آج وہ معمول سے کافی پہلے دفتر پہنچی۔ دوسرے دن سے تمام
اسکول دو ماہ کی چھٹیوں کے لئے بند ہونے والے تھے اور ہیڈ مسٹریس ہونے کی
وجہ سے اسے کام نمٹانا تھا۔
کمرے میں داخل ہونے کے بعد اس نے اپنی سیٹ سنبھالی اور نقاب ہٹانے کے لئے
جونہی ہاتھ بڑھائے نظر سائیڈ پر پڑے صوفے پر چلی گئی۔حیرت کے ساتھ ساتھ اسے
بوا پر غصہ بھی آیا بھلا مجھے بتایا بھی نہیں کہ اندر کوئی صاحب بیٹھے ہیں۔
خیر بوا سے تو بعد میں نمٹوں گی ۔ نقاب اتارنے کا ارادہ ترک کر کے وہ سیٹ
پر اسی طرح بیٹھنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔
’’السلام علیکم!‘‘
اجنبی نے خود ہی تعارف کا سلسلہ شروع کر دیا بڑی سحر انگیز شخصیت تھی ،
مردانہ حسن و جمال کا شاہکار سفید شلوار سوٹ میں ملبوس زندگی سے بھرپور
مسکراتے لب اور جگمگاتی آنکھیں جن سے عجیب سی روشنی پھوٹ رہی تھی ۔ بلا شبہ
دوسرے کو مسحور کر دینے والی شخصیت تھی اس قدر مضبوط اور بولڈ قسم کا مزاج
رکھنے کے باوجود بری طرح متاثر تھی مگر اسی طرح لمحوں میں خود پر قابو پا
لیا کرتی تھی ۔
’’وعلیکم السلام!‘‘
مضبوط اور سرد لہجے میں اس نے جواب دیا۔ فرمائیے آپ کو کس سے ملنا ہے؟‘‘
’’مجھے آپ سے ملنا ہے صرف آپ سے! ‘‘ اجنبی نے شہادت کی انگلی اس کی جانب
اٹھائی۔
’’مگر میں آپ کو نہیں جانتی، پھر بھلا آپ مجھ سے کس لئے ملنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’ہاں ! تم مجھے نہیں جانتیں، مگر میں تمہیں جانتا ہوں بہت اچھا طرح ، اتنا
زیادہ کہ مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا اور نہ جان سکتا ہے۔‘‘ دھیمی دھیمی
پر سوز اور شفیق آواز کمرے میں پھیلی ہوئی تھی اور وہ سحر زدہ سی بیٹھی سن
رہی تھی۔ آج سے پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا تھا ۔
تم نے ہمیشہ میری طلب کی، مجھ سے ملنا چاہا۔ میرے حصول کی لگن نے تمہیں
کبھی چین سے نہیں بیٹھنے دیا۔ ہمیشہ مضطرب رکھا، ہر لمحہ ہر گھڑی تمہاری
نگاہیں مجھے ڈھونڈا کرتی ہیں ۔ جہاں بھی جس جگہ بھی تم جاتی ہو صرف میرا
حصول تمہارے پیش نظر رہتا ہے۔ بھوک پیاس، سردی گرمی، تھکن سب کچھ تم نے
میرے لئے برداشت کیا۔ تم نے میرے علاوہ کسی اور طرف کبھی نظر اٹھا کر بھی
نہیں دیکھا۔ مجھ سے دور کرنے کے لئے تمہیں نکاح کے بندھن میں باندھا گیا۔
مامتا کی وزنی زنجیریں پہنائی گئیں، مگر تم ان تمام رکاوٹوں سمیت میری تلاش
میں پہنچی ہو ۔ اتنا تعارف کافی ہے یا کچھ اور بتاؤں؟ اس کی سوالیہ نظریں
اسی پر مرکوز تھیں۔
’’ہاں میں نے پہچان لیا ہے۔ ‘‘ اسے اپنی آواز بہت دور سے آتی محسوس ہوئی۔
ہاں دور ہی تو پہنچ گئی تھی۔ آگاہی کا لمبا سفر منٹوں میں طے کر لیا تھا اس
نے کہا۔ میں اتنی خوش قسمت ہوں کہ میرے عشق میں اتنا سوز اتنا گداز ہے؟
اور کتنا سوز چاہتی ہو اور کتنا گداز درکار ہے تمہیں؟ اپنی آنکھوں کو کبھی
غور سے دیکھاہے؟
رونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی
ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے۔ ایک وقت ہوتا ہے جب فاصلے سمٹ جاتے ہیں۔ وہ وقت
آ گیا ہے۔ تمہاری انا کو ٹھیس پہنچانے والے، تمہارے اوقات۔۔۔۔۔ کو مجروح
کرنے والے ۔ ایک نہ ایک دن کہیں گے کہ تم تنہا نہیں ہو، تمہارے رب نے
تمہارے اندر اس چیز نے طلب پیدا کی جسے کبھی ۔۔۔۔۔ نہیں اور وہ خود ہمیشہ
فانی چیزوں پر مرتے رہے ہیں تب ۔۔۔۔ کہیں گے ہم نے کتنا خسارے کا سودا کیا
تھا۔
تمہاری افسردگی، دل گرفتگی روز بروز سوا ہوتی جا رہی ہے۔ رویا نہ کرو اچھی
لڑکی روتے تو وہ ہیں جن کے راستے کھو ٹے اورمنزل نامعلوم ہوتی ہے۔
میرے سودائی ہمیشہ طاقتور اور سب پر غالب رہتے ہیں، متاثر کرتے ہیں۔ متاثر
ہوتے ہیں۔ تم سمجھتی ہو میرا حصول صرف بڑی بڑی درس گاہوں میں ہی ممکن ہے۔
نہیں ایسا نہیں ہے ۔ میں ہر اس جگہ موجود ہوتا ہوں جہاں سچے دل سے میری طلب
کی جاتی ہے۔ سائنس، آرٹ، ٹیکنک سب میرے مختلف روپ ہیں۔ اگر میری بنیاد ،
میرا سرچشمہ میرا منبع تو وہ ہے جو ہر گھر میں ہر دل میں موجود ہے۔ تیس
سپاروں کی شکل میں جوخدا اور اس کے بندوں کے درمیان رابطہ ہے اور قیامت تک
رہے گا۔ پاکیزگی اور خلوص نیت کے ساتھ میری رہنمائی میں زندگی کے اصول مرتب
کرو، سارے دکھ سارے غم مٹ جائیں گے۔ کسی چیز کی طلب نہ رہے گی، روح کی
سیرابی اور جسم کی شادابی اس میں پنہاں ہے آج کے بعد تم مجھے اپنے سامنے نہ
پاؤ گی مگر میں تمہارے ساتھ ہوں تمہارے دل میں ہوں۔ ان سب کے ساتھ ہوں جن
کے کردارو اطوار، گفتگو، نشست و برخاست اور سونے جاگنے میں میرا رنگ نظر
آتا ہے۔ اس کے خلاف میں ان سب سے دور رہتا ہو جو میرا نام لے کے کر میرے
اصولوں کے خلاف چلتے ہیں اور مجھے رسوا کرتے ہیں۔ وہ لاکھ مجھے پکاریں۔ میں
ان سے دور ہی رہتا ہوں۔
یاد رکھو ں میں تمہارے قریب ہوں، تمہارے دل میں رہتا ہوں، تمہارے گھر میں
رہتا ہوں، جس وقت چاہو مجھ سے مل لو پاکیزگی اور طہارت کے ساتھ ، سر پہ
آنچل ہو نگاہیں نیچی ہوں، پھر مجھ سے ملنا کیا مشکل ہے۔
اسی لمحے مددگار ۔۔۔۔۔۔استاد کے کمرے میں داخل ہونے کی آہٹ ہوئی اور وہ جو
نگاہیں جھکائے گم سم بیٹھی تھی، چونک پڑی۔ اب وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ صرف
لہجہ کی مٹھاس اور باتوں کی خوشبو تھی۔ اس نے مطمئن انداز میں آسودہ انداز
میں سر کرسی کی پشت سے ٹیک دیا۔
اگر وہ تصور تھا تو اس پر سے ہزار حقیقتیں قربان کی جا سکتی تھیں اور اگر
حقیقت تھا تو ہمیشہ تصور میں رہنے کے قابل تھا۔ |