کبھی آپ نے زلزلے کے جھٹکے دیکھے ۔الامان حفیظ!انسان کا
دماغ منجمد ہوکر رہ جاتاہے ۔ایک عجیب ہی کیفیت ہوجاتی ہے ۔بلکہ آپ کو ۸
اکتوبر 2005کے زلزلے میں تو معلوم ہی ہوگا کہ کس قدر جان لیوا زلزلہ تھا کہ
آبادیوں کی آبادیوں زمین بوس ہوگئیں ۔آسمان کو چھوتی عمارتیں زمین میں دھنس
گئیں ۔ایک خوف ناک زلزلہ تھا ۔دل دہل گئے ۔آنکھیں اشکبار ہوگئیں ۔ہر سمت
سوگوار ماحول تھا۔
اگر میں آپ سے یہ کہوں کے ایک ایسا شہر جس کو الٹ پلٹ کے رکھ دیاگیا۔وہاں
کے رہنے والے پر آسمان سے پتھر برسائے گئے وہ کنکروں کے ٹکڑے تھے۔ اور ہر
پتھر پر اُس شخص کا نام لکھا ہوا تھا جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔
ہانا تعجب خیز !ہے نا عجیب بات !!کہ آسمان سے پتھر اور اور جس پر وہ کنکر
گر رہاتھا اس پر اس شخص کا نام بھی لکھاہوا۔
تو لیجیے !!آج میں آپ کو تعجب و عبرت کے ملے جلے مزاج پر مشتمل معلومات
دیتاہوں ۔بات کچھ اس طرح ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام ملک شام کے ایک شہر ''اُردن''
میں مقیم ہو گئے اور اﷲ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرما کر ''سدوم'' والوں
کی ہدایت کے لئے بھیج دیا۔شہر سدوم:۔شہر سدوم کی بستیاں بہت آباد اور نہایت
سرسبز و شاداب تھیں اور وہاں طرح طرح کے اناج اور قسم قسم کے پھل اور میوے
بکثرت پیدا ہوتے تھے۔ شہر کی خوشحالی کی وجہ سے اکثر جابجا کے لوگ مہمان بن
کر ان آبادیوں میں آیا کرتے تھے اور شہر کے لوگوں کو ان مہمانوں کی مہمان
نوازی کا بار اٹھانا پڑتا تھا۔ اس لئے اس شہر کے لوگ مہمانوں کی آمد سے بہت
ہی کبیدہ خاطر اور تنگ ہوچکے تھے۔ مگر مہمانوں کو روکنے اور بھگانے کی کوئی
صورت نظر نہیں آرہی تھی۔ اس ماحول میں ابلیس لعین ایک بوڑھے کی صورت میں
نمودار ہوا۔ اور ان لوگوں سے کہنے لگا کہ اگر تم لوگ مہمانوں کی آمد سے
نجات چاہتے ہو تو اس کی یہ تدبیر ہے کہ جب بھی کوئی مہمان تمہاری بستی میں
آئے تو تم لوگ زبردستی اس کے ساتھ بدفعلی کرو۔ چنانچہ سب سے پہلے ابلیس خود
ایک خوبصورت لڑکے کی شکل میں مہمان بن کر اس بستی میں داخل ہوا۔ اور ان
لوگوں سے خوب بدفعلی کرائی اس طرح یہ فعلِ بد ان لوگوں نے شیطان سے سیکھا۔
پھر رفتہ رفتہ اس برے کام کے یہ لوگ اس قدر عادی بن گئے کہ عورتوں کو چھوڑ
کر مردوں سے اپنی شہوت پوری کرنے لگے۔ استغفر اﷲ استغفراﷲ ۔اﷲ معاف کرے (
روح البیان)
چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو اس فعلِ بد سے منع کرتے ہوئے
رہے ۔
ترجمہ کنزالایمان:۔اپنی قوم سے کہا کیا وہ بے حیائی کرتے ہو جو تم سے پہلے
جہان میں کسی نے نہ کی تم تو مردوں کے پاس شہوت سے جاتے ہو عورتیں چھوڑ کر
بلکہ تم لوگ حد سے گزر گئے۔(پ8،الاعراف:80،81)
حضرت لوط علیہ السلام کے اس اصلاحی اور مصلحانہ وعظ کو سن کر ان کی قوم نے
نہایت بے باکی اور انتہائی بے حیائی کے ساتھ کیا کہا؟ اس کو قرآن کی زبان
سے سنئے:۔
وَمَاکَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَخْرِجُوْہُمْ مِّنْ
قَرْیَتِکُمْ اِنَّہُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَہَّرُوْنَ ()
ترجمہ کنزالایمان:۔ اور اس کی قوم کا کچھ جواب نہ تھا مگر یہی کہنا کہ ان
کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو پاکیزگی چاہتے ہیں ۔ (پ8،الاعراف:82))
جب قوم لوط کی سرکشی اور بدفعلی قابل ہدایت نہ رہی تو اﷲ تعالیٰ کا عذاب
آگیا۔ چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام چند فرشتوں کو ہمراہ لے کر آسمان سے
اتر پڑے۔ پھر یہ فرشتے مہمان بن کر حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے اور
یہ سب فرشتے بہت ہی حسین اور خوبصورت لڑکوں کی شکل میں تھے۔ ان مہمانوں کے
حسن و جمال کو دیکھ کر اور قوم کی بدکاری کا خیال کر کے حضرت لوط علیہ
السلام بہت فکرمند ہوئے۔ تھوڑی دیر بعد قوم کے بدفعلوں نے حضرت لوط علیہ
السلام کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور ان مہمانوں کے ساتھ بدفعلی کے ارادہ سے
دیوار پر چڑھنے لگے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے نہایت دل سوزی کے ساتھ ان
لوگوں کو سمجھانا اور اس برے کام سے منع کرنا شروع کردیا۔ مگر یہ بدفعل اور
سرکش قوم اپنے بے ہودہ جواب اور برے اقدام سے باز نہ آئی۔ تو آپ اپنی
تنہائی اور مہمانوں کے سامنے رسوائی سے تنگ دل ہوکر غمگین و رنجیدہ ہو گئے۔
یہ منظر دیکھ کر حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا کہ اے اﷲ عزوجل کے نبی
آپ بالکل کوئی فکر نہ کریں۔ ہم لوگ اﷲ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو
ان بدکاروں پر عذاب لے کر اترے ہیں۔ لہٰذا آپ مومنین اور اپنے اہل و عیال
کو ساتھ لے کر صبح ہونے سے قبل ہی اس بستی سے دور نکل جائیں اور خبردار
کوئی شخص پیچھے مڑ کر اس بستی کی طرف نہ دیکھے ورنہ وہ بھی اس عذاب میں
گرفتار ہوجائے گا۔ چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں اور مومنین
کو ہمراہ لے کر بستی سے باہر نکل گئے۔ پھر حضرت جبریل علیہ السلام اسشہر کی
پانچوں بستیوں کو اپنے پروں پر اٹھا کر آسمان کی طرف بلند ہوئے اور کچھ
اوپر جا کر ان بستیوں کو الٹ دیا اور یہ آبادیاں زمین پر گر کر چکنا چور ہو
کر زمین پر بکھر گئیں۔ پھر کنکر کے پتھروں کا مینہ برسا اور اس زور سے سنگ
باری ہو ئی کہ قوم لوط کے تمام لوگ مر گئے اور ان کی لاشیں بھی ٹکڑے ٹکڑے
ہو کر بکھر گئیں۔ عین اس وقت جب کہ یہ شہر الٹ پلٹ ہو رہا تھا۔ حضرت لوط
علیہ السلام کی ایک بیوی جس کا نام ''واعلہ'' تھا جو درحقیقت منافقہ تھی
اور قوم کے بدکاروں سے محبت رکھتی تھی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھ لیا اور یہ
کہا کہ ''ہائے رے میری قوم''یہ کہہ کر کھڑی ہو گئی پھر عذابِ الٰہی کا ایک
پتھر اس کے اوپر بھی گر پڑا اور وہ بھی ہلاک ہو گئی۔ چنانچہ قرآن مجید میں
حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:۔
فَاَنْجَیْنٰہُ وَاَہْلَہٓ اِلَّا امْرَاَتَہ کَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ
?83?وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہِمْ مَّطَرًا فَانْظُرْکَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ
الْمُجْرِمِیْنَ ()
ترجمہ کنزالایمان:۔تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی مگر اس کی
عورت وہ رہ جانے والوں میں ہوئی اور ہم نے اُن پر ایک مینہ برسایا تو دیکھو
کیسا انجام ہوا مجرموں کا۔(پ8،الاعراف:83،84))
جو پتھر اس قوم پر برسائے گئے وہ کنکروں کے ٹکڑے تھے۔ اور ہر پتھر پر اُس
شخص کا نام لکھا ہوا تھا جو اس پتھر سے ہلاک ہوا۔
(تفسیر الصاوی،ج،ص،پ،الاعراف)
محترم قارئین :اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ لواطت کس قدر شدید اور ہولناک گناہ
کبیرہ ہے کہ اس جرم میں قوم لوط کی بستیاں الٹ پلٹ کر دی گئیں اور مجرمین
پتھراؤ کے عذاب سے مر کر دنیا سے نیست و نابود ہو گئے۔
منقول ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مرتبہ ابلیس لعین سے پوچھا کہ
اﷲ تعالیٰ کو سب سے بڑھ کر کون سا گناہ ناپسند ہے؟ تو ابلیس نے کہا کہ سب
سے زیادہ اﷲ تعالیٰ کو یہ گناہ ناپسند ہے کہ مرد، مرد سے بدفعلی کرے اور
عورت، عورت سے اپنی خواہش پوری کرے۔ اور حدیث میں ہے کہ عورت کا اپنی فرج
کو دوسری عورت کی فرج سے رگڑنا یہ ان دونوں کی زنا کاری ہے جو گناہ کبیرہ
ہے۔
( روح البیان ،سورۃ الاعراف)
محترم قارئین :دیکھا آپ نے کے کس قدر قبیح فعل ہے ۔آہ !افسوس صد افسوس کہ
ہمارا معاشرہ کس تیزی کے ساتھ اس بھیانک فعل میں لذات کو تلاش کرتا پھر
رہاہے ۔اخبارات اور ٹی وی سکرین پر آپ گاہے گاہے ایسے کیسسز پڑھتے اور سنتے
رہتے ہیں ۔ایک التماس ہے کہ اپنے گردونواح میں اس طرح کی کوئی حرکت دیکھیں
تو اس کے اخلاقی ،مذہبی اور ملی سد باب کے لیے کوشش ضرور کریں ۔کیوں کہ آپ
اور میں نے اس معاشرے میں رہنا ہے ۔ہماری آتی نسلوں کا یہی مسکن ہے تو بھلا
اسے کون عقل مند کہہ گا کہ جو اپنے آشیانے کو تعفن زدہ ،آلود ہ کرے گا۔۔
محترم قارئین :آخر میں ایک بات کہ معاشرے کی بہتری اور ایک اچھے نظام ِ
تعلیم کو ترویج دینے کے لیے میں نے بھی اپنے بصیرت و بصارت کے موافق کوشش
کی ہے ۔جدید و عصری چینلجز سے نمبر دآزما ہونے کے لیے ایک اکیڈمی فاطمۃ
الزہراء اسلامک اکیڈمی کی بنیاد رکھی ہے ۔جس کا قیام اور اور اس کا ارتقاء
آپ کے تعاون ہی سے ممکن ہے ۔میں اس تحریر کے توسط سے آپ سے پرزور اپیل
کرتاہوں ۔اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔
رابطہ نمبر: 0346-2914283 |