خلاف کچھ سوچنے کے بجائے اپنے آپ کو ہی
کٹہرے میں کھڑا کر رہی تھیں ’’․․․․․․․ماں بہنو ں کی منفی تر بیت اپنی جگہ
مگر میں کیو ں اسے اپنے سے مانوس نہ کر سکی؟؟‘‘ کاش ! میں امریکہ یا
پھر ربیعہ کے پا س کینیڈا میں ہی رک جا تی ؟ کتنا اصرار کر رہے تھے وہ تینو
ں اور ان سے زیا دہ ان کی اولادیں ــ․․․․․ ․ان لوگوں کا خیا ل آتے ہی دل خو
شی اور اداسی سے بیک وقت بھر گیا!!! اب اس عالم میں تو سفر کے قابل بھی
نہیں رہی ․․․․․․․․بستر پر ہر چیز پر پابندی تھی مگر سوچنے پر نہیں ! وہ اس
وقت تندہی سے اپنے لیے کوئی جائے پنا ہ کے لیے فکر مند تھیں
’’․․․․․․․․․بس پھپھو ! میں نے کہہ دیا ہے۔ آپ میرے ساتھ میرے گھر چل رہی
ہیں !! میری انیکسی خالی ہے اور فیمیل ایڈ منسٹریٹر کی
پوسٹ بھی! آپ گھر بیٹھ کر اپناٹیلنٹ ضائع کر رہی ہیں! میں تو آپ کی ریٹا ئر
منٹ کا انتظارکر رہی تھی مگر آپ فورا باہر چلی گئیں اور آ ئیں تو گھر بیٹھ
گئیں ۔ پھپھو ! زمانہ منتظر ہے آپ کی صلا حیتوں اور تو جہ کا ․․․․․․․․․․‘‘
سعدیہ نے ان کابو سہ لیتے ہو ئے کہا اور شاکرہ فصیح کی آنکھیں بھیگ گئیں
اپنے اﷲکے انعا م پر! پروگرام تو ان کا بھی یہ ہی کچھ تھا کہ اسکول سے فارغ
ہو کر گھر میں کمیونٹی سنٹر فلاحی پروگرام شروع کر نے کا صباکے ساتھ مل کر
مگر اچھے فیصلے کی تو فیق بھی تو نصیب سے ملتی ہے! بد قسمت صبا ؟
عدیل کو سعدیہ نے کس طرح را ضی کیا یہ انہیں معلوم نہ ہو سکا ! لیکن ڈسچارج
ہونے سے قبل جب عدیل نے ان کا ہا تھ تھا متے ہو ئے کہا
’’․․․․امی میں روز شام کو آپ سے ملنے آ ؤ ں گا ! آپ اس وقت کو ئی مصرو فیت
نہیں رکھیں گی․․․․․․․․‘ تو انہو ں نے پیارسے بیٹے کاہا تھ دبا یا
اور ان کے دل کا بڑا بو جھ ہٹ گیا ۔ انہوں نے صبا اور بچو ں کو پیا ر کیا
اور سوچنے لگیں ’’․․․․․․کاش یہ کہہ دے مجھے معاف کر دیں ․․․․․‘‘ اور وہ اس
آزاد کر دیں اپنی عدا لت سے! مگر وہ خا موش رہی اور انہیں یہ پتہ نہ ہو سکا
کہ ان کی بیماری نے اسے خوف کی مریضہ بنا دیا ہے ۔ پھپھو کے مزاج کا تو اسے
اندازہ تھا وہ کسی سے کچھ نہیں کہیں گی لیکن اگر عدیل کو پتہ چلا تو اپنی
تمام تر محبت کے با وجود وہ کوئی بھی فیصلہ کر سکتا ہے اور میا ں بیوی
کارشتہ جہاں ایک لفظ سے بنتا ہے وہا ں ایک لفظ سے ٹوٹ بھی سکتا ہے ۔ کتنا
fragileہے! اور ما ں؟؟وہ توایسا دریا ہے جو با رش نہ ہو تو بھی خشک نہیں ہو
تا !!
اور پھر ایک نئی زندگی کا آ غاز ہوا ! سعدیہ نے اپنے گھر میں ہی ہسپتال قا
ئم کیا ہوا تھا ۔ تین منزلہ عمارت کی اوپری منزل میں خود رہا ئش پذیر تھی
مگر پھپھو کی دوسراہٹ کی وجہ سے نیچے ہی شفٹ ہو گئی تھی اسکے لیے نقشے میں
بھی مناسب تبدیلیا ں کر نی پڑ ی تھیں ۔ شاکرہ فصیح اپنی رہا ئش گا ہ دیکھ
کر نہا ل ہو گئیں ۔ وہ سعدیہ کے رہا ئشی علاقے سے ملحقہ بھی تھی اور بوقت
ضرورت اسے علیحدہ بھی کیا جا سکتاتھا۔ضرورت کی ہر چیز! ایک چھوٹاکچن مع لوا
زمات کے ساتھ ! پرا ئیویسی بھی اورپر سکون بھی !کتابو ں کی ایک چھوٹی سی
الما ری بتارہی تھی کہ سعدیہ نے پھپھو کے ذوق کا بھی خیا ل رکھا ہے! اپنا
سا مان یہا ں سیٹ دیکھ کر انہیں ایک گو نہ طمانیت کا احسا س ہوا!
یہاں کام تو برا ئے نا م ہی تھا بس زندگی اور دلچسپی تھی! ایڈ منسٹریشن کے
لیے تو مردانہ اسٹا ف ہی کا فی تھا وہ تو کاؤنسلنگ پر تھیں ۔ مر یضو ں کی
دلجو ئی، ان کے رشتہ دارو ں کو تسلی، نومولود کی آ مد پر ماں کی بریفنگ،مدد
اور رہنمائی ! قرآن کے حوا لے سے با قاعدہ کلاس شروع ہو گئی۔ جو کچھ
پڑ ھا، پڑھا یا جا تااس میں سے ا صول نکال کر عمل کے موتی بھی چنے
جاتے۔شاکرہ فصیح تو چلتا پھر تا ادا رہ تھیں ! کبھی سسٹر راشدہ کے جہیز کے
ڈوپٹے پر بیل ٹا نک رہی ہیں تو کبھی ڈاکٹر غزالہ اور ڈاکٹر عرشیہ کے بچو ں
کو نظمیں اور کہا نیاں سنا رہی ہیں! کبھی سعدیہ کے شو ہر عمران سے سیاست پر
تو کبھی علمی اور ادبی بحث! اکثر سعدیہ کی ساس سے معا شرتی اور خاندانی
معاملات پر گفتگو رہتی! سعدیہ کا اپنی ساس سے رویہ ان کوعجیب سے احساس میں
مبتلا کر دیتاجب وہ دیکھتیں کہ سعدیہ ان کے بار بار پرابلم کھڑی کرنے کے با
وجود ان سے معذرت خواہانہ رویہ رکھتی۔ ایسے مو قع پر وہ صبا سے موا زنہ کر
تیں اور پھر شر مندہ ہو جا تیں ۔صلح جو شاکرہ فصیح ! نفسیات پر عبور رکھنے
والی ! رد عمل کے رویو ں سے واقف! اسے بھی اپنی ہی غلطی کے کھاتے میں ڈال
دیتیں !
زندگی کے بہت سے رنگ یہا ں کھلے ہو ئے تھے ۔ گھر کے ایک گو شے میں پرندے
اور جا نور ماحو ل میں ایک قدرتی خوشگوار تا ثر پیدا کر تے تھے۔عدیل اکیلے
تو روزانہ ہی چکر لگا تا اور اکثر صبا اور بچے بھی ساتھ ہو تے ۔ ان کو
مطمئن اور مصروف دیکھتے تو اطمینان کا اظہار کرتے مگراپنے گھر سے یہاں کا
موازنہ ان سب کو بھی ایک دبا ؤ میں لے لیتا۔ان احسا سات کو بیان کر نا کسی
کے بھی بس میں نہ تھا ۔
اب اس دن بھی شام کا سہا نا وقت تھا اور عدیل معہ فیملی اچانک آ گئے۔وہ لان
سے ملحقہ بر آمدے میں کرسی ڈالے سعدیہ کی دس سالہ بیٹی حمنہ کے سر میں تیل
ڈال رہی تھیں اور وہ نیچے بیٹھی ہنس ہنس کر انہیں اپنے اسکول کے قصے سنا
رہی تھی ۔قریب ہی سعدیہ ان کے کلف لگے کپڑو ں میں استری کر رہی تھی جبکہ
آٹھ سالہ حسان اور چھ سالہ ہبہ اپنی بلی کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ بظاہر اس
منظر میں کوئی حیران کن بات نہ تھی مگر عدیل اور اس کی فیملی کے لیے بہت
کچھ شاکنگ تھا کہ انہو ں نے یہ نظا رہ اپنے گھر میں کبھی نہ دیکھا تھا۔
باوجود اسکے کہ دونو ں گھرو ں میں مالی حیثیت اور بچو ں کی تعداد بالکل ایک
تھی تو پھر کیا فرق تھا؟ گیٹ کھلنے سے اندر آ مد تک شاکرہ فصیح اور عدیل کی
فیملی نے اپنا اپنا تجزیہ مکمل کر لیا تھا ۔
صبا کے بچے اسکول سے آ کر اپنی ماں کے گرد ہی رہتے تھے۔ شام کو عدیل گھر آ
تے توامی کو سلام دعا کرکے اپنے کمرے میں چلے جاتے۔ پھر کہیں فیملی کے ساتھ
آؤ ٹنگ کو چلے جاتے ۔ امی سے ان کی کسی ضرورت کا ضرور پو چھتے مگر ساتھ لے
چلنے کو کبھی نہ کہتے۔ ہاں الا یہ کہ انہیں کبھی علاج یا پھر تعزیت، عیا دت
کے لیے کہیں جا نا ہو تا تو پھر عدیل ان کو لے جا تا ۔ اپنے لحا ظ سے اگر
کبھی وہ ایک مشتر کہ پروگرام بنا تیں تو صبا اور بچے اس سے کٹ جا تے ۔جب تک
فصیح صا حب زندہ تھے ان کو کبھی محسو س نہ ہوا مگر اب ان کواپنی تنہا ئی کا
احساس ہو نے لگا تھا۔ اگر چہ نیچے فلور پر کرا یہ دار ان کی دلجوئی کے لیے
ہر وقت موجود تھے اور ان کے پاس تو زندگی گزارنے کا ایک مکمل ایجنڈا تھا
لہذا بور ہو نے کا تو سوال نہ تھا۔ اسکول کی مصروفیت کے ساتھ ڈھیرو ں حلقہ
احباب نبھا رہی تھیں ۔ کئی ادارو ں کی رکنیت انہیں حا صل تھی اور فلا ح عا
مہ بھی ان کے مد نظر رہتا تھامگرگھر میں جو کچھ انہیں کمی لگتی تھی وہ کچھ
کہنے سے قا صر تھیں ۔
اب چونکہ شا کرہ بیگم پر ایک بھیا نک حقیقت آ شکا را ہو ئی تھی لہذا وہ موا
زنہ کر نے پر مجبو ر تھیں کہ صبا اور بچے کیوں ان سے الگ تھلگ رہتے
تھے۔کبھی اپنا ئیت کا احساس کیوں نہ ہوا ؟ جبکہ وہ شکیل کے گھر امریکہ جا
تیں تو وہ اور اسکے بیوی بچے انکے ساتھ ہر لمحہ انجوائے کر تے۔ شاپنگ ہو یا
آ ؤٹنگ ان کے بغیر نہ ہو تی حتٰی کہ شکیل کی بیوی ماریہ ان کی آ مد کے لحاظ
سے خصوصی پروگرام تر تیب دیتی حا لانکہ وہ خودایک مصروف ڈا کٹر تھی ۔ان
کواپنے احباب سے ملوا نے اور پروگرامز میں شریک کروانے کے لیے بڑی تگ و
دوکرتی۔ بچے تو جیسے دادی کے وجود کا حصہ بن کر رہ
جا تے۔ اب انہیں یا د آ رہا تھا کہ جب وہ یہ سب کچھ عدیل اور اس کی فیملی
کے سا منے بتاتیں تو وہ چپ سے ہو جا تے اور کبھی صبابات کو یوں اڑا دیتی کہ
وہاں تو وہ لوگ آ دمیو ں کے تر سے ہو ئے ہوتے ہیں کوئی آ یا تو ظا ہر ہے کہ
اس کو سر پر بٹھا ئیں گے ہی!! یا پھر یہ کہ وہا ں توبے بی سٹنگ چاہئیے ۔اس
وقت تو انہو ں نے ان با تو ں کو محسوس نہیں کیا تھا مگر اب جبکہ آ نکھو ں
پر سے پردہ ہٹا تھا تو گویا ان الفا ظ میں چھپے طنز بھی سنائی دے رہے تھے۔
لمحہ بھر میں سوچیں دور تک لے گئیں ’’’․․․․․․․․․․․․السلام و علیکم عدیل
ماموں اور صبا مامی!․․․․․․․․․․‘‘ حمنہ خوشی سے چلائی ۔اچانک آمد ایک سر پرا
ئز تھی بس فضا بدل گئی ۔ باتیں اور خوش گپیا ں !! جب روانگی ہونے لگی تو
حمنہ نے اصرار کیا ’’․․․․․․․․مامی ماہین کو یہا ں چھوڑ دیں ! کل تو چھٹی
ہے․․․․․․ نانی کے ساتھ مزے کریں گے!! ․‘‘ ہم عمر ہم جما عت کے ساتھ وقت
گزارنے سے بڑ ھ کر ایک بچے کے لیے کو ئی خوشی نہیں ہوتی ! مگر یہاں تو سب
سٹپٹا کر رہ گئے ۔ ایسا کب ہوا کہ بچے دادی کے ساتھ وقت گزاریں ؟؟
شاکرہ بیگم پھر سوچو ں میں گم ہو گئیں ․․․․․دس سال پہلے ماہین پیدا ہو ئی
تھی ۔سب ہسپتال کے کمرے میں خوشی کی اطلاع کے منتظر تھے ۔ دروازہ کھلا اور
نرس بچی کو دکھاکر نرسری میں لے گئی ۔ تھو ڑی دیر بعد صباکو آپریشن تھیٹر
سے باہرلایا گیا تو وہ ہنوز غنود گی میں تھی ۔ نرس نے شاکرہ بیگم سے کوئی
چیز مانگی وہ کمرے میں سامان کی جگہ پر پہنچیں ہی تھیں کہ شہناز بھابھی
ڈپٹتی ہوئی آ ئیں کہ کیا چاہئیے ؟؟ لہجہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ صرف
میرا حق ملکیت ہے!!یک لمحے کو کمرے کی فضا بو جھل سی ہو گئی ۔ پھر ان کو
اپنے رویہ کی بد صورتی کا احساس ہوا توکچھ معذرت خوا ہا نہ لہجہ ہوگیا مگر
شاکرہ کی آزردگی عدیل نے بھی محسوس کی۔ اس وقت نرس بچی کو لے کر آ ئی تو
شہنا ز بھابھی نے ان کی گود میں دیتے ہوئے کہا کہ بھئی تم تو دادی ہو
․․․․․․․الفاظ اور لہجہ دونو ں پچھلے رویے کی تلا فی کا مظہر تھے مگر اسی
وقت صبانے آ نکھیں کھول کر ماں کو اشارہ کیا کہ اسکو آپ گود لے
لیں․․․․․․․․․․․․
اور پھر اسکے بعد تو یہ ہی ہوا کہ کبھی اگر عدیل ماہین کو دادی کی گود میں
بٹھاتے تو کسی کسی نہ کسی بہانے غیر محسوس طریقے سے صبا وا پس لے لیتی۔پہلے
تو انہو ں نے اس بات کو اتنا سیریس نہیں لیا تھا مگر بہر حال بچوں اور ان
کے درمیان فاصلہ قائم رکھنے کی پا لیسی نے بچو ں میں انسیت کبھی نہ پیدا
ہونے دی ۔وہ پہلے اگر اس با ت کو سو چتیں کہ خاندان کے دیگر بچے اور عمومی
طور پر بھی بچوں میں مقبول ہونے کے با وجود وہ اپنے گھر کے بچو ں کے لیے
کیو ں اجنبی ہیں تو اسے وہ بچو ں کی بے مروتی ہی سمجھتیں لیکن اب ان کو
احساس ہو رہاتھا یہ تو پچھلی نسل کا منتقل ہونے وا لا رویہ ہے ۔ انہیں یا د
آ رہا تھا کہ ماہین اور سر مد کس طرح انہیں نظر انداز کرتے تھے۔
کئی دفعہ بچے ہوم ورک کر تے کرتے کسی مدد کے طلبگار ہوتے اور وہ بچو ں کے
قریب بیٹھی ہو تیں مگر وہ ان کے بجائے اپنی ماں کو کسی مصروفیت سے کھینچ
تان کر پوچھتے ۔ اسوقت تو وہ اسے ماں بچو ں کا ایک فطری اشتراک سمجھتیں
لیکن یہ بھی اسی رویہ کی کڑی تھا۔ اکثر کوئی سوال صبا کوبھی سمجھ میں نہ آ
تا تو بچے عدیل کا انتظار کرتے مگر یہ نہ ہو تا کہ دادی سے پو چھ لیں جو
یقینا اس پر عبور رکھتی تھیں ۔ اس وقت وہ دفع شر کی خا طر خا موش ہو جا تیں
کیو نکہ ایک آ دھ دفعہ انہو ں نے اس معا ملے میں صبا کی بد زبانی سہی تھی
جب وہ بچو ں پر پل پڑی تھی کہ ابو کا انتظار کیو ں نہ کیا؟
بچوں کا اسکول میں دا خلہ ان کے تعارف سے ہی ممکن ہوا تھا کیونکہ اس اسکول
کا معیا راتنا کڑا تھا کہ بچے کوا لیفائی نہ کر سکے مگر شاکرہ فصیح کے نام
پر انہیں داخل کر لیا گیا تھا۔ اس اسکول کے اکثر اسا تذہ ان کے شاگرد یا
پھر کو لیگ رہ چکے تھے اور جب وہ بچو ں سے یا صبا سے ان کے لیے تہنیتی
کلمات بھیجتے تو بڑی ناگواری سے ان تک پہنچائے جا تے ۔ انہیں کئی دفعہ صبا
کی ناسازی کی اطلاع ان کے کسی کو لیگ کے ذریعے سے ہی ملی جس پر ان کا دل
بہت کڑ ھا بھی مگر وہ سب کچھ بہت جلدی بھول بھال جا تی تھیں ۔لیکن اس وقت
حمنہ کے مطالبے پر ماہین سمیت سب کے فق ہو تے چہرے نے ان کو ایک فیصلہ پر
مجبور کر دیا ۔
اگلے چند دنو ں میں انہو ں نے عدیل کو اپنا پا سپورٹ ری نیو کروانے کو دیا
تو وہ ہکا بکا رہ گیا ۔ چند ہفتو ں پہلے ہی تو شکیل کے اس مطالبے پر انہو ں
نے صاف کہا تھا ابھی میرا کو ئی پروگرام نہیں ۔مگر اب یہ اس بات کا مظہر
تھا کہ وہ شکیل کے پا س امریکہ جانے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔اور پھر کینیڈا !
یہ قیا م تو سالو ں پر محیط ہو سکتا ہے ۔ صلح جو اور امن پسند شاکرہ فصیح
نے عدیل اور اسکی فیملی کو امتحان اور شر مندگی سے بچانے کے لیے یہ کڑا گھو
نٹ پینے کا فیصلہ کیا ہے ہو سکتا ہے کہ کچھ عر صے میں وہ یہ تلخی بھول جا
ئیں اور پھر واپس آ جا ئیں مگر یہ تو طے ہے کہ عمر کا کو ئی بھروسہ نہیں !!
ان کے اس فیصلے پر جہاں شکیل ،ماریہ، ناجیہ اور ربیعہ خوشی سے کھل اٹھے
وہاں عدیل اور صبا الجھ کر رہ گئے ۔صبا کیوں ؟؟
صبا کا معاملہ یہ تھا کہ اب اس کے مسا ئل نے انڈے بچے دینے شروع کر دیے
تھے۔ پہلے تودادی کے دباؤ یا پھر ماں کو شر مندگی سے بچانے کے لیے بچے کسی
حد تک سلجھے ہوئے رہتے تھے مگر اب خوب پر پر زے نکال رہے تھے۔ دراصل دوسروں
کے لیے منفی جذبات سکھانے کا سب سے زیادہ اور پہلے متا ثرین تو والدین خود
ہوتے ہیں ۔ خود غر ضی کے جرا ثیم پھیلتے ہیں تو سب سے پہلے قریبی لوگ اسکی
لپیٹ میں آ تے ہیں ۔ بچے بے انتہا جھگڑالو اور منہ پھٹ ہو چکے تھے۔ اسکول
سے مستقل رپورٹ آ رہی تھیں کہ شئیرنگ اور بر داشت با لکل نہیں ہے! کئی
اساتذہ نے دبے دبے لہجے میں جبکہ ایک دو نے براہ راست یہ کہا کہ لگتا ہی
نہیں ہے کہ یہ بچے شاکرہ فصیح کے زیر سایہ رہتے ہیں۔اب انہیں کیا پتہ کہ وہ
تو قریب رہتے ہوئے بھی ان کی زندگیو ں میں شامل نہیں تھیں !
پھر یہ کہ پہلے گھر میں ہو نے کی وجہ سے عدیل ماں سے رسمی سلام دعا کے
علاوہ بیوی بچو ں کے ڈسپو زیبل پر ہی ہو تا تھا ، مگر اب روزانہ ماں سے
ملاقات کر نے کی وجہ سے دیر سے گھر لو ٹتا ۔ تھکاوٹ اور کچھ اپنے گھر کا
سعدیہ کے گھر سے موازنہ اسکے موڈ کو بحال نہ ہونے دیتا۔شاکرہ بیگم کی
امریکہ روانگی کے پیچھے یہ ہی سوچ تھی کہ موجودہ صورت حال تو صبا کے لیے
اور تکلیف دہ ہے لہذا ان کا منظر سے ہٹ جانا
ہی بہتر ہے کہ عدیل کو کم از کم گھر کا سکون تو نصیب ہو ! اب یہ مسئلہ تو
بظاہر حل ہو جائے گا مگر قربت کی وجہ سے کچھ اچھی باتوں ، رہنمائی اور
ہدایات سے بھی توآگاہی رہتی تھی اور اب؟ نفسا نفسی اور زندگی کی بھاگ دوڑ
میں مایوس کر نے والے رویے میں حو صلہ افزائی کی ٹھنڈک کہاں سے ملتی؟ اس
محرومی کا اندازہ صباکو ابھی سے ہو رہا تھا۔ ان کو امریکہ گئے ہفتہ بھر ہو
چکا تھا۔ عدیل ویب کیم کے ذریعے ہر رات ماں سے محو گفتگو ہو تا اور کیمرہ
جو کچھ دکھا رہا ہوتا وہ بھی اسکی آ نکھیں کھول دیتا ۔ بھابھی اور بچو ں کا
ان کے ساتھ دوستانہ اور اپنائیت بھرا رویہ! شرمندگی اور پچھتاوے کی آ گ صبا
کو اندر تک جلا ڈالتی ۔آ ئینہ تو انسان کو بری نہیں کر تا۔ سچ سچ بتادیتا
ہے! جی ہا ں ضمیر نام کا آ ئینہ انسان کو خود احتسا بی پر مجبور کر ہی دیتا
ہے!
آج وہ صبح سے انہی سو چو ں میں تھی کہ اچا نک نائیلہ آ گئی ۔صبا کی بہترین
دوست! وہ چھ ماہ سے ملک سے باہر تھی۔ ویسے تو وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں
ہوتی صباسے را بطے میں رہتی مگر اب وہ جہا ں تھی سگنل کے مسائل کی وجہ سے
حال احوا ل سے بے خبر رہی۔ اب جو اس نے گھر کی کایا پلٹ دیکھی تو اپنے خوشی
کے جذ بات نہ چھپا سکی۔ اور صباکو ڈانٹنے لگی کہ اتنی بڑی فتح کے بعد کیو ں
منھ لٹکا رکھا ہے؟ دراصل یہ نائیلہ ہی تھی جس کے اپنی ساس کے مظالم کے قصو
ں نے صبا کو اپنی ساس کو سمجھنے ہی نہ دیا!
’’․․․․․․․اوئے تو نے تو وہ تر کیب استعمال کی جو آج تک میرے ذہن میں نہ آ
ئی․․․․․․․․․․․‘‘ اس کی آ نکھیں چمک رہی تھیں ساس سے چھٹکارا حا صل کر نے کے
یقینی فارمولے کا علم حا صل ہو نے پر ! بس ان کو زچ کر نا ہے!!۱
صبا کو ندامت سے نکال کر وہ گنگناتی ہو ئی گھر میں دا خل ہو ئی تو ساس صا
حبہ ٹی وی کے آ گے برا جمان تھیں ۔ اس کو دیکھ کر انہو ں نے شا نے اچکا ئے
اور پھر اسکرین پر نظریں جمادیں ۔ نائیلہ اتنی پر جوش تھی کہ اس نے کا میا
بی کے فارمولے کو فوری طور پر اپنانے کا فیصلہ کیا۔ اتنے کم وقت میں اس کے
پا س چینلز سے را بطہ کر نے کی مہلت نہ تھی لہذا اس نے سوچا کہ جب پسینہ
بہائے بغیر کام ہو سکتا ہے تومحنت کی کیا ضرورت ہے؟
وہ کارڈ لیس فون لے کر ایسی جگہ آ گئی جہاں سے گفتگو ساس بآسا نی سن سکیں
اور نمبر ڈا ئیل کیے بغیر شروع ہو گئی
’’․․․․․․․․․․․․․․․․جی میں کرا چی سے نا ئیلہ سکندر بول رہی ہوں
․․․․․․․․․․․․․میری ساس․․․․․․․․․․․․․․․․․․․آپ ضرور مجھے کوئی وظیفہ بتا ئیں
!‘‘
تھوڑہی دیر جیسے جواب کا انتظار کیا اور پھر فا تحا نہ انداز میں ساس کو
دیکھتے ہوئے فون بند کر دیا۔ ساس سا حبہ نے ٹی وی کو mute کر کے پورا
مکالمہ سنا اور مسکرا ئیں ۔
نائیلہ کو جعلی فون کیے چو بیس گھنٹے گزر چکے تھے مگر ساس اسی جاہ و جلال
کے ساتھ موجود تھیں بلکہ ان کے طنزیہ جملو ں اور بارود بھری گفتگومیں کہیں
اضافہ ہو گیا تھا ۔ نائیلہ بڑی ڈسٹرب تھی۔ یہ داؤ بھی ناکارہ ہو گیا ۔ اسی
بے خیا لی میں اس نے ٹی وی کھول دیااور وہ چونک پڑی ۔ ایک مشہور مارننگ شو
میں لائیو کال لی جا رہی تھی
’’․․․․․․․․․جی میں عقیلہ فخر الدین بول رہی ہو ں کراچی سے! میری
بہو․․․․․․․․․․․․․․․․․․․بس مجھے اس سے چھٹکا را حاصل ہو ․․․․․میں اپنے بیٹے
کا دوسرا گھر آباد کر نا چا ہتی ہو ں ․․․․․․․․․․․․․‘‘
نائیلہ نے اپنی ساس کو ٹی وی اسکرین پر سنا ۔ اور اس کی آ نکھیں شدت غم سے
بند ہو نے لگیں اور وہ سیڑھیو ں سے پھسلتی نیچے آ گری۔ |