گذشتہ ایک دو ماہ سے پاکستان میں قائم دینی اداروں، مدارس
ومساجد کے منتظمین کی طرف سے مدارس ومساجد کو دہشت گردی کے اڈے قرار دے کر
ان کے خلاف کریک ڈاون،چھاپے،بلاجواز گرفتاریوںاور ڈرانے دھمکانے کے خلاف
پُرزور تحریک شروع کرنے کے حوالے سے تیاریاں کررہے تھے۔ اس سلسلے میں لاہور
کے گلشن اقبال پارک میں3اپریل کو عظیم الشان استحکامِ پاکستان کانفرنس کے
انعقاد کا اعلان اور تشہیر بھی زور شور سے جاری تھی، توقع کی جارہی تھی کہ
اس کانفرنس میں لاکھوں کی تعداد میں علمائ، ائمہ اور مدارس کے طلباءشرکت
کریں گے، اور حکومت کو ایک واضح پیغام دیں گے۔ لیکن کانفرنس سے دو تین روز
قبل جب کانفرنس کی تیاریاں آخری مراحل میں تھیں اور سٹیج تیار کیا جارہا
تھا اس دوران اسی گلشن اقبال پارک لاہور میں سٹیج سے کچھ فاصلے پر بم
دھماکہ ہوا جس میں 74کے لگ بھگ بے گناہ بچے اور خواتین شہید ہوگئیں
اور300لوگ زخمی ہوئے۔ فوری طور پر اس دھماکے کا الزام بھی ایک قاری صاحب یا
دوسرے الفاظ میں مدارس پر لگا دیا گیا۔انتظامیہ نے اس دھماکے کو خود کش
حملہ قرار دیا۔ حالانکہ کہ یہ بات اب بہت پرانی ہوچکی ہے کہ پاکستان میں
ہونے والے اکثر دھماکے خود کش نہیں بلکہ بم دھماکے ہوتے ہیں، جنہیں
انتظامیہ خود کش قرار دے کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتی ہے۔ کیونکہ بم
دھماکے کی صورت میں پولیس اور دیگر سیکورٹی ادارے ذمہ دار ہوتے ہیں جبکہ
خود کش حملہ آور کو روکنا ناممکن ہوتا ہے اس لئے ہر دھماکے کو خود کش قرار
دے کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دینا پچھلے کئی سالوں سے جاری ہے۔اب تک کی
تحقیق کے مطابق یہ بات ثابت ہو چکی ہے اور انتظامیہ بھی اقرار کر چکی ہے کہ
گلش اقبال پارک میں خود کش حملہ نہیں ہوا بلکہ بم دھماکہ ہوا ہے جو کسی
بیگ،یا گاڑی وغیرہ میں رکھا گیا تھا۔
دوسری اہم خبر یہ ہے کہ مدارس،علماءاور دینی طبقات کو ڈرانے،دھمکانے اور
دہشت گردی کے الزامات لگانے اور ملک کو سیکولرریاست قرار دینے کے خلاف ملک
کی تمام دینی،مذہبی سیاسی جماعتوں نے مشترکہ طور پر تحریک چلانے کا اعلان
کیا ہے۔اس سلسلے میں منصورہ لاہور میں ایک عظیم الشان اجتماع ہوا جس میں
35جماعتوں نے شرکت کی اور متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ 77ئ کی نظام مصطفی
تحریک کی طرز پر موجودہ حالات میں ایک تحریک شروع کی جانی چاہیے۔77ئ کی
نظام مصطفی تحریک جس وقت کامیابی کے قریب پہنچی تو جنرل ضیاءالحق سے
مارشلاءلگوا کر اس تحریک کو بڑی چالبازی سے ختم کردیا گیا۔اور دینی قیادت
بھی ان چالبازیوں میں آگئی اور ساری محنت پر پانی پھر گیا۔ اس کے مقابلے
میں اگر بھارت کے مسلمانوں کو دیکھا جائے تو وہاں صرف11فیصد مسلمان ہیں
لیکن انہوں نے 1985ئ میں بھرپور تحریک چلا کر اسلام کے عائلی قوانین کے
حوالے سے اپنے مطالبات منظور کروالئے چنانچہ اب بھارت میں مسلمانوں کے
عائلی قوانین وہاں کی کسی عدالت کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔ جبکہ پاکستان
میں96فیصد مسلمان ہیں لیکن یہاں کے مسلمانوں کی بے حسی کا اندازہ اس سے
لگائیں کہ 1967ءسے ہمارے عائلی قوانین غیر شرعی ہیں جو ایک منکر حدیث پرویز
کے بنائے ہوئے ہیں۔اگر ہندوستان کے گیارہ فیصد مسلمان پرامن تحریک چلا کر
عظیم ہندو اکثریت سے اپنے مطالبات منوا سکتے ہیں تو کیا پاکستان کے 96فیصد
مسلمان اپنے مطالبات نہیں منوا سکتے۔؟
چنانچہ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ دینی قیادت ایک پرامن تحریک
چلانے جارہی ہے۔ ابتدائی طور پر 25رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو تحریک کے
کام کا طریقہ کار وضع کرے گی، اور پروگراموں کو تشکیل دے گی۔ منصورہ میں
ہونے والے اس عظیم اجتماع سے حکومت کتنی بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی ہے اس کا
اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کل وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے
جمعیت علمائے پاکستان کے صاحبزادہ ابوالخیرمحمد زبیر کو فون کرکے کہا کہ جب
بھی ملک پر کڑا وقت آیا ملک کی مخلص اور محب وطن قیادت نے صوفیاءکرام کی
تعلیمات کے عین مطابق حکمت اور تدبر کے ساتھ قوم کو درپیش مشکلات سے نکالا،
آئندہ بھی میں ذاتی طور پر آپ سے سمیت تمام معاملہ فہم اور تحمل مزاج قیادت
سے رابطہ رکھوں گا تاکہ ملک کو درپیش مسائل سے نکالنے میں مدد مل سکے۔گفتگو
میں طے پایا کہ معاشرے میں برداشت اور تحمل کا ماحول پیدا کرنے کےلئے
کوششیں کی جائیں گی۔
وزیر داخلہ کی ان باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب بھی نظام مصطفی کی
بات کی جاتی ہے تو اس طبقے کو تحمل وبرداشت اور صوفیائے کرام کی تعلیمات
یادآجاتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا صوفیائے کرام کی تعلیمات یہ تھیں کہ نظام
مصطفی کو نہ لایا جائے؟ ملک کو لبرل اور سیکولر قرار دینے کے اعلانات
حکمران خود کریں۔؟چنانچہ ہمیشہ کی طرح اب بھی یہ خطرات ہیں کہ ملک میں کوئی
بڑا حادثہ،سانحہ کروا کر یا دینی قیادت میں اختلافات کو ہوا دے کر اس تحریک
کو ناکام بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ خاص طور پر ایسے مواقع پر فرقہ وارانہ
فسادات کو چھیڑنے کی کوشش پرانا طریقہ ہے، لہٰذا اس پرانے طریقے کو بھی
آزمایا جاسکتا ہے اور نئے نئے طریقے بھی لانچ کیے جاسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات
کی ہے کہ دینی قیادت اللہ اور اس کے رسول کے لئے اتحاد اور اتفاق کا مظاہر
کرتے ہوئے، کسی قسم کی چالبازی میں آنے سے اپنے آپ کو بچائے۔کہنے والے تو
یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان قائم ہونے کے بعد 1949ءمیں قرارد مقاصد کے
منظور ہونے کے بعد پاکستان اپنے وجود کے مقصد یعنی نفاذ اسلام کی طرف بڑھ
رہا تھا بلکہ قریب پہنچ چکا تھا اس وقت 1953ءمیں قادیانی فتنہ کھڑا کرکے
تحفظ ختم نبوت کی تحریک لانچ کروا کر سب کا رُخ دوسری طرف موڑ دیا گیا۔اب
بھی اگر کوئی تحریک واقعتا شروع ہوتی ہے تو ایسا کچھ بھی ہوسکتا ہے جس کے
لئے دینی قیادت کو پہلے سے سوچنا چاہیے، کہ ہم نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں
کرنا۔ |