میں پہلے ایک کالم ’’ مولوی اور مولبی ‘‘
پر لکھ چُکا ہوں جس پر مجھے بہت سی کالز موصول ہوئیں جس میں بیشتر نقّادوں
کی تھیں مجھے تعمیری تنقید کرنیوالوں کی کالز کا ہمیشہ انتظار رہتا ہے
کیونکہ اُن سے میری اِصلاح ہو جاتی ہے جس کا میں بُھوکا ہوں ۔اور اب بھی جو
گزارشات سپردِقلم و قرطاس کر رہا ہوں بڑے ٹوٹے دل کے ساتھ کر رہا ہوں ۔دل
کا ٹوٹنا بھی گوارہ کر لوں گا مگر’’ صدائے سعید ‘‘بلند کرتا رہوں گا چاہے
یہ کسی کو مباح لگے یا مکروہ ۔
آج ہمارے معاشرے میں نہ صرف سادہ لوح لوگوں کو پیری اور مریدی کے نام سے
بیوقوف بنایا جا رہا ہے بلکہ بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ ( جو اپنے آپ کو بڑا
عقلمند اور دانا گردانتے ہیں )اُن کے چُنگل میں پھنستے جا رہے ہیں اور پتہ
اُن کو تب چلتا ہے جب وہ اپنی عزّت، جائیداد ،ایمان اور گھر بار لُٹا چُکے
ہوتے ہیں اور پھر یہی لوگ میڈیا کی زینت بھی بنتے ہیں ۔پِیر اور پِیڑ میں
ہمیں فرق سمجھنا ہوگا اور اپنے آپ کو اور معاشرے کو اِ ن بہروپیوں ،پِیڑوں
،دکانداروں اور شعبدہ بازوں (جنھوں نے پیروں کا روپ دھارا ہوا ہے )سے بچانا
ہوگا ۔کیونکہ بقول شاعرِمشرق
ؔ پرواز ہے دونوں کی اِسی اِک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
سب سے پہلے ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ’’ پیر ‘‘کون ہوتا ہے اور اس کے اوصاف
کیا ہیں ؟حجۃ الاسلام امام محمد غزالی رحمۃاﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ پیر اﷲ کا
نائب ہوتا ہے اور وہ نائب کیسا ہونا چاہیے ؟ اس کے لیے فرماتے ہیں کہ وہ
عالم ہو لیکن ہر عالم بھی مرشدِ کامل نہیں ہوتا اس کام کے لائق وہی شخص ہو
سکتا ہے جس میں چند مخصوص اوصاف ہوں جن کا یہاں اجمالی طور پر ذکر کیا جاتا
ہے تا کہ ہر سر پھرا یا گمراہ شخص مرشد ورہبر اور پیر بننے کا دعوٰی نہ کر
سکے ۔آپ فرماتے ہیں مرشد و رہبر اور پیر وہی ہو سکتا ہے (۱)جو دنیا کی محبت
اور دنیاوی عزّت و مرتبے سے دلچسپی نہ رکھتا ہو (2) اس کا سلسلہ آقا کریم ﷺ
تک پہنچتا ہو (3) عبادت و ریاضت کا خوگر ہو (4) حضور ﷺ کی تعلیمات پر عمل
کرنے والا ہو (5) کھانا کم کھانے والا ہو (6) کم سونے والا ہو(7)نفلی نماز
روزے کا دلدادہ ہو (8)صدقہ و خیرات کرنے کا عادی ہو (9) اچھے اخلاق (صبر،
شکر، توکل،یقین، قناعت، امانت، حلم ، انکساری ، فرمانبرداری ، سچائی ،
اورحیا )کا مالک ہو ۔(10) اُس شخص نے آقا کریم ﷺ کے انوار سے ایسا نور اور
روشنی حاصل کی ہو جس سے تمام بُری خصلتیں مثلا کنجوسی ، حسد ، کمینہ پن ،لالچ
، غصّہ ، جھوٹ ، سرکشی ، تکبّر ، غرور اور دنیا سے بڑی امیدیں باندھنا
وغیرہ اُسی روشنی میں ختم ہو گئی ہوں (11) علم کے سلسلے میں کسی کا محتاج
نہ ہو سوائے اُس مخصوص علم کے جو ہمیں آقا کریم سے ملتا ہے ۔( مجموعہ رسائل
امام غزالی )
یہ مذکورہ اوصاف جن لوگوں میں پائے جاتے ہیں وہی آقا کریم ﷺ کے نائب اور
پیر کہلانے کے حقدار ہیں ۔آج معاشرے میں یہ سب کچھ نہیں دیکھا جاتا بلکہ
مذکورہ بالا اوصاف میں سے کوئی ایک وصف بھی نہیں دیکھا جاتا اور آنکھیں بند
کر کے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر بیعت کر لی جاتی ہے اور پھر اپنے پیر کی
تعریفوں کے پُل باندھ دیے جاتے ہیں اور زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے جاتے
ہیں ۔ مخدومِ اُمم داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ پیر ہمیشہ
پابندِ شریعت ہوتا ہے وہ نہ خود شریعت کی حدود سے باہر جاتا ہے اور نہ ہی
ایسے کام کرنے کا حُکم دیتا ہے جن سے شریعت کی حدود مجروح ہوتی ہے ۔پیر وہ
ہوتا ہے کہ اس کے پاس کچھ نہ ہو اور کوئی چیز اسے خلل انداز نہ کرے نہ وہ
اسبابِ دنیا کی موجودگی سے غنا ہو اور نہ اس کے نہ ہونے سے محتاج ہو۔ اسباب
کا ہونا نہ ہونا دونوں یکساں ہوں بلکہ اسباب کی غیر موجودگی میں زیادہ خوش
و خرم رہتا ہو ۔ پیر کی مجلس میں ایک ادب ،تقدّس اور رعب و دبدبہ طاری رہتا
ہے اور یہ سب کچھ قدرتی ہوتا ہے بناوٹی نہیں ۔وہ مخلوق کی کمزوریوں اور
عیبوں پر پردہ ڈالتا ہے ۔اس کو دیکھ کر خدا یاد آجائے یا کم از کم اس کی
محفل میں بیٹھ کر طبیعت عبادت کی جانب مائل ہو جائے اور دل ذکراﷲ کرنے کو
چاہے ۔( کشف المحجوب ) ایسا پیر کسی کو نصیب ہو جائے تو اُس کی قسمت اور
مُقدّر کے کیا کہنے ؟
ڈاکٹر صفدر محمود اپنے کالم ’’مرشد اور مرشد کامل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’
پیر وہ ہوتا ہے جو حالات سے باخبر ہونے کے باوجود نہ ماضی کی کتاب کھولتا
ہے اور نہ ہی مستقبل کے نقشے اور زائچے بناتا ہے جہاں ضروری ہو وہ ہمیشہ
اشارے کنائے میں بات کرتا ہے ۔اور نہ ہی وہ لوگوں سے وظائف کے پیسے طلب
کرتا ہے اور نہ ہی لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتا ہے ۔
اب آتے ہیں’’ پیڑ‘‘ کی طرف ۔کہ اُس کے اندر کونسے کمالات و اوصاف پائے جاتے
ہیں جن سے لوگ پہچان سکیں کہ یہ ’’ پِیڑ ‘‘ ہے ۔
(1)پِیڑ اپنے آپ کو منوانے کے لیے شریعت کا بالواسطہ یا بلا واسطہ سہارا
لیتا ہے اور اس کے ذریعے اپنا مطلب پورا کرتا ہے ۔(2) دولت لوٹنے اور پیسے
بٹورنے کے لیے تمام حربے استعمال کرتا ہے (3) عورتوں کے ساتھ میل ملاپ کو
روا سمجھتا ہے اور ان کی صحبت اس کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے ۔(4)اس کے جال میں
پھنسے ہوئے لوگ اُسے حلف دیتے ہیں اور وہ بھی لوگوں سے حلف لیتا ہے کہ وہ
اس کی ہر معاملے میں مدد کریں چاہے وہ خود کیسے ہی حالات سے دوچار کیوں نہ
ہوں ۔(5) وہ جھوٹی باتوں اور خوابوں کے ذریعے لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتا
ہے اور اس کا منشور ہی دولت اکٹھی کرنا ہوتا ہے۔(6) وہ دوسروں کو نقلی اور
اپنے آپ کو اصلی بتاتا ہے ۔(7) وہ حسب و نسب کی نفی کرنے کے ساتھ ساتھ بڑی
بے شرمی سے بزرگوں کی اولاد گردانتا ہے ۔(7) وہ لوگوں کے ایمان اور دین سے
کھیلتا ہے اور انھیں شریعت کا باغی بناتا ہے ۔(8) الفاظ اور مال کے ساتھ
لوگوں پر حاوی ہوتا ہے ۔(9) تصوف کا ظاہری لبادہ اوڑھ کر اپنے منصب کو حصول
دنیا کا ذریعہ بناتا ہے ۔(10) وہ جس گھر میں داخل ہو جائے وہاں سے پِیڑ ختم
نہیں ہوتی ۔(11) وہ جادو ، ٹوٹکے ، ٹونے اور تعویذات کا سہارا لیتا ہے ۔اور
ان چیزوں کا روحانی دنیا سے کوئی تعلق نہیں یہ محض شعبدہ بازی اور دکانداری
ہے جوکمزور ایمان اور ضعیف اعتقاد والے مجبور و لاچار لوگوں کو مائل کرنے
کے لیے سجائی جاتی ہے ۔آج کل یہ ’’ پیڑ ‘‘ عام ہو گئے ہیں کہیں عامل اور
باوا کے نام سے تو کہیں پیر اور بابا کے نام سے لوگوں کو لوٹا جارہا ہے اور
ان پیڑوں کی میڈیا میں آئے روز نِت نئی کہانیاں سننے ،پڑھنے اور دیکھنے کو
ملتی ہیں ۔ہمیں ان پیڑوں کے خلاف قلمی ،لسانی اور عملی جہاد کرنا ہوگا تا
کہ لوگوں کی عزّت ،مال ،ایمان اور آبرو محفوظ رہ سکے ۔اور ان بہروپیوں کا
قلع قمع کیا جا سکے ۔ |