بس کے انتظار میں کھڑی بس سٹاپ پر اکیلی عورت ڈرے ہوئے
بچے کی مانند ہوتی ہے جو اپنے ادرگرد کے ماحول سے خوف زدہ ہر لمحہ خوف اور
ڈر میں گھرا ،سہمہ ہوا،پھٹی پھٹی نظروں سے ادھر ادھر دیکھتا ہے ۔ پھر اچانک
اس کی سماعتوں سے ڈرانے والی آواز ٹکراتی ہے وہ چیختا ہے اور آنکھیں بند
لیتا ہے کبوتر کی طرح ،بلی جب کبوتر پر جھپٹا مارتی ہے وہ آنکھیں بند لیتا
ہے سمجھتا ہے آنکھیں بند کرنے سے وہ بلی کو نہیں دیکھے گا تو خطرہ ٹل جائے
گا ،حلانکہ ایسا نہیں ہوتا ۔بلی کبوتر پر جھپٹتی ہے اور لے اڑتی ہے ،بچے کو
ڈرانے والے اسے بار بار ڈراتے ہیں ۔یہ ڈر اور خوف ہمیشہ کیلئے اس کے دل میں
جگہ بنا لیتا ہے ۔وہ تب تک خوف اور ڈر کی فضا میں سانس لیتا ہے جب تک اس کو
اس کا احساس نہ ہو جائے کہ اصل میں ڈر اور خوف کا وجود ان لوگوں کا پیدا
کردہ ہے جو اس سے بے پناہ محبت بھی کرتے ہیں ،بالکل ایسے ہی بس کے انتظار
میں کھڑی عورت خوف اور ڈر کی کیفیت سے دوچار ہوتی ہے اس کے دل میں بھی ایک
خوف ہے جو اس کے اپنوں نے اس کے دل میں ڈالا ہے کہ مرد بھیڑیا ہے ،درندہ ہے
جو اسے دیکھتے ہی اس پہ جھپٹ پڑے گا اور اس کو چیر پھاڑ دے گا ۔جونہی کوئی
مرد اس کے پاس آتا ہے اس کے دل میں سویاخوف جاگ جاتا ہے ۔دل دھڑکنے لگتا ہے
۔دھڑکن تیز ہو جاتی ہے ۔چہرے کا رنگ متغیر ہونے لگتا ہے ۔ ہاتھ پاﺅں پھول
جاتے ہیں ۔سانس کی رفتار معمول سے بڑھ جاتی ہے ،جیسے جسم کی مشین کے اندر
لگا دل کا انجن چھک چھک چل رہا ہو ۔ مرد کے قریب آتے ہی تھوڑا سا پیچھے
ہٹتی ہے اور کبوتر کی ماند آنکھیں بن کر لیتی ہے ۔سمجھتی ہے سب خیر ہے ۔اس
خیال کے ساتھ آنکھیں کھول دیتی ہے کہ مرد اب نہیں ہو گا ،جونہی آنکھیں
کھولتی ہے ایک لمبا تڑنگا کالی رنگت والا ریچھ نما مرد اس کے سامنے کھڑا ہے
۔دل ڈر اور خوف کی کیفیت میں ہے کہ مرد ابھی اس پہ جھپٹے گا اور اس کے نرم
و نازک وجود کو چیر پھاڑ دے گا بالکل ایسے ہی جیسے گھاس کے زرد میدانوں
میںہرنی کا چھوٹا بچہ خوف اور ڈر کی وجہ سے چھپا ہوتا ہے اچانک چیتے کی اس
پر نظر پڑتی ہے وہ چیتے کو اپنی طرف لپکتے دیکھتا ہے اور جان بچانے کیلئے
بھاگتا ہے چند ہی گز کے فاصلے پر چیتے کے خون خوار اور نوکیلے پنجے اس کے
نرم و ملائم جسم کو تار تار کر دیتے ہیں، ایسے جیسے جنگل میں آوارہ پھرنے
والے ،سیاہ اور بھور ی رنگت والے بھیڑیئے جو کئی دنوں سے بھوکے ہوں اپنے
شکار کو دکھ کر اس حملہ آور ہوتے ہیں اور آن کی آن میں شکار کی بوٹی بوٹی
کر دیتے ہیں ۔کچھ ایسی حالت اس وقت بس سٹاپ پر کھڑی اکیلی عور ت کی ہوتی ہے
۔مرد کی آواز میں بھی خوف اور ڈر شامل ہے ۔غرائی ہوئی آواز، کان کے پردے
پھاڑدینے والی آواز، مرد چنگاڑتی ہوئی آواز میں پوچھتا ہے © ©” کہاں جانا
ہے آپ نے ۔۔۔۔۔۔۔“ یہ مرد اس بس سٹاپ پہ کام کرنے والا وہ ہاکر ہے ۔یہ یہاں
آنے والی ہر سواری کو بلکہ بس سٹاپ پر کھڑی ہر اکیلی عورت کو پوچھتا ہے کہ
اسے کہاں جانا ہے ۔بس سٹاپ پر کھڑی اکیلی عورت اس ہاکر کے ساتھ ساتھ سڑک
پار سڑکنڈوں سے بنے کیمپ نما کمرے میں بیٹھے ان مردوں کی بھی مرکز نگاہ ہے
،بان سے بنی چار پائی پر بیٹھے ہاتھ میں تاش کے پتے پکڑے ،منہ میں سگریٹ
ٹھونسے کش لگاتے ،نتھنوں سے سگریٹ کا دھواں ہوا میں تحلیل کرتے ہیں ۔آنکھیں
پھاڑ پھاڑ کر بس سٹاپ پر کھڑی اکیلی عورت کے جسم کا طواف کر تی ہیں ۔ ”
دیکھ کیا کمال کی عورت ہے یار ۔۔۔۔۔۔۔۔“ ان میں سے ایک مرد سگریٹ سلگاتے
ہوئے کہتا ہے اور نگاہ اب بھی سڑک کے پار کھڑی بس سٹاپ پر اکیلی عورت کی
طرف ہے ” ہاں ۔۔۔۔۔ٹھیک کہہ رہا ہے تو۔۔۔۔۔۔۔۔ “ دوسرا مرد پیر سے سر تک
نگاہ دوڑاتا ہے ” میں نے کم از کم آج تک ایسی عورت نہیں دیکھی ۔۔۔۔۔“ پہلے
والا اپنے گزشتہ عمل کو دوہراتے ہوئے بولتا ہے ” کیوں جھوٹ بولتا ہے ، کل
جو عین اسی جگہ ایک عورت بس کے انتظار میں کھڑی تھی ،اس کو دیکھ کر بھی
تیرا یہی خیال تھا ۔۔۔۔۔۔تم نے اس کے جسم کو بھی دیکھ کر ایسے ہی کہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔“ ” کیا کروں ان آنکھوں کا ،اس بس سٹاپ پر کھڑی ہر عورت مجھے ایک
طرح کی دیکھائی دیتی ہے“ ” دیکھ اس نے جینز کے ساتھ شرٹ پہنی ہوئی ہے جس سے
اس کے جسمانی خدو خال صحرا میں ٹیلوں کی طرح ابھرے ہوئے ہیں “ ہاکر پوچھ کر
واپس اسی بان کی بنی چار پائی پر آکر بیٹھ گیا ہے ۔ وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ
بس سٹاپ پہ کھڑی اکیلی عورت نے کہاں جانے کا بتایا ہے ،وہ اس سے ہونے والی
گفتگو دہرانے لگتا ہے ۔بس آ چکی ہے بس سٹاپ پہ کھڑی اکیلی عورت بس میں سوار
ہو چکی ہے ۔بس منزل کی طرف رواں دواں ہو جاتی ہے ۔ تاش کی بازی لگاتے یہ
کالی رنگت والے مرد تاش کے پتوں کو دوبارہ ترتیب دیتے ہیں ۔ان میں سے ایک
مرد دوسروں کو کہنی مارتا ہے اور منہ سے اوئے اوئے کی آوازیں نکالتا ہے ۔ادھر
دیکھو ،ادھر دیکھو کا شور مچاتا ہے ۔سب بس سٹاپ کی طرف گھورنے لگتے ہیں
راستے میں بیٹھے کتوں کی طرح جو آنے جانے والوں پر نہ بھونگتے ہیں نہ کاٹتے
ہیں ،بس غراتے ہیں ۔بس سٹاپ پر ایک اور اکیلی عورت بس کے انتظار میں کھڑی
ہے ۔ |